آدمی بنو
سید انور محمود ملک کے معروف بیورو کریٹ تھے، یہ نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں، شائستہ بھی ہیں، حلیم بھی اورصاحب علم بھی۔ یہ عملی زندگی کے تمام ادوار میں لائم لائیٹ میں رہے، کیریئر کے شروع میں ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست عبدالحفیظ پیرزادہ کے دست راست بن گئے، حفیظ پیرزادہ بھٹو صاحب کے بعد ملک کی طاقتور ترین شخصیت تھے، وہ آج کے اسحاق ڈار تھے اور شاہ صاحب ان کے بااعتماد ساتھی۔ شاہ صاحب کیریئر کے آخری حصے میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے دست راست ہو گئے۔
یہ طویل مدت تک اطلاعات ونشریات کے وفاقی سیکریٹری رہے، شوکت عزیز اور جنرل پرویز مشرف ان پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے، بیورو کریسی بھی ان کا احترام کرتی تھی، سید انور وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے، ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد شاہ صاحب کو معدے میں درد محسوس ہوا، یہ درد ملازمت کے دوران بھی انھیں تنگ کرتا تھا مگر یہ اسے معمولی سمجھ کر جھٹک دیتے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد اس دردمیں شدت آ گئی، یہ ڈاکٹر کے پاس گئے، ڈاکٹر نے طبی معائنہ کیا، اینڈو اسکوپی ہوئی، پتہ چلا معدے کے ایک حصے میں کینسر نکل آیا ہے، کینسر دنیا کا ایسا مرض ہے جو انسان کو جسمانی سے زیادہ ذہنی اذیت دیتا ہے۔
آپ خواہ کتنے ہی مضبوط اعصاب کے مالک کیوں نہ ہوں، آپ کو جوں ہی کینسر کی اطلاع ملتی ہے، آپ کھڑے کھڑے 75 فیصد انتقال کر جاتے ہیں، یہ خبر شاہ صاحب کے لیے بھی دھماکے سے کم نہیں تھی، شاہ صاحب نے تازہ تازہ پلاٹ فروخت کیا تھا، رقم موجود تھی چنانچہ یہ فوری طور پر امریکا چلے گئے، طبی معائنہ ہوا، کینسر کی تصدیق ہو گئی، ڈاکٹروں نے شاہ صاحب کو دو آپشن دیے، پہلے آپشن میں معدے کا آپریشن ہونا تھا، کیمو تھراپی ہونی تھی اور کامیاب آپریشن کے بعد شاہ صاحب کو معائنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد امریکا آنا تھا جب کہ دوسرے آپشن میں ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے شاہ صاحب کے جسم سے پورا معدہ خارج کر دینا تھا، شاہ صاحب نے پوچھا " میرا معدہ خارج ہو جائے گا تو میں کھاؤں گا کیسے؟ " ڈاکٹروں نے جواب دیا " آپ کی آنتیں سلامت رہیں گی، آپ باقی زندگی نرم غدا کھائیں گے اور دن میں تین کی بجائے چھ بار کھائیں گے" شاہ صاحب معدہ نکلوانے پر رضا مند ہو گئے۔
آپریشن ہوا اور سید انورمحمود کا معدہ نکال دیا گیا، یہ صحت مند ہیں، اسلام آباد میں رہتے ہیں، کھانے میں بہت احتیاط کرتے ہیں، وزن کم ہو چکا ہے مگر ہمت ابھی تک جوان ہے، یہ آج بھی بھرپور طریقے سے کام کرتے ہیں، میرے بہت عزیز دوست ہیں۔ جاوید اکبر، یہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، کراچی میں تعینات ہیں، ایماندار بھی ہیں، عاجز بھی اور اہل بھی اور یہ وہ تین خوبیاں ہیں جو ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں، جاوید اکبر تین بھائی ہیں، بڑے بھائی ایف آئی اے میں اعلیٰ افسر تھے، درمیانے بھائی بزنس مین ہیں اور یہ خود تیسرے اور آخری بھائی ہیں، تینوں بھائیوں میں اتفاق اور محبت ہے، درمیانے بھائی کو پانچ سال قبل اچانک شوگر کا مرض لاحق ہو گیا، یہ خاندان میں شوگر کے پہلے مریض تھے، انسولین شروع ہوگئی، یہ مطمئن زندگی گزار رہے تھے مگر پانچ ماہ قبل انھیں کمر میں درد محسوس ہوا، یہ ڈاکٹر کے پاس گئے۔
ڈاکٹر نے انھیں "پین کلر" دے دیا، یہ ہفتہ بھر دوا کھاتے رہے مگر آرام نہ آیا، یہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے، ادویات بدل دی گئیں لیکن آرام نہ آیا، ڈاکٹر بدلا، نئے ڈاکٹر نے ٹیسٹ کرائے، سٹی سکین کروایا تو لبلبے کا کینسر نکل آیا، لبلبے کا کینسر خطرناک ترین کینسر ہوتا ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، جاوید اکبر بھائی کو نیو یارک لے گئے، کینسر پھیل چکا تھا، امریکی ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا، یہ ہمت والے لوگ ہیں، ہمت نہ ہاری، بھائی اس وقت کیمو تھراپی سے گز رہے ہیں، آہستہ آہستہ افاقہ بھی ہو رہا ہے، احباب سے دعا کی درخواست ہے۔
یہ میری زندگی کے اس نوعیت کے صرف دو واقعات نہیں ہیں، میں ایسے درجنوں واقعات کا عینی شاہد ہوں، جن میں ایک صحت مند شخص ہنستا کھیلتا گھر سے نکلا اور روتا ہوا واپس آیا اور اس کے بعد اس کی زندگی عذاب مسلسل بن کر رہ گئی، آپ نے بھی ایسے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے، آپ بھی کئی بار ایسے خوفناک لمحوں سے گزرے ہوں گے مگر ان سے آپ نے کوئی سبق سیکھا ہو گا اور نہ ہی میں نے سیکھا، میں پچھلے ہفتے پیرس میں تھا، میرے دوست ڈاکٹر اسلم بھی وہاں تھے۔
یہ پولٹری کے بزنس سے وابستہ ہیں، اچھے، نفیس اور نیک انسان ہیں، ہم زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کر رہے تھے، میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا، آپ کبھی تنہائی میں بیٹھیں، ایک بڑا کاغذ لیں، کاغذ پر تین خانے بنائیں، پہلے خانے میں آپ ان لوگوں کے نام لکھیں جنھیں آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، آپ جن کے جنازے میں شریک ہوئے یا پھر آپ فاتحہ کے لیے ان کی قبروں پر گئے، آپ دوسرے خانے میں ان لوگوں کے نام لکھئے جو امیر تھے، رئیس تھے، با اختیار تھے، طاقتور تھے، نامور، باعزت اور مشہور تھے اور پھر آپ نے اپنی نظروں کے سامنے ان کی شہرت، عزت، ناموری، طاقت، اختیار اور دولت کو رخصت ہوتے ہوئے دیکھا اور وہ لوگ گم نامی، عسرت، بے بسی، بے اختیاری اور غربت کی چلتی پھرتی تصویر بن گئے اور آپ تیسرے خانے میں ان لوگوں کے نام لکھیں جو بے گناہ تھے مگر قدرت کی پکڑ میں آ گئے۔
قتل کسی نے کیا لیکن پکڑے یہ گئے، فراڈ کوئی کر گیا مگر گھر، دکان اور فیکٹری ان کی بک گئی، گولی کسی نے کسی پر چلائی لیکن لگ انھیں گئی، یہ اپنی لین میں گاڑی چلا رہے تھے، پیچھے سے گاڑی آئی، ایکسیڈنٹ ہوا اور یہ پوری زندگی کے لیے معذور ہو گئے، غلط سودا کیا اور عرش سے فرش پر آ گئے، سونا خریدا اور وہ مٹی ہو گیا، کاغذ کے کاروبار میں سرمایہ لگا دیا، سیلاب آیا اور کاغذ تباہ ہو گیا، پانی پیا، ہچکی آئی، پانی سانس کی نالی میں پھنس گیا اور یہ کومے میں چلے گئے، حج پر گئے اور لوگوں کے قدموں میں روندے گئے، کھجور کھائی، فوڈ پوائزننگ ہوئی اور باقی زندگی بستر پر گزار دی اور نماز پڑھنے گئے اور بم دھماکے کا شکار ہو گئے۔
آپ کاغذ کے تینوں خانوں میں تینوں کیٹگریز کے لوگوں کے نام لکھیں اور اس کے بعد سوچیں کیا آپ کا نام ان تینوں خانوں میں درج نہیں ہو سکتا، کیا آپ کسی بھی وقت مرحوم نہیں ہو سکتے، کیا آپ کسی بھی وقت غریب، بے اختیار اور بے بس نہیں ہو سکتے اور کیا آپ ان لوگوں کی طرح کسی ان ہونی کا شکار نہیں ہو سکتے؟ ڈاکٹر صاحب اور میں بڑی دیر تک استغفار کرتے رہے، مجھے یقین ہے آپ بھی اس وقت توبہ کر رہے ہوں گے، ہم انسان ہیں اور ہم بھی عام انسانوں کی طرح کسی بھی وقت ان تینوں خانوں میں سے کسی ایک خانے میں درج ہو سکتے ہیں، یہ دنیا جس سے جاتے ہوئے فاتح عالم سکندر اعظم نے وصیت کی تھی میرے ہاتھ کفن سے باہر رکھنا تا کہ لوگ جان سکیں دنیا کا سب سے بڑا فاتح خالی ہاتھ آیا تھا اور دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہوا تھا، جس میں حجاج بن یوسف معدے کے کینسر میں مبتلا ہوا، کپکپی کا شکار ہوا، اس کے گرد آگ جلا دی گئی۔
آگ سے اس کا پورا جسم جل گیا لیکن اس کی کپکپی ختم نہ ہوئی، جس میں محمود غزنوی نے مرنے سے قبل اپنے خزانے کھلوا دیے، سونے، چاندی اور جواہرات کے درمیان بیٹھا اور رو رو کر کہنے لگا یہ وہ دولت تھی جس کے لیے میں نے عمر برباد کر دی، جس میں امیر تیمور جیسا باعزم شخص چین فتح کرنے نکلا، راستے میں انتقال ہوا، سمر قند میں دفن ہوا اور پچاس سال بعد اس کی قبر اور اس کی سلطنت دونوں خاک میں مل گئیں، جس میں ہٹلر جیسا شخص خود کو گولی مارنے پر مجبور ہو گیا، جس میں صدام حسین جیسے مضبوط شخص کی لاش وصول کرنے کے لیے پورے عراق سے کوئی شخص نہیں نکلا، جس میں کرنل قذافی کی نعش کو سرت شہر کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔
جس میں حسنی مبارک کو اسٹریچر پر ڈال کر عدالت لایا جاتا ہے اور پورے مصر میں کوئی شخص اس کے لیے کلمہ خیر نہیں کہتا، جس میں تیونس کا صدرزین العابدین بن علی سعودی عرب میں پناہ گزین ہے اور جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت سر عام گولی کا نشانہ بنا دی گئی اور ان کی میت دس گھنٹے راولپنڈی جنرل اسپتال کے پوسٹ مارٹم روم میں پڑی رہی اور جس میں آج وہ جنرل پرویز مشرف سڑک پر نہیں نکل سکتے جن کے استقبال کے لیے صدر جارج بش، صدرہو جن تاؤ، صدر سرکوزی، شاہ عبداللہ، ٹونی بلیئر اور کوفی عنان گھنٹوں کھڑے رہتے تھے، جن کے لیے سلامتی کونسل میں تالیاں بجائی جاتی تھیں، جنھیں خانہ کعبہ کے چھت پر اس مقام تک پہنچایا گیا تھا جہاں کھڑے ہو کر فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلالؓ نے اذان دی تھی اور جن کے لیے روضہ رسولؐ کے دروازے تک کھول دیے جاتے تھے۔
جو اشارہ کرتے تھے اور ملک کا وزیراعظم اور چیف جسٹس بدل جاتا تھا اور امریکا کو ڈرون حملوں کا اختیار مل جاتا تھا اور جس میں ہم نے اپنی آنکھوں سے میاں برادران کو گرفتار ہوتے، جلاوطن ہوتے اور اسلام آباد ائیر پورٹ پر ایف آئی اے کے معمولی اہلکاروں کے دھکے کھاتے دیکھا اور جس میں ہم نے ارب پتی لوگوں کو صدر زرداری کے قدموں میں اپنی ٹوپیاں رکھتے دیکھا، یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری زندگی لیکن اس کے باوجود ہماری اکڑ ختم نہیں ہوتی، اس کے باوجود ہمارے تکبر کی لو نیچے نہیں ہوتی اور اس کے باوجود ہمارے لہجوں کی فرعونیت کو زنگ نہیں لگتا، ہماری اوقات یہ ہے ہم مکھی کا پر نہیں بنا سکتے لیکن ہم روز اپنے اندر انا کے درجنوں خدا پیدا کر لیتے ہیں، ہمیں پل کی خبر نہیں ہوتی لیکن زمین سے آسمان تک تکبر کے پُل بنالیتے ہیں۔
تم آدم کے بچے بنو، آدمی بنو، آدمیوں کے خدا نہ بنو کیونکہ انہونی کے تینوں خانے تمہارے سامنے بھی پڑے ہیں، تمہارا نام بھی کسی بھی وقت، کسی بھی خانے میں درج ہوسکتا ہے۔