Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Jamil Marghuz/
  3. Bhagat Singh, Aik Hero

Bhagat Singh, Aik Hero

بھگت سنگھ۔ ایک ہیرو

جس طرح مفاد پرست عناصر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ کو جھوٹ کی ملاوٹ سے بھر دیا ہے، اسی طرح انگریزی سامراج سے آزادی کی تاریخ کو بھی مسخ کردیا گیا ہے، ہمیں مختصر الفاظ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ گاندھی اور نہرو ہندوؤںکے لیڈر تھے اور مسلمانوں کے لیڈر قائد اعظم، لیاقت علی خان، نواب بہادر یار جنگ اور ان کے ساتھی تھے، انھوں نے انگریز کو بھگایا، پھر پاکستان اور ہندوستان بن گئے۔

حالانکہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے لے کر 1857کی جنگ آزادی اور اس کے بعد برصغیر کی آزادی تک اس جنگ میں برصغیر کے ہر طبقے اور ہر قوم نے قربانیاں دیں تھیں، اس دوران ان ہزاروں انقلابی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، جن کی قربانیوں کی وجہ سے سامراج کو ہندوستان سے بھاگناپڑا چونکہ ہندوستان میں کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ کو حکومت ملی اس لیے آزادی کی تاریخ میں ان کے تراشے ہوئے افسانے اور ان کے لیڈروں کے بہادری کے قصے ہی شامل کر دیے گئے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کی تاریخ سے ان لوگوں کی جدوجہد کو نکال دیا گیا ہے جنھوں نے حقیقی قربانیاں دیں تھیں، امید تھی کہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تاریخ کو صحیح تناظر میں لکھے گی لیکن وہ بھی صرف حکومت ہی کرتے رہے۔ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والوں میں کرانتی دل، غدر پارٹی، خدائی خدمتگا ر تحریک جمیعت العلماء ہند، قبائلی پختونوں، کمیونسٹ پارٹی، جلیانوالہ باغ کے شہدا، مجلس احرار، خاکسار تحریک اوربنگال کے حریت پسندوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے تاریخ آزادی کو مختصر کردیا گیاہے۔ بہرحال ہمیں تمام تعصبات سے ہٹ کر متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہیروز کو یاد رکھنا چاہیے۔ آج تحریک آزادی کے ایک عظیم انقلابی رہنماکو یاد کرتے ہیں۔

میں کمرے میں اکیلا بیٹھا قلم ہاتھ میں لیے تخیّل کی دنیا میں اس عظیم انسان کا سوگ منا رہا ہوں، بھگت سنگھ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک عظیم ہیرو ہے، 27ستمبر1907بھگت سنگھ کا یوم پیدائش اور 23مارچ1931 کو انھیں سولی پر لٹکایا گیا، بھگت سنگھ حقیقت میں برصغیر کی تاریخ کی زندہ جاوید سچائی اور حقیقت ہے، وہ ایسی سچائی ہے جس پر افسانے کا گمان ہوتا ہے، اس کے سامنے ایک آزاد ملک، جاگیردارانہ سماج کے خلاف جدوجہد، انگریزی راج کا خاتمہ، سیکولر معاشرہ اور مساوات پر مبنی ترقی یافتہ سماج کا خواب رہا ہے۔

اپنی تنظیم کانام "سوشلسٹ ریپبلک آرمی" رکھنے والا بائیں بازو کا یہ نمایندہ خود کو بھی مزدور کسان جیسے پیداواری طبقوں کے ساتھ جوڑنے والا انسان آنے والی نسلوں کے لیے ترقی پسند تحریک کی تخلیق کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کی موت بھی دوسروں کو قربانی کی تحریک و ترغیب دیتی رہی۔ بھگت سنگھ کا گاؤں 66گ ب بنگا(جڑانوالہ)ضلع لائل پور جہاں وہ پیدا ہوا اور پرائمری تک وہاں تعلیم حاصل کی، اس کے والد کشن سنگھ اور چاچا اجیت سنگھ کا تعلق غدر پارٹی سے تھا۔ بھگت سنگھ کے تین بھائی کبیر سنگھ، کاؤ تار سنگھ تھے۔ 1929/30کے لاہور سازش کیس کے مقدمے نے عوام کو جس طرح متحرک کیا۔

اس کی مثال نہیں ملتی، جس دن اسمبلی میں بم پھینکا گیا اس دن سے لے کر بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی تک سارے برصغیر کی عوام کی توجہ اس مقدمے کی روئیداد اس کے قیدیوں ان کی جدوجہد اور ان کے سیاسی نظریوں پر جمی رہی، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی ہیرو بن گئے۔ ان کے متعلق بے شمار واقعات اور افسانے مشہور ہوگئے، ملک کے گوشہ گوشہ میں ان ہی کی جانبازی اور حب الوطنی کے چرچے ہونے لگے، ہر طرف ان کے متعلق نظمیں لکھی جانے لگیں، ساری فضا انقلابی نعروں اور انقلابی گیتوں سے گونجنے لگی۔

بھگت سنگھ پنجاب میں انقلابی تحریک کے روح و رواں تھے اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر "نوجوان بھارت سبھا"قائم کی تھی، یہ انقلابی نوجوانوں کی جماعت تھی وہ انقلابی طریقوں کے ذریعے انگریری سامراج سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ نومبر 1928میں لاہور کے ASPسانڈرس پر جس نے لاہور میں مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھیاں چلوائی تھیں، پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے حملہ کیا گیا اور اسے قتل کردیا گیا، ایک دن جب مرکزی اسمبلی میں مزدور سبھاؤں کے متعلق ایک بل کے پاس ہونے کے بعد جیسے ہی بم پھٹا، بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو وہیں گرفتار کر لیے گئے۔

جیل میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شدید تشدد کیا گیا، پانچ ماہ تک مقدمے کا کھیل کھیلنے کے بعد اس عدالت نے اکتوبر 1930میں اپنا فیصلہ سنا دیا، بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی کی سزا دی گئی، سات افراد کو عمر قید اور باقی کو لمبی لمبی سزائیں دی گئیں، عام طور پر مجرم موت کی سزا کا سن کر خوف کے مارے کمزور ہوجاتے ہیں لیکن عجیب بات یہ تھی کہ بھگت سنگھ کا وزن سزا سننے کے بعد مسلسل بڑھتا گیا۔

پھانسی کے دن حکومت کے خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ ان کی لاشوں سے بھی ڈررہی تھی، چنانچہ پولیس کی گاڑی پھانسی کے احاطے میں لائی گئی، بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بھوسے کی بوریوں میں بھرا گیا، ان بوریوں کو فیروز پور لے جاکر چتا میں جلایا گیا یا دریا برد کیا گیا، کچھ پتہ نہیں لگا۔ چے گویرا اور بھگت سنگھ دو ایسے انقلابی تھے جن کی لاشوں کا کچھ پتہ نہیں لگا، نہ جنازہ اٹھا اور نہ کہیں مزار بنا لیکن دونوں خوبصورت مقبروں کے باسیوں سے زیادہ محترم ہیں۔

اب ایک تاریخی واقعہ جو مجھے محترم پروفیسر سرور صاحب نے سنایا، میں کسی کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا اور وہاں پر شادمان کالونی میں پروفیسر صاحب کے ہاں قیام تھا، ان کا گھر شادمان کے مرکزی چوک کے سامنے تھا اور یہ چوک ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے نظر آرہا تھا۔ پروفیسر سرور صاحب نے بتایا کہ کیمپ جیل اچھرہ سے شادمان تک پھیلی ہوئی تھی، بعد میں اس جیل کو چھوٹا کرکے یہاں پر شادمان کی بستی تعمیر کی گئی اور ایک نئی جیل کوٹ لکھپت لاہور کے باہر تعمیر کی گئی۔ پرانے جیل میں پھانسی گھاٹ اسی چوک میں واقع تھا۔

جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دینے کا وقت آیا تو اس وقت قانون کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل کی تحریری اجازت اور ان کی موجودگی کے بغیر کسی کو بھی پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی، اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ جیل ڈاکٹر سوندھی نے پروانہ موت پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا، ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ آج کے ضلع قصور کے ایک مسلمان افسر کو تعینات کیا گیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی نگرانی میں پھانسی دی گئی۔ بعد میں اس افسر کو نواب کا خطاب دیا گیااور آنریری مجسٹریٹ بنا دیا گیا۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلوص، جان نثاری اور جرات کو سلام، ان کا نصب العین سوشلزم تھا وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچائتی نظام قائم کرنا چائتے تھے، تاکہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہودولت پیدا کرنے کے تمام ذرایع زمین، فیکٹریاں، ملیں اوربینک وغیرہ محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت بن جائیں اور ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی اور انفرادی دہشت گردی سے کام نہیں چلتا کیونکہ محنت کشوں کا پنچائتی راج مار دھاڑ سے نہیں بلکہ سماجی انقلاب کے ذریعے وجود میں آتا ہے اور سماجی انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور ان کے حلیفوں کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے، انھیں انقلابی فریضوں کی تکمیل کے لیے منظم کیا جائے درمیانہ طبقہ کے مٹھی بھر نوجوان خواہ ان میں کتنی ہی لگن کیوں نہ ہو، یہ فریضہ تن تنہا سرانجام نہیں دے سکتے۔

مہم جو انقلابیوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اکا دکا انگریزوں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کردیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ کر ہندوستان سے بھاگ جائے گا، حالانکہ افراد کے قتل سے نہ ریاست کی نوعیت بدلتی ہے اور نہ طبقاتی رشتوں میں فرق آتا ہے۔ ایک زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے، ایک سانڈرس ہلاک ہوتا ہے تو دوسرا سانڈرس آ موجود ہوتا ہے۔

یہی غلطی آج کل طالبان کر رہے ہیں جو چند دھماکوں اور بے گناہوں کو مارنے کے بعد اسلامی انقلاب کی توقع کر رہے ہیں، ان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی انقلاب بموں اور خود کش حملوں سے نہیں سماجی طور پر تالیف قلب کی مہم سے آئے گا۔

Check Also

Zindagi Mein Kuaa Ban-Na Hai Ya Shaheen?

By Azhar Hussain Azmi