آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجیئے
آتش پرست آگ کو خدا سمجھتے ہیں، ایران آتش پرستی کا قدیم مرکز تھا، ایران کا پرانا نام فارس تھا، آتش پرست کیونکہ ف کو پ بولتے تھے چنانچہ یہ لوگ فارس کو پارس کہتے تھے اور پارس کی مناسبت سے یہ لوگ پارسی کہلاتے ہیں، پارسی لوگ گاؤں یا شہر کے درمیان ایک بڑا آتش کدہ بناتے تھے، آتش کدے میں آگ جلائی جاتی تھی اور یہ آگ سال کے بارہ ماہ اور دن کے چوبیس گھنٹے مسلسل جلتی رہتی تھی، یہ ایک بار جلنے کے بعد کبھی نہیں بجھتی تھی، بستی کے لوگ ذاتی استعمال کے لیے جو لکڑیاں جمع کرتے تھے، ان کا ایک خاص حصہ آتش کدے کے لیے وقف ہوتا تھا، یہ حصہ آتش کدے کے گودام میں رکھ دیا جاتا تھا، متولی یہ لکڑیاں آتش کدے کی آگ میں ڈالتے رہتے تھے، لوگ گھروں کے چولہے جلانے کے لیے آگ اس آتش کدے سے لے کر جاتے تھے، یہ لوگ سمجھتے تھے، یہ آگ متبرک ہے اور کھانے میں اس آگ سے برکت پیدا ہو گی۔
لوگ دن میں تین بار آتش کدے میں آتے تھے، آگ کا طواف کر کے دعا کرتے تھے، یہ دعا اور یہ طواف ان کی عبادت ہوتا تھا، آتش کدے کا انتظام سنبھالنے کے لیے انتہائی نیک، ذمے دار، پڑھے لکھے اور ایماندار لوگوں کا انتخاب کیا جاتا تھا، یہ لوگ مغ کہلاتے تھے، یہ بستی کے مشیر بھی ہوتے تھے، مبلغ بھی، ثالث بھی، مولوی بھی اور استاد بھی۔ اس اہمیت کی وجہ سے ان میں ایک خاص قسم کا تفاخر، نخرہ، غرور اور سختی آ جاتی تھی، زمانہ قبل مسیح میں ان لوگوں کی وہی اہمیت تھی جو بعد ازاں پادریوں کو حاصل ہوئی یا پھر ظہور اسلام کے بعد علما اور مشائخ حضرات کو ملی، لوگ ان سے بیک وقت پیار بھی کرتے تھے، ان سے خائف بھی رہتے تھے، ان کو محترم بھی جانتے تھے اور ان سے نفرت کا اظہار بھی کرتے تھے، مغ کی جمع مغاں تھی اور مغاں کا سربراہ یا امام پیر مغاں کہلاتا تھا، اسد اللہ غالب نے مغاں اور پیر مغاں کو اپنی شاعری میں کئی جگہ استعمال کیا، غالب کے آباؤ اجداد کا تعلق ازبکستان سے تھا، تاشقند میں آج بھی وہ محلہ موجود ہے جہاں سے اس کے آباؤ اجداد نے ہندوستان نقل مکانی کی، یہ جگہ غالب محلہ کہلاتی ہے اور میرے جیسے غالب کے پرستار اس محلے میں جانا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
اسد اللہ غالب محض ایک شاعر نہیں تھا، یہ ایک عظیم فلسفی، ایک عظیم نفسیات دان اور انسانی جذبوں کا ایک عظیم مورخ بھی تھا، غالب کی شاعری آپ کو ایک ایسے ٹرانس میں لے جاتی ہے جس میں آپ اپنی آنکھوں سے مغل سلطنت کو گرتے، انگریزوں کی توڑے دار رائفلوں کے منہ سے نکلتا دھواں، دلی کو اجڑتے، امراء کو غرباء میں تبدیل ہوتے، ہندو اور مسلمان کی تفریق کو ختم ہوتے اور عظمت کو ذلت میں بدلتے دیکھتے ہیں، آپ کو اس کی شاعری میں صریر خامہ بھی نظر آتا ہے اور نوائے سروش بھی۔ غالب مغل سلطنت کی آخری ہچکی بھی تھا اور دلی کے مسلمانوں کے ہاتھ سے سرکتی اقتدار کی ریت کا نوحہ بھی۔ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اردو زبان سے جس دن غالب خارج ہو گیا، اس دن اردو زبان نہیں رہے گی، یہ ٹھنڈے بے جان لفظوں کی قبر بن جائے گی۔
میں ہفتے کی شب کراچی میں تھا، میں ہفتے کی رات کراچی کیوں تھا؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی، ارشد محمود پاکستان کے نامور موسیقار ہیں، اس ملک کی دونسلیں ان کی دھنیں سن سن کر بڑی ہوئیں، یہ آج کل ناپا (نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس) سے وابستہ ہیں، ارشد محمود نے غالب پر ایک خوبصورت اسٹیج ڈرامہ تیار کیا، یہ اپنی نوعیت کا انوکھا تجربہ تھا، مجھے اس ڈرامے کی اطلاع ملی تو میں کراچی کے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس پہنچ گیا، لان میں ٹینٹ لگا تھا، سامنے اسٹیج تھا، اسٹیج پر دلی کی شام کا بیک ڈراپ بنا تھا، کھیل شروع ہوا، اسٹیج پر تین موسیقار آئے، طبلہ بجانے کی ذمے داری ناپا کے ایک نوجوان طالب علم نے سنبھال لی، ستار مشہور ستار نواز استاد نفیس احمد نے گود میں رکھ لیا اور ہارمونیم کی ذمے داری ناپا کے ایک استاد کو مل گئی، ناپا کے دو نوجوان گلو کار بھی اسٹیج پر بیٹھ گئے جب کہ سیاہ شیروانی اور سفید شلوار میں ملبوس ایک نوجوان روسٹرم پر کھڑا ہو گیا، یہ نوجوان خطوط غالب کے منتخب حصے پڑھتا تھا، یہ خاموش ہوتا تھا تو نوجوان گلوکار غالب کی غزل چھیڑدیتے تھے، غزل ختم ہوتی تھی تو نوجوان نصیر الحسن غالب کا دوسرا خط پڑھتا تھا۔
یہ ایک گھنٹہ بیس منٹ کی پرفارمنس تھی لیکن کمال تھا، پنڈال میں موجود لوگ دم سادھ کر بیٹھے تھے، نوجوان نصیر الحسن نے غالب کے خطوط اس خوبصورت انداز اور کوثر و تسنیم سے دھلے ایسے لہجے میں پڑھے کہ منہ سے ہر لفظ، ہر فقرے کے بعد واہ واہ نکل گئی، مجھے یقین ہے اگر غالب بھی یہ پرفارمنس دیکھ لیتا تو وہ بھی نصیر الحسن کو داد دیے بغیر نہ رہ سکتا، مغ، مغاں اور پیر مغاں کا لفظ بڑی مدت بعد اس نوجوان کے منہ سے سنا، غالب نے اپنے ایک خط میں اپنے مخاطب کو مغ کی بیک گراؤنڈ بتائی، نصیر الحسن نے خط کا وہ حصہ پڑھا اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں آتش پرستوں کی تمام معلومات جاگ گئیں، اس کھیل کے دو ماسٹر مائینڈ تھے، موسیقار ارشد محمود جو ناپا کے ڈائریکٹر بھی ہیں اور ضیاء محی الدین، ضیاء محی الدین ناپا کے صدر ہیں، پاکستان نے آج تک ان سے بڑا پرفارمر، براڈ کاسٹر اور ٹیلی ویژن میزبان پیدا نہیں کیا، لفظ ان کے منہ میں آتے نہیں ہیں، اترتے ہیں اور یہ بولتے نہیں ہیں، یہ دوسروں کے اذہان میں لفظ اتارتے ہیں۔
یہ کھیل دیکھنے کے لیے کراچی کی کریم انڈس ویلی اسکول میں جمع تھی، یہ کھیل، یہ کریم اور غالب کا انداز بیان یہ اصل پاکستان ہے، وہ پاکستان جو 1980ء کی دہائی میں دنیا کا میدان جنگ بنا اور امریکا کے "جہاد" کی اڑائی ہوئی خاک میں گم ہو گیا، یہ خاک غالب کو بھی نگل گئی، اقبال کو بھی، فیض کو بھی اور ضیاء محی الدین، اقبال بانو، فریدہ خانم اور نور جہاں کو بھی۔ یہ خاک ہماری موسیقی کو بھی کھا گئی، ہماری فلم انڈسٹری کو بھی، ہمارے تھیٹر کو بھی اور ہماری مصوری کو بھی۔ یہ حقیقت ہے دنیا میں جنگ اور فائن آرٹ اکٹھے نہیں چل سکتے، ہم نے جب امریکا کا جھنڈا اٹھا کر افغانستان کے میدان جنگ میں چھلانگ لگائی اور روس کے خلاف استعمار کی جنگ کو جہاد ڈکلیئر کیا تو اس کے ساتھ ہی ہماری جمالیاتی حسوں نے آخری ہچکی لے لی، ہمارا سماجی اور ثقافتی وجود انتقال کر گیا۔
ہمارے حکمرانوں نے 1980ء کی دہائی میں ملک کو روس کے خلاف امریکی جنگ کا خام مال بنا دیا، امریکا اور اس کے عربی اتحادیوں نے مدارس کو مجاہدین کی فیکٹریاں بنایا، یہ لوگ فنڈز بھجواتے رہے، ہماری ایجنسیاں ملک میں مدارس بناتی رہیں، یہ مدارس اسلام کے نام پر بچوں کو بھرتی کرتے رہے، یہ بچے افغانستان میں اسلام کے نام پر امریکا کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے اور ان نذرانوں کا نذرانہ ہمارے بعض جرنیل وصول کرتے رہے، ہم نے اس وقت یہ سوچا ہی نہیں تھا، یہ "جہاد"جب ختم ہو گا اور جب جہاد کے فیکٹری اونر اور کارکن بے روزگار ہوں گے تو کیا ہو گا؟ یہ لوگ جب اپنے ہی قافلے کو لوٹنا شروع کریں گے تو ہم ان سے کیسے نبٹیں گے؟ ہم نے نہیں سوچا لیکن قدرت نے سوچ لیا، قدرت نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا، یہ لوگ افغانستان سے پاکستان آئے اور اپنے ہی قافلے پر وار کرنے لگے، اس جنگ، اس جنگ کے بعد اور ملک میں جاری خانہ جنگی کے دوران سب سے بڑا نقصان فنون لطیفہ کو پہنچا، وہ فنون جو تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کرتے ہیں، وہ لوگ جو لوگوں کو نارمل لوگ بناتے ہیں، جو ہجوم میں ندرت خیال اور احساس فکر پیدا کرتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ ختم ہو گئے اور ان کی جگہ شعلہ بیان مولویوں، سلطان راہیوں اور آخر میں میرے جیسے ناپختہ اینکروں نے لے لی، یوں ہم لوگوں نے مل کر پوری قوم کا جلوس نکال دیا اور یہ قوم پارلیمنٹ ہاؤس سے لے کر تکہ ہاؤس تک کنفیوژ ہو کر رہ گئی، آج اس ملک میں اچھا مسلمان بننے پر اتنا زور نہیں دیا جاتا جتنا زور داڑھی رکھنے، پگڑی باندھنے اور دوسرے مسلمان کو کافر ثابت کرنے پر دیا جاتا ہے، معاشرے میں جب مسجدوں کی پیشانی پر فرقے کا نام لکھا جانے لگے اور آپ کے نام کے سابقے اور لاحقے آپ کی دنیاوی اور سماجی قابلیت بن جائیں تو ملک کی تباہی میں کیا کسر باقی رہتی ہے اورہمارا ملک اس سرخ لائن سے بھی آگے نکل چکا ہے۔
حکومت نے کل قومی سلامتی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، میری حکومت سے درخواست ہے یہ ملک اس وقت تک دوبارہ ٹریک پر نہیں آئے گا ہم جب تک ضیاء محی الدین، ارشد محمود اور نعیم بخاری جیسے لوگوں کو ٹریک پر نہیں لاتے، ہم جب تک معاشرے میں غالب، اقبال اور فیض کو زندہ نہیں کرتے، ہم جب تک اپنے تھیٹرز، اپنے سینماؤں، اپنی گیلریوں، اپنے میوزک اسٹوڈیوز اور اپنے مشاعروں کو زندہ نہیں کرتے، ہم جب تک ادیبوں اور شاعروں کو گم نامی کی قبروں سے نکال کر رونق محفل نہیں بناتے، قوم کو اس وقت ریپڈ فورس سے زیادہ غالب کی ضرورت ہے، غالب پر بنا ہوا ایک ڈرامہ دس کوئیک ریسپانس فورسز سے زیادہ کام کرے گا، آپ ایک بار تجربہ کر کے دیکھ لیجیے، آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔