البم
ترک بادشاہوں کو اسلام سے خصوصی محبت تھی، یہ محبت عقیدت کی جھیل میں جنم لیتی تھی اور تصوف کے پالنے میں پلتی تھی اور یہ لوگ جب جوان ہوتے تھے تو یہ زندگی کے ہر لمحے کو اس محبت کی تصویر میں سمونے میں لگ جاتے تھے۔
سلطان محمد ثانی استنبول کا فاتح تھا، سلطان نے 21 سال کی عمر میں استنبول جیسا ناقابل تسخیر شہر فتح کر کے تاریخ کو حیران کر دیا، نوجوان سلطان نے دنیا کی عسکری تاریخ میں پہلی بار بحری جہاز پہاڑ پر چڑھا دیے اور پہاڑ سے سرکا کر دوبارہ سمندر میں اتار دیے، یہ 1453ء کے شروع میں استنبول پہنچا تو استنبول کے شہریوں نے حسب معمول گولڈن ہارن کے دھانے پر آہنی زنجیر چڑھا دی اور باسفورس میں مسالہ ڈال کر سمندر کو " آگ" لگا دی، سلطان کے ساتھ 80 ہزار فوجی تھے، سلطان نے فوجیوں کو حکم دیا، یہ استنبول کے ایشیائی ساحلوں پر اتریں، پہاڑوں پر چڑھیں، جنگل کاٹیں، پہاڑ کی ڈھلوانوں پر تختے لگائیں، ان تختوں پر جانوروں کی چربی ملیں اور جب یہ کام مکمل ہو جائے تو واپس آ کر سلطان کو اطلاع دیں، استنبول سات پہاڑیوں پر پھیلا ہوا شہر ہے، یہ شہر 1453ء تک صرف یورپی سائیڈ کی پہاڑیوں تک محدود تھا جب کہ ایشیائی پہاڑیوں نے اس وقت گہرے جنگلوں کا لباس پہن رکھا تھا، سلطان کے حکم پر جنگل کاٹا گیا،
درختوں کے تنے کاٹ کر تختے بنائے گئے، یہ تختے پہاڑ کی چوٹی تک نصب کر دیے گئے، سلطان نے مشاہدہ کیا اور یہ تختے اب پہاڑ کی دوسری طرف گولڈن ہارن تک لگانے کا حکم دے دیا، اس حکم کی تعمیل بھی ہوئی، سلطان نے تختوں پر جانوروں کی چربی لگوائی اور اس کے بعد حکم دیا بحری جہازوں کو پہاڑ تک لایا جائے پھر انھیں رسوں سے باندھ کر کھینچا جائے، پہاڑ کی چوٹی تک لایا جائے اور بعد ازاں انھیں رسوں کے ساتھ باندھ کر پہاڑ کی دوسری سمت سمندر میں اتار دیا جائے اور یہ کام صرف ایک رات میں مکمل ہونا چاہیے، سلطان کے اس عجیب و غریب حکم کی تعمیل بھی ہوئی، قسطنطنیہ کے شہری مزے سے سوتے رہے اور ترک فوج اپنے جہاز پہاڑ پر چڑھا کر گولڈن ہارن میں اتارتی رہی، اگلی صبح قسطنطنیہ کے عوام کی آنکھ کھلی تو وہ گولڈن ہارن میں ترکوں کے جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے، یہ عزم کی جادوگری تھی اور یہ جادوگری نہ صرف استنبول کی فتح کا باعث بنی بلکہ اس نے اسلامی سلطنت آسٹریا کی دیواروں تک پھیلا دی،
ترکی حکومت نے استنبول میں توپ کاپی پینوراما کے نام سے ایک تھری ڈی تھیٹر تعمیر کروایا، یہ گنبد نما عمارت ہے جس کے عین درمیان میں دائرے کی شکل کا ایک وسیع ٹیرس ہے، اس ٹیرس کے چاروں اطراف گنبد کی طرح گولائی میں سینما اسکرین ہے اور اس اسکرین پر سلطان فاتح کے حملے کی منجمد فلم چلتی ہے، یہ آواز، تصویر اور رنگوں کا ایک ایسا خوبصورت جال ہے جو آپ کو ٹیرس پر چڑھتے ہی اس عظیم جنگ کا حصہ بنا دیتا ہے، آپ کے سامنے گولے پھٹتے ہیں، لوگ فصیلوں سے گرتے ہیں، سلطان فاتح استنبول کے قلعے کی طرف اشارہ کرتا ہے، قلعے کے سپاہی قلعہ بچانے کے لیے جانیں دیتے ہیں، قلعے کی دیواریں ٹوٹتی ہیں،
آپ ٹوٹی ہوئی دیواروں کے پیچھے 1453ء کا استنبول دیکھتے ہیں اور آپ کے کانوں میں سلطان فاتح کے جنگی بینڈ کی مسلسل آوازیں آتی ہیں، یہ زمین سے لے کر آسمان تک ایک وسیع تھری ڈی عسکری پینٹنگ ہے اور روشنی اور آواز کی وجہ سے آپ ایک سیکنڈ میں اس پینٹنگ کا حصہ بن جاتے ہیں، میں نے اس نوعیت کا پینوراما دوسری بار دیکھا، مجھے پہلا تجربہ بیلجیم کے شہر واٹرلو میں ہوا تھا، بیلجیم کی وزارت سیاحت نے واٹرلو کے تاریخی میدان میں واٹرلو جنگ کا تھری ڈی پینوراما تھیٹر بنا رکھا ہے، میں یہ تھیٹر اور اس تھیٹر میں نپولین کی جنگ کا آخری حصہ دیکھ کر حیران رہ گیا لیکن توپ کاپی پینوراما واٹرلو کے پینوراما سینٹر سے زیادہ اچھا اور ایڈوانس ہے اور آپ اگر استنبول میں اس کی وزٹ نہیں کرتے تو آپ کی سیر مکمل نہیں ہوتی۔
میں واپس سلطان فاتح کی طرف آتا ہوں، سلطان فاتح نے استنبول کی فتح کے بعد شہر میں چالیس عظیم مساجد بنوائیں، اس نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے ساتھ سلطان ایوب کے نام سے انتہائی خوبصورت مسجد بنوائی، سلطان فاتح کی کامیابی سے قبل آیا صوفیہ استنبول شہر کی خوبصورت ترین عمارت تھی، یہ یورپ کا عظیم ترین چرچ تھا، یہ تعمیراتی معیار، خوبصورتی اور شکوہ میں ویٹی کن سٹی کے سینٹ پیٹرز چرچ کے برابر تھا، سلطان فاتح نے اس عمارت کو بھی استنبول کی فتح کی طرح چیلنج بنا لیا چنانچہ اس نے استنبول میں آیا صوفیہ کی طرز پر مساجد بنوانا شروع کر دیں، یہ مساجد آیا صوفیہ کی طرح زمین سے دس بارہ میٹر بلند چبوتروں پر بنائی گئیں، ان کے مینار آیا صوفیہ کی طرح نوکیلے اور بلند تھے،
ان کے گنبد بھی آیا صوفیہ کی طرح وسیع اور حیران کن حد تک اونچے تھے اور ان کے اندر بھی آیا صوفیہ کی طرح رنگین شیشے لگے تھے اور انتہائی بلندی پر اندر کی طرف گیلریاں بھی تھیں، یہ آیا صوفیہ کی طرح پُرشکوہ مگر محبت اور عقیدت میں گندھی ہوئی عمارتیں ہیں، سلطان فاتح نے شہر کے وسط میں اپنے نام سے بھی ایک مسجد تعمیر کروائی، یہ مسجد1463ء میں شروع ہوئی اور 1470ء میں مکمل ہوئی، یہ مسجد سلطان فاتح مسجد کہلاتی ہے، سلطان فاتح کا مزار بھی اسی مسجد کے پہلو میں ہے، سلطان کے مزار کے ساتھ اس کے خاندان اور دوستوں کا چھوٹا سا صاف ستھرا قبرستان بھی ہے، یہ مسجد تعمیراتی شاہکار ہے، یہ آپ کو شہر کے دو چوتھائی حصے سے دکھائی دیتی ہے اور آپ کی نظر جونہی اس کے نیلے گنبد اور سلیٹی میناروں پر پڑتی ہے،
یہ مسجد آپ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور آپ جوں ہی اس مسجد کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں آپ مسجد سلطان فاتح کے شکوہ میں گم ہو جاتے ہیں، یہ مسجد عقیدت اور محبت کی عظیم تحریر ہے جسے سلطان فاتح 49 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے استنبول کی سنہری زمین پر لکھ گیا تھا، یہ مسجد ایک روایت بھی تھی اور سلطان فاتح کے بعد آنے والے زیادہ تر ترک حکمرانوں نے اس روایت پر عمل کیا، یہ اپنی زندگی میں اپنے مزار کی جگہ منتخب کرتے تھے، اس جگہ کے ساتھ سلطان فاتح جیسی مسجد بنواتے تھے، فوت ہوتے تھے اور اس مسجد کے پہلو میں دفن ہو جاتے تھے، ان مساجد کے صدقے ان کے مزار آج تک قائم ہیں اور لوگ تین چار سو سال بعد بھی ان کے مزارات پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں، سلطانوں کے بعد شاہی خاندانوں نے بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق استنبول میں مساجد تعمیر کروائیں، یہ مساجد بھی آیا صوفیہ اور مسجد سلطان فاتح کی طرز پر تعمیر ہوئیں اور یہ بھی دیکھنے کے لائق ہیں،
سلطان فاتح اور سلطان ایوب (حضرت ابو ایوب انصاریؓ) کے بعد سلیمانیہ مسجد ( یہ مسجد مشہور ترک بادشاہ سلیمان دی گریٹ نے بنوائی تھی، سلطان سلیمان کا مزار بھی سلطان فاتح کی طرح مسجد کے پہلو میں ہے) اور شہزادی مسجد زیارت کے لائق ہے، میں دنیا جہاں میں پھرا ہوں اور میں نے دنیا کی درجنوں بڑی مسجدیں دیکھی ہیں لیکن استنبول کی مساجد کا کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ ترک سلطان صرف مسجدیں نہیں بنواتے رہے بلکہ یہ مسجدوں کی شکل میں اسلام سے اپنی محبت زمین پر رقم کرتے رہے۔
استنبول کی شامیں بھی دلچسپ تجربہ ہیں، میں مغرب سے ذرا پہلے کمرے سے نکل جاتا تھا اور کبھی سلطان احمد کے قدیم علاقے میں بلیو ماسک (نیلی مسجد)، آیا صوفیہ، باسفورس کے کنارے، گولڈن ہارن کے ساحل اور کبھی سلطان ایوب کی قدیم مارکیٹ اور کبھی گرینڈ بازار کی تنگ و تاریک گلیوں میں کھڑا ہو جاتا تھا، مغرب کے وقت استنبول کی مسجدوں سے اذان کی آواز آتی تھی اور پورے استنبول کی فضا اس آواز سے معطر ہو جاتی تھی، باسفورس کی شام دنیا کی خوبصورت ترین شاموں میں شمار ہوتی ہے،
دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس شام کے نظارے کے لیے استنبول آتے ہیں، یہ لوگ شام سے پہلے کروز اور بحری جہازوں پر سوار ہو جاتے ہیں یا پھر کسی پہاڑ کی چوٹی پر کسی ریستوران کے ٹیرس پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اپنے سامنے استنبول کے افق پر شام کو قطرہ قطرہ اترتے دیکھتے ہیں، دنیا کے تمام افق مغرب کے وقت سرخ ہو جاتے ہیں لیکن استنبول کے افق کی لالی دنیا میں کسی دوسری جگہ دکھائی نہیں دیتی، آپ کے سامنے زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سرخ آگ کی ایک پٹی ہوتی ہے، اس پٹی کے اوپر اندھیرے کی چادر آہستہ آہستہ اترتی ہے جب کہ پٹی کے نیچے باسفورس کے سنہری پانی ہلکورے لیتے ہیں اور ان ہلکورے لیتے پانیوں میں استنبول کی روشنیاں چراغ کی طرح ایک ایک کر کے روشن ہوتی جاتی ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب افق کی سرخ لالی آسمان کے اندھیرے اور استنبول کی تیز روشنیوں میں تحلیل ہو جاتی ہے اور آپ جب یہ منظر اذان کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو آپ کی روح کی گہرائیاں تک روشن ہو جاتی ہیں،
آپ سرشاری کے ایک ایسے عمل سے گزرتے ہیں جس کا ذائقہ آپ پوری زندگی فراموش نہیں کر پاتے، آپ تصور کیجیے یورپ کے خوبصورت ترین شہروں جیسا ایک صاف ستھرا، مہذب اور منظم شہر ہو اور اس شہر میں اذان کی آواز ہو اور یہ آواز ہزاروں سال پرانی گلیوں سے چھلنی سے گرتے سفید آٹے کی طرح گرتی ہو، باسفورس کے ٹھنڈے پانیوں سے گلے ملتی ہو اور پھر اوپر سرخ افق پر پہنچ کر شام کی لالی کے آتشی چہرے پر ٹھہر جاتی ہو تو آپ اس وقت کیا محسوس کریں گے اور میں استنبول میں یہ منظر روز دیکھتا تھا اور یہ اذانیں، یہ شامیں اور باسفورس میں نہائے ہوئے یہ منظر میری زندگی کا البم بن چکے ہیں، سنہری یادوں کا البم اور یہ البم شاید اب پوری زندگی میری روح میں زندہ رہے، دھڑکتی زندہ جاوید تصویروں کی طرح زندہ۔