ایک دن امرتسر کا
"آپ جا سکتے ہیں " اس ایک فقرے کے ساتھ ہی ہم پاکستان سے بھارت کی سرزمین پر تھے، ہمارے پیچھے لاہور تھا اور آگے امرتسر۔ صرف ایک لائین، ایک لکیر کا فاصلہ تھا لیکن یہ لکیر، یہ لائین ہزار سال کی تاریخ کی امین تھی اور اس امانت میں محمد بن قاسم سے لے کر قائد اعظم محمد علی جناح تک سیکڑوں ہزاروں شخصیات آتی تھیں اور ہر شخصیت ایک کہانی، ایک داستان تھی، واہگہ لاہور سے 23 کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا گائوں ہے، یہ گائوں بھارت اور پاکستان کے سنگم پر آباد ہے، اس کی ایک سائیڈ پر لاہور ہے اور دوسری سائیڈ پر امرتسر۔ میں نے 10 اپریل کی دوپہر اس لائین پر قدم رکھا، مقصد صرف یہ لائین عبور کرنا تھا، ایک دن امرتسر رکنا، ایک دن چندی گڑھ اور دو دن دہلی میں اور بس۔
کوئی کام نہیں تھا، کوئی وجہ نہیں تھی اور کوئی پس منظر بھی نہیں تھا، بس وہ لائین عبور کرنا تھی جو ہزار سال کے سفر کے بعد ہمارے آبائو اجداد نے کھینچی اور اس لائین کو دونوں اطراف کے ہزاروں لوگوں نے خون کی بلی دی، لاہور میں میرے ایک دوست ہیں ترن جیت سنگھ۔
یہ نوجوان پاکستانی سکھ ہیں، حسن ابدال سے تعلق تھا، پی ٹی وی لاہور میں کام کرتے ہیں اور میوزک کے شیدائی ہیں، میں نے ان کے ساتھ انڈیا جانے کا منصوبہ بنایا، میاں شہباز شریف نے واہگہ تک سڑک کو دو رویہ کر کے سفر آسان بنا دیا ہے، پاکستان کا کسٹم ہائوس اور امیگریشن ہال بھی شاندار ہے، یہ عمارت نئی بنی ہے، پرانی عمارت کے بارے میں لوگوں کے بے شمار تحفظات تھے مگر نئی عمارت خوبصورت بھی ہے اور پاکستان کے شایانِ شان بھی۔
بھارتی سائیڈ کا امیگریشن ہال ذرا فاصلے پر واقع ہے، آپ بھارتی سائیڈ سے شٹل بس پر بیٹھتے ہیں اور یہ بس آپ کو امیگریشن ہال تک پہنچاتی ہے، بھارتی سائیڈ کی کارروائی ذرا لمبی بھی تھی اور غیر ضروری بھی تاہم عملہ اچھا اور تعاون کرنے والا تھا، ہم لوگوں کو تھوڑی سی دقت ہوئی لیکن آخر میں تمام معاملات طے پا گئے، پاکستان کی سائیڈ پر واہگہ تھا اور بھارتی سائیڈ پر اٹاری۔
آپ امیگریشن آفس کے باہر کھڑے ہو کر دیکھیں تو آپ کو دونوں اطراف میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا، وہی ہوائیں، وہی سورج، وہی وقت، وہی منظر اور پنجاب کی اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتی چڑیاں، کوے اور طوطے، زبان تک ایک تھی، ہم نے جس زبان میں واہگہ پر بات کی ہم وہی زبان اٹاری میں بول رہے تھے۔ بس رسم الخط کا فرق تھا۔
سرحد کی ایک طرف اردو اور پنجابی کو اردو میں لکھا جاتا ہے اور دوسری طرف پنجابی اور اردو گرمکھی میں لکھی جاتی ہے جب کہ شکلیں، کلچر، حرکتیں اور رسمیں تک ایک ہیں، وہی گندگی، وہی سستی، وہ مکھیاں اور وہی اکھڑ پن اور وہی کھلا پن جو پنجاب کا خاصا ہے، وہ دونوں طرف موجود تھا، اٹاری گائوں سے امرتسر آنے میں 20 منٹ لگتے ہیں، امرتسر کے دو حصے ہیں، ایک ماڈرن امرتسر اور دوسرا پرانا امرتسر۔ ماڈرن امرتسر نسبتاً نیا ہے، اس میں ریستوران، کافی شاپس، شاپنگ سینٹرز اور جدید مکان ہیں، اولڈ امرتسر قدیم لاہور سے ملتا جلتا ہے، تنگ گلیاں، گرد و غبار، گرمی اور گندگی۔ شہر میں سائیکل رکشے اور آٹو رکشے عام ہیں۔
پاکستانی سائیڈ اور بھارتی سائیڈ میں تین بڑے فرق ہیں، امرتسر اور چندی گڑھ میں سڑکوں پر عورتیں بہت دکھائی دیتی ہیں، مختلف عمر کی خواتین سڑکوں پر بے خطر سائیکل اور اسکوٹر چلاتی ہیں، یہ دکانوں پر سیلز گرل کی حیثیت سے کام کرتی بھی نظر آتی ہیں اور سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بھی اور ان کے چہروں پر کسی قسم کا خوف یا خدشہ نظر نہیں آتا۔ یہ چیز ثابت کرتی ہے بھارت کی عورت پاکستانی عورت کے مقابلے میں لبرل بھی ہے، محفوظ بھی اور ایکٹو بھی۔ دوسرا آپ کو بھارتی سائیڈ پر سڑکوں پر پولیس یا فوج نظر نہیں آتی، کسی جگہ ناکہ نہیں، کسی جگہ مسلح گارڈ نہیں اور کسی جگہ مورچہ نہیں اور آپ کو کسی جگہ اسلحہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے بھارت "لاء اینڈ آرڈر" میں ہم سے بہت آگے ہے۔
اور تیسری بات، بھارت پاکستان کی نسبتاً سستا ہے، خوراک، کپڑے اور سواری سستی ہے، آپ چالیس پچاس روپے میں پورا شہر پھر لیتے ہیں، دس روپے بڑی ٹپ ہے، آپ پندرہ روپے میں کپڑے استری کروا لیتے ہیں، امرتسر کی لسی بہت مشہور ہے، آپ کو یہ خالص لسی تیس روپے میں مل جاتی ہے، آپ کسی ڈھابے یا ریستوران میں چلے جائیں، آپ کو تین چار سو روپے میں شاندار کھانا مل جاتا ہے، غریب لوگ پچاس روپے میں بہت اچھا کھانا کھا لیتے ہیں، ہمارے ملک میں یہ تمام ضروریات مہنگی ہیں، لاہور امرتسر کے مقابلے میں صاف ستھرا شہر ہے تاہم یہ چندی گڑھ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
گولڈن ٹمپل اور جلیانوالہ باغ امرتسر کی دو بڑی اٹریکشن ہیں، گولڈن ٹمپل سکھ مت کی متبرک ترین عبادت گاہ ہے، یہ عمارت خوبصورتی اور سلیقے میں خود اپنی مثال آپ ہے، یہ چاروں اطراف سے سفید اطالوی برآمدوں میں گھری ہوئی ہے، آپ جوں ہی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہیں، پانی کا وسیع تالاب آپ کے سامنے آ جاتا ہے، پانی کے عین درمیان سونے کی پرکشش عمارت ہے، یہ عمارت دور سے سنہری رنگ کا بحری جہاز محسوس ہوتی ہے، روزانہ ہزاروں یاتری اس عمارت کی یاترا کے لیے آتے ہیں، عمارت پر سیکڑوں ٹن سونا استعمال ہوا، گوردواروں کی روایات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہیں، آپ جوتے اتار کر گوردوارے میں داخل ہوتے ہیں۔
سکھ جوتوں کو "جوڑا" کہتے ہیں، گوردوارے کے گیٹ پر صاف پانی کا چھوٹا سا ذخیرہ ہوتا ہے، آپ اس ذخیرے سے پائوں دھوتے ہیں، یہ روایت گولڈن ٹمپل میں بھی موجود ہے، آپ کو گیٹ پر مالٹے رنگ کے رومال ملتے ہیں، نان سکھوں کے لیے یہ رومال باندھنا ضروری ہوتا ہے، سکھ گولڈن ٹمپل کی دہلیز پر سجدہ کرتے ہیں یا دہلیز کو چھو کر ہاتھ سینے، ماتھے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں، سکھ اپنے یاتریوں کے جوتے صاف کرنا اور پالش کرنا اعزاز سمجھتے ہیں، یہ جوتوں کے سینٹرز میں اپنا نام لکھوا دیتے ہیں، سینٹرز کی انتظامیہ انھیں باری باری بلاتی رہتی ہے، یہ لوگ یاتریوں کے جوتے پالش کرتے ہیں، آپ جوتوں کے سینٹر میں گندا جوتا جمع کراتے ہیں اور آپ کو واپسی پر پالش شدہ جوتا مل جاتا ہے، یہ جوتا کس نے پالش کیا؟ ہو سکتا ہے یہ شخص من موہن سنگھ ہو یا پھر کوئی سکھ وزیر، مشیر ہو یا سفیر۔
لوگ گولڈن ٹمپل کی سیوا کے لیے موجود ہوتے ہیں، یہ ہزاروں لوگوں کا لنگر تیار کرتے ہیں، فرش صاف کرتے ہیں، پانی اور کھانے کے برتن مانجھتے ہیں اور بزرگوں کے ہاتھ اور پائوں دابتے ہیں، گولڈن ٹمپل کا بجٹ پنجاب کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ تمام رقم سکھ چندے کی شکل میں جمع کراتے ہیں، ٹمپل کے اردگرد سیکڑوں رہائش گاہیں ہیں، آپ کسی بھی رہائش گاہ میں صرف گیارہ روپے ادا کر کے رہ سکتے ہیں، کھانا پینا فری ہو گا، یاتریوں کو پرشاد دیا جاتا ہے، یہ پرشاد سوجی کا حلوا ہوتا ہے، ٹمپل میں پرشاد تیار ہوتا ہے، آپ یہ پرشاد خریدتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پرشاد بانٹنے والوں کو دیتے ہیں اور وہ آپ کا پرشاد یاتریوں میں تقسیم کرتے ہیں، آپ ایک وقت میں 51 روپے سے زیادہ کا پرشاد نہیں خرید سکتے، یہ قانون دولت کی نمائش سے بچنے کے لیے بنایا گیا تا کہ کوئی امیر شخص ہزاروں لاکھوں روپے کا پرشاد خرید کر دوسروں پر رعب نہ جھاڑ سکے۔
اندرا گاندھی گولڈن ٹمپل کے خلاف تھی اس نے جون 1984ء میں گولڈن ٹمپل پر فوج چڑھا دی، اس نے گولڈن ٹمپل کا اثر ختم کرنے کے لیے دُرگا کا مندر بنوایا، یہ مندر گولڈن ٹمپل کی ہو بہو کاپی ہے لیکن گولڈن ٹمپل ہر وقت آباد جب کہ یہ مندر ویران دکھائی دیتا ہے، یہ مندر سرکاری سرپرستی میں چلتا ہے، سرکار اس پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن یہ کروڑوں روپے اس مندر کو آباد نہیں کر سکے، اس کے مقابلے میں گولڈن ٹمپل پر کبھی رونق ختم نہیں ہوتی۔ یہ چیز ثابت کرتی ہے جب تک کسی شخصیت یا کسی مقام کو اوپر سے منظوری نہیں ملتی وہ اس وقت تک آباد نہیں ہو سکتا، لوگ اس وقت تک اس کی طرف کِھنچ کر نہیں آتے، جلیانوالہ باغ اس شہر کی دوسری بین الاقوامی پہچان ہے۔
انگریز نے جنوری 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے نام سے ہندوستان میں ایک جابرانہ قانون نافذ کیا، یہ قانون "تحفظ پاکستان بل" سے ملتا جلتا تھا، اس بل کے ذریعے سرکار کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر نظر بند کر سکتی تھی، یہ اسے جلاوطن بھی کر سکتی تھی اور گرفتار بھی۔ ہندوستان کے لوگوں نے اس بل کے خلاف شدید مزاحمت کی، قائداعظم نے قانون ساز اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا، گاندھی جی نے ستیہ گرہ تحریک کا اعلان کر دیا، حکومت نے جلسوں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی، امرتسر کے 20 ہزار لوگ 13 اپریل 1919ء کو جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے، یہ رولٹ ایکٹ کے خلاف پر امن مظاہرہ کرنا چاہتے تھے، بریگیڈیئر جنرل آر ای ایچ ڈائر نے باغ کے دونوں دروازوں پر فوج کھڑی کی اور فائر کھلوا دیا۔
برٹش آرمی اس وقت تک فائر کرتی رہی جب تک ان کی گولیاں ختم نہیں ہو گئیں، اس حملے میں 379 لوگ مارے گئے جب کہ 1208 زخمی ہوئے، یہ انسانی حقوق پر تاریخ کا بہت بڑا حملہ تھا، اس حملے کے نقش آج بھی جلیانوالہ باغ میں موجود ہیں اور لوگ گولڈن ٹمپل کے بعد ان نقوش کی زیارت کرتے ہیں، یہ نقوش ثابت کرتے ہیں تاریخ کے ماتھے پر اگر ایک بار زخم آ جائیں تو آپ پھر وقت کی کتنی ہی گرد کیوں نہ اُڑا لیں، یہ زخم نہیں چھپتے، جلیانوالہ باغ اس تاریخی حقیقت کی بہت بڑی دلیل ہے، اس سانحے کا ذمے دار جنرل ڈائر بعد ازاں برطانیہ میں ایک سکھ جوان اودھم سنگھ کے ہاتھوں مارا گیا، اودھم سنگھ برطانیہ کیسے پہنچا، اس نے جنرل ڈائر کو کیسے تلاش کیا اور اس نے جنرل ڈائر کو کس طرح جہنم واصل کیا، یہ کہانی بھی اپنی جگہ بہت دلچسپ ہے مگر یہ کہانی پھر کبھی سہی۔