ایک اور اصغر خان کیس
یہ کیس 2015ء میں شروع ہوا، سمٹ بینک خیابان عظیم برانچ کا ایک ملازم ایف آئی اے کراچی کے اینٹی کرپشن سرکل میں آیا، ڈپٹی ڈائریکٹر کو سمٹ بینک کا ایک اکاؤنٹ نمبر دیا اور اسے بتایا "یہ اکاؤنٹ جعلی ہے اور اس کے ذریعے اربوں روپے دائیں بائیں ہو رہے ہیں" ایف آئی اے نے خفیہ تحقیقات کیں، پتہ چلا یہ اے ون انٹرنیشنل کمپنی کا اکاؤنٹ ہے اور کمپنی کا مالک طارق سلطان ہے، ایف آئی اے نے طارق سلطان کو بلا لیا، طارق سلطان اکاؤنٹ دیکھ کر حیران رہ گیا، اس نے بتایا میں نے آج تک کوئی کمپنی بنائی اور نہ کوئی اکاؤنٹ کھلوایا، ڈپٹی ڈائریکٹر نے رپورٹ بنا کر ڈائریکٹر کو بھجوا دی، شاہد حیات اس وقت ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر تھے، شاہد حیات نے انکوائری کا حکم دے دیا، ایف آئی اے نے بینک سے اکاؤنٹ اوپننگ فارم منگوا لیا، ملزم طارق سلطان اور بینک اوپننگ فارم کے دستخطوں کی پڑتال کی، رائٹنگ ایکسپرٹس نے دستخطوں کے فرق کی تصدیق کر دی، ملزم نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کرا دیا یوں اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ کی تحقیقات شروع ہوگئیں۔
تفتیش کے دوران سات نئے اکاؤنٹ سامنے آ گئے، ان اکاؤنٹ ہولڈرز کو بلایا گیا، یہ بھی اپنے اکاؤنٹس سے واقف نہیں تھے، کسی نے ان کے شناختی کارڈز پر اکاؤنٹس کھولے، اربوں روپے کا لین دین کیا اور ان لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، ان اکاؤنٹس سے کراچی کی ایک ٹریول ایجنسی فضل ربی کو بھی پے منٹس ہوئی تھیں، فضل ربی کے مالک کوبلایا گیا، مالک نے بتایا "یہ بلاول ہاؤس کے ایئر ٹکٹس کی پے منٹس ہیں" ایف آئی اے نے ٹکٹوں کا ریکارڈ مانگ لیا، ایجنسی نے ریکارڈ دے دیا، ریکارڈ میں بلاول ہاؤس کے تمام اہم لوگوں کے ٹکٹ شامل تھے، ایان علی کے ٹکٹ بھی فضل ربی نے جاری کیے تھے اور ان کی پے منٹس بھی جعلی اکاؤنٹ سے ہوئی تھیں، یہاں تک کی انکوائری تین لوگوں تک محدود تھی، سب انسپکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرکل اور ڈائریکٹر شاہد حیات، ان تینوں پر بے تحاشہ دباؤ آیا، سمٹ بینک کے صدر حسین لوائی اور اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید دونوں نے دباؤ ڈالنے کا کوئی طریقہ نہ چھوڑا، یہ تینوں ڈٹ گئے اور انھوں نے رپورٹ ہیڈ کوارٹر اور وزیرداخلہ چوہدری نثار کو بھجوا دی۔
آپ کو یاد ہوگا چوہدری نثار نے 12 اگست 2016ء کو پریس کانفرنس میں انکشاف کیا "بلاول اور ایان علی کے ایئر ٹکٹ کی پے منٹس ایک ہی اکاؤنٹ سے ہوتی ہیں " چوہدری نثار نے یہ انکشاف اسی رپورٹ کی بنیاد پر کیا تھا، ایف آئی اے نے اس دوران اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکام کوبھی بلا کر پوچھا "سمٹ بینک کے 29 اکاؤنٹس سے چار ارب 58 کروڑ روپے کا لین دین ہوا لیکن آپ کے سسٹم کو کیوں پتہ نہیں چلا؟" اسٹیٹ بینک نے سمٹ بینک پر ذمے داری ڈال دی، اس کا کہنا تھا سمٹ بینک نے ہمیں اطلاع نہیں دی، ایف آئی اے نے برانچ منیجر عادل شاہ، ریلیشن شپ منیجر نورین سلطان اور آپریشن منیجر کرن امان کو بلایا، تینوں نے نہ صرف جعلی اکاؤنٹس کا اعتراف کر لیا بلکہ یہ بھی بتا دیا یہ اکاؤنٹس اومنی گروپ کے چیف فنانس آفیسر اسلم مسعود اور عارف خان نے کھلوائے تھے، ہم نے ان اکاؤنٹس کے بارے میں بینک کے صدر حسین لوائی کو لکھا تھا لیکن انھوں نے ہمیں اکاؤنٹس کھولنے اور خاموش رہنے کا حکم دیا تھا، یہ تفتیش جاری تھی کہ بول ٹی وی کا ایشو سامنے آ گیا، وفاقی حکومت جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم توڑنا چاہتی تھی چنانچہ چوہدری نثار کے حکم پر ڈپٹی ڈائریکٹر کو پولیس ڈیپارٹمنٹ واپس بھجوا دیا گیا، یہ کراچی میں ایس ایس پی لگ گئے، ڈائریکٹر شاہد حیات اور تفتیشی افسر کو بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا یوں 29 جعلی اکاؤنٹس اور 4 ارب 58 کروڑ روپے کا ایشو فائل بنا اور یہ فائل فائلوں کے انبار میں دفن ہو گئی۔
یہ فائل دو سال فائلوں کے اندر چھپی رہی، 4 اگست 2017ء کو بشیر میمن ایف آئی اے کے ڈی جی بن گئے، یہ پولیس سروس سے تعلق رکھتے ہیں اور انتہائی ایماندار اور دبنگ افسر ہیں، یہ آئے اور انھوں نے پرانی فائلیں نکالنا شروع کر دیں، جعلی اکاؤنٹس کی فائل ان کے سامنے آ گئی، ڈی جی نے ڈائریکٹر سندھ سے اس فائل کے بارے میں پوچھا، اس نے جواب دیا "سر یہ انتہائی حساس کیس ہے، ہم اسے ہاتھ نہیں ڈال سکتے" میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں بشیر میمن نے اس کیس کو ایکٹو کرنے کے لیے سندھ میں دو دبنگ ڈائریکٹر تعینات کیے، یہ افسر امیر شیخ اور منیر احمد شیخ تھے، یہ دونوں بھی اس فائل کو ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہیں تھے، بشیر میمن کے لیے یہ صورتحال قابل قبول نہیں تھی چنانچہ یہ2018ء کے جون میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس گئے۔
ساری صورت حال ان کے گوش گزار کی اور ان سے عرض کیا آپ کے علاوہ پورے ملک میں کوئی شخص اس کیس میں ہاتھ نہیں ڈالے گا، چیف جسٹس نے 29جون کو سو موٹو نوٹس لے لیا، 8 جولائی کو پہلی سماعت ہوئی اور آصف زرداری، فریال تالپور اور اسٹیٹ بینک کے حکام سمیت 20 افراد کو طلب کر لیا گیا، ایف آئی اے نے سماعت سے قبل 6 جولائی 2018ء کو انور مجید، عبدالغنی مجید، حسین لوائی، اسلم مسعود، سمٹ بینک کے چیئرمین نصیر عبداللہ لوتھا، نزلی مجید، نمرہ مجید، محمد عارف خان، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی اور طحہٰ رضا کے خلاف ایف آئی آردرج کر دی، آصف علی زرداری اور فریال تالپور نے اس ایف آئی آر کے بعد بینکنگ کورٹ کراچی سے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی، اس ضمانت میں بار بار توسیع ہوتی رہی، یہ اب 23 جنوری تک ضمانت پر ہیں، ڈی جی ایف آئی اے نے اس دوران سندھ کے لیے ایڈیشنل ڈی جی کا نیا عہدہ تخلیق کیا اور مشہور پولیس افسر نجف قلی مرزا کو اس عہدے پر تعینات کر دیا، نجف مرزا آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی دوست (سابق) ذوالفقار علی مرزا کے کزن ہیں، یہ انتہائی ایماندار اور جرأت مند پولیس افسر ہیں، آصف علی زرداری جن دنوں جیل میں تھے۔
یہ اس وقت سینٹرل جیل کراچی کے سپرنٹنڈنٹ ہوتے تھے، آصف علی زرداری نے ان سے جیل میں چند رعایتیں مانگیں لیکن نجف مرزا نے انکار کر دیا، زرداری صاحب برا منا گئے چنانچہ 2008ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو نجف مرزا کو او ایس ڈی بنا دیا گیا، یہ پانچ سال کھڈے لائن رہے، ذوالفقار مرزا اس وقت صدر آصف علی زرداری کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہوتے تھے، یہ سندھ کے دبنگ وزیر داخلہ بھی تھے، نجف مرزا اور ذوالفقار مرزا اس زمانے میں بھی ایک دوسرے کے انتہائی قریب تھے، یہ ذوالفقار مرزا کی گاڑی تک ڈرائیو کرتے تھے لیکن ذوالفقار مرزا پوری کوشش کے باوجود انھیں کسی اہم پوزیشن پر بحال نہ کرا سکے، یہ او ایس ڈی ہی رہے، درمیان میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ذوالفقار مرزا نے نجف مرزا سے کہا، آپ اگر بڑے صاحب سے ایک بار معذرت کر لیں تو یہ مسئلہ ختم ہو سکتا ہے لیکن نجف مرزا نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا، یہ بعد ازاں نواز شریف حکومت میں پروموٹ بھی ہوئے اور ان کی تقرریاں بھی شروع ہوئیں، بشیر میمن نے انھیں ایڈیشنل ڈی جی ساؤتھ بنا کر کراچی تعینات کر دیا، سپریم کورٹ نے 6 ستمبر2018ء کو6رکنی جے آئی ٹی بھی بنا دی، جے آئی ٹی نے نجف مرزا کی مدد سے تحقیقات شروع کر دیں۔
نجف مرزا اندر کے بھیدی تھے چنانچہ ہر چیز کھلتی چلی گئی، تحقیقات دسمبرمیں مکمل ہوئیں اور19 دسمبرکوجے آئی ٹی نے 750 صفحات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی، رپورٹ میں انکشاف ہوا، تحقیقات کے دوران104جعلی اکاؤنٹس نکلے، 220ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں اور620لوگوں کوسمن بھیجے گئے، جے آئی ٹی کا کہنا تھا، یہ صرف "ٹپ آف دی آئس برگ" ہے، اگر مزید تحقیقات کی جائیں تو اس ٹپ کے نیچے کرپشن، منی لانڈرنگ اور سیاسی لین دین کا پورا پہاڑ نکلے گا، یہ پہاڑ پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دے گااور ملک کا کوئی ادارہ، کوئی باعزت شخصیت اور کوئی بااثر عہدہ نہیں بچے گا، جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران پتہ چلا یہ اسکینڈل سینیٹ کے مارچ2018ء کے الیکشن کو بھی لپیٹ میں لے لے گا اور اگر آزادانہ تحقیقات ہوں تو بلوچستان کے بے شمار ایم پی ایز اور تازہ ترین سینیٹرز بھی پھنس جائیں گے، بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کی حکومت کی تبدیلی کی فائل بھی کھل جائے گی، 2018ء کے جنرل الیکشن بھی زد میں آجائیں گے، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا نیٹ ورک بھی سامنے آ جائیں گے، جنرل الیکشن کے لیے فنڈنگ کی فائل بھی کھل جائے گی، موجودہ حکومت کے بے شمار کردار بھی سامنے آ جائیں گے اور ملک سے باہر موجود طاقتیں اور چہرے بھی عیاں ہو جائیں گے۔
میں نے ریسرچ کی تو پتہ چلا یہ کیس مستقبل میں سیاسی ایٹم بم ثابت ہو گا اور یہ ایٹم بم سسٹم کو ہلا کر رکھ دے گا، یہ ایشو، یہ داستان مستقبل میں نہ ختم ہونے والی کہانی ثابت ہو گی، یہ فائل کھلتی اور بند ہوتی رہے گی مگر یہ کبھی نقطہ انجام تک نہیں پہنچ سکے گی، کیوں؟ کیونکہ اس کا کوئی نہ کوئی کردار ہر حکومت کا حصہ رہے گا اور جاتی ہوئی حکومت کا کوئی کردار نئی حکومت کے کسی کردار کے ہاتھ میں یہ فائل دے جائے گا اور وہ بھی اسے اپنی الماری میں رکھ کر پانچ سال گزار دے گا اور یوں ایک دن اس کیس کاانت بھی اصغر خان کیس جیسا ہو جائے گا، یہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کیا بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ بھی اس اسکینڈل کا حصہ ہیں، آپ اس کا جواب کل ملاحظہ کیجیے۔