عظیم بالشویک انقلاب
آج کے کالم میں 102 سال قبل رو پذیر ہونے والے ایک تاریخی واقعہ کا ذکر کریں گے جس نے دنیا کو بدل دیا، اس سال دنیا کی، معلوم تاریخ میں پہلی بار ایک عظیم واقعہ محروم طبقوں کے اقتدار کی شکل میں واقع ہوا، اس سے قبل پیرس کمیون کا ستر روزہ تجربہ ایک عارضی عمل ثابت ہوا تھا۔
جان ریڈ اپنے شہرہ آفاق کتاب "دس دن جنھوں نے دنیا کو ہلا دیا" میں لکھتا ہے کہ "کوئی بالشویزم کے بارے میں کچھ بھی سوچے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انقلاب روس انسانیت کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار عالمگیر اہمیت کا حامل ہے"۔ زار روس کے خلاف انقلابی تحریک کا آغاز 25 اکتوبر (نئے کیلنڈر کے مطابق 7 نومبر)کی شام کو ہوا اور 25اور 26اکتوبر کی درمیانی رات کو عظیم انقلابی رہنما ولادی میرلینن کی سرکردگی میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی (بالشویک) نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
لینن نے دسمبر 1917ء میں لکھا کہ "ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے، فضول، وحشی اور قابل نفرت عقیدے کو پاش پاش کرنا ہو گاکہ ’صرف نام نہاد اعلی طبقات، امراء اور امراء کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں "۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد "سوویتوں کی کل روس کانگریس" سے خطاب کرتے ہوئے لینن نے کہا کہ "تاریخ کے کچرے کو صاف کرنے کے بعد اب ہم اس خالی جگہ پر سوشلسٹ سماج کی ہوا دار اور عالیشان عمارت تعمیر کریں گے"۔
انقلاب کے بعد وسیع و عریض جاگیروں، بھاری صنعت، اجارہ داریوں اور معیشت کے کلیدی شعبوں کو نومولود "مزدور ریاست " نے ضبط کر لیا، مالیاتی سرمائے کی آمریت کو توڑا گیا، تمام بیرونی تجارت پر ریاست نے اپنی اجارہ داری قائم کی، وزیروں اور عہدیداروں کی مراعات کاخاتمہ کردیا گیا، انقلاب کے رہنماء بھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وکٹر سرج اپنی "ایک انقلابی کی ڈائری" میں لکھتا ہے کہ "لینن شاہی محل کریملن میں نوکروں کے لیے تعمیر کردہ چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، جب وہ حجام کے پاس جاتے، تو اپنی باری کا انتظار کرتے"۔ بورژوا طبقہ اس طبقے کو کہتے ہیں جو تمام وسائل پیداوار پر قابض ہو، پرولتاریہ وہ طبقہ ہے جو اپنی محنت کے سوا مزید کوئی اثاثہ نہیں رکھتا، سوویٹ انقلاب پرولتاریہ کی بورژوا طبقے پر فتح کا واقعہ ہے۔
سوویت منصوبہ بند معیشت نے انسانی تاریخ کی تیز ترین ترقی کی، چند دہائیوں میں سوویت یونین ایک پسماندہ زرعی ملک سے ترقی یافتہ صنعتی ملک بن گیا، 1913ء کے قبل از جنگ پیداوار کے عروج کے بعد کے 50 سال میں دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت، خانہ جنگی اور دوسری بربادیوں کے باوجود کل صنعتی پیداوار میں امریکا اور برطانیہ جیسے سرمایہ دار ممالک کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا، اتنی مختصر مدت میں اتنی تیز رفتار معاشی ترقی صرف سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی وجہ سے ممکن ہوئی، ریاست تعلیم اور صحت کی مفت سہولت دے رہی تھی’ بلکہ دنیا کے ہزاروں غریب طلباء بھی سوویت یونین میں مفت اعلی تعلیم حاصل کر رہے تھے، بے گھر لوگوں کو گھر اور بیروزگاروں کو روزگار کی ضمانت بھی ریاست کی ذمے داریوں میں تھی، بیروزگاری ایک جرم تصور ہوتی تھی، 1960ء تک سوویت معیشت دنیا کی دوسری معیشت بن چکی تھی، کپڑوں اور جوتوں سے لے کر ہوائی جہاز اور خلائی راکٹ بننے لگے، سوویت یونین کے بنے ہوئے فریج، ائر کنڈیشنڈ اور اسلحے نے پاکستان میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کومارکیٹ میں پیچھے چھوڑدیا تھا، حالانکہ ان کے خلاف سامراجی پروپیگنڈہ بھی ہو رہا تھا۔
سوویت یونین کے انہدام کے کئی وجوہات ہیں لیکن اس کے باوجود بالشویک انقلاب آج بھی نسل انسانی کی نجات کی جدوجہد کے لیے مشعل راہ ہے، شاید سامراجی اور سرمایہ دار دنیا اس امر پر خوش ہو کہ1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہو گیا اور اس کو وہ اپنی جیت سمجھیں لیکن سوشلزم کا نظریہ بھوت بن کر اب بھی سرمایہ داری اور سامراجیت کا پیچھا کر رہا ہے، سوشلزم کے اثرات دنیا میں بہت گہرے ہیں، اس نظام نے سرمایہ داری نظام کی ظالمانہ استحصالی نظام کی خرابیوں کو اجاگر کیا، پہلی بار اس نظام کی بدولت مزدور، کسان اور محنت کش طبقوں کو دنیا کا نظام چلانے میں اپنی اہمیت کا احساس ہوا، ان کو تاریخ میں پہلی بار اپنی محنت کا پھل ملا، نہ صرف سوویت یونین بلکہ دنیا بھر میں غربت اور سامراجیت کے خلاف ہونے والی جنگ آزادیوں کی پشت پر سوشلسٹ کیمپ کی مدد ہوتی تھی، دنیا سے نوآبادیاتی سامراجی نظام کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی سوشلسٹ کیمپ اور خاص کر سوویت یونین کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت اور مدد تھی۔
اس نظام کی وجہ سے ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکا کے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے سامراجی غلامی کا توق اپنے کندھوں سے اتار پھینکا اور آزادی حاصل کی، سرمایہ دار ملکوں نے انقلاب کے خوف سے اپنے ممالک کے محنت کشوں کو سماجی بہبود کے اداروں کے ذریعے مراعات دیں، یوم مئی کے مزدوروں نے جن مطالبات کے لیے عظیم قربانیاں دی تھیں، ان سے کئی گنا زیادہ ان کو سوویت انقلاب کی بدولت حاصل ہوا۔
سوشلسٹ ریاستوں نے اپنے عوام کو روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ رہنے کے لیے گھر کی سہولیات بھی فراہم کیں، آج بھی بعض ممالک میں یہ نظام قائم ہے اور اسی نظام کی بدولت کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا جیسے ممالک امریکی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوئے، سوویت یونین اپنی غلطیوں اور سامراجی سازشوں کی وجہ سے ختم ہوگیا لیکن یہ حقیقت آج بھی واضح ہے کہ سرمایہ داری نظام اور طبقاتی نظام کے خلاف سوشلسٹ نظام کی شروع کی گئی جنگ آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ سامراجی حملوں کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے، وینزویلا، بولیویا، یونان اور سپین میں کمیونسٹوں کی فتوحات، اس امر کا اشارہ ہے کہ غریب اور امیر کے درمیان جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، اب بھی ریاستوں کا فرض ہے کہ طبقاتی فرق کو کم کرنے اور محروم طبقات کو زیادہ سہولتیں دیں۔
امریکی سامراج اور خاص کر اس کے مذہبی انتہا پسند نیوکانز(neo-conservative) حصے اور عالمی سطح پر ان کے غیر محسوس اتحادیوں القاعدہ اور دیگر عیسائی اور مسلمان انتہا پسند تنظیموں کی مسلسل یہ کو شش ہے کہ 1995ء میں لکھی گئی امریکی تاریخ دان سیموئیل پی ہنٹگٹن کی کتاب "تہذیبوں کا تصادم" (Clash of Civilisation)کے مندرجات کو صحیح ثابت کیا جائے۔
اس کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ سوشلسٹ کیمپ کے خاتمے کے بعد سرمایہ دار اور غریب کے درمیان جنگ ختم ہوگئی ہے ٰ اب د نیا ایک نئے جنگ کے دور میں داخل ہورہی ہے، یہ جنگ اب تہذیبوں کے درمیان ہوگی، اب مغربی تہذیب جو ایک ترقی یافتہ اور سیکولر تہذیب ہے کا مقابلہ پسماندہ تہذیبوں کے ساتھ ہوگا، پسماندہ تہذیبوں میں سب سے طاقتور تہذیب مسلمانوں کی ہے، اس لیے اب مقابلہ مغربی تہذیب اور مسلم تہذیب کے درمیان ہوگا، اس کے بعد امریکی سیاست میں نیو کانز نے ریپبلیکن پارٹی کی حمایت میں سرگرمیاں تیز کیں اور بش سینئر اور بش جو نیئر کی زمانہ صدارت میں ان کا عروج رہا، ان لوگوں کی پالیسیوں کا محور ہی اسلام دشمنی تھا۔
القاعدہ، داعش، طالبان اور ان کے اتحادی دوسرے انتہا پسند تنظیموں کو سوشلزم کے خلاف استعمال کرنے کے بعد اب اسلام کو انتہا پسند اور مغربی تہذیب کا دشمن ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، سوشلسٹ کیمپ کے خلاف ان تنظیموں نے امریکا کا پورا ساتھ دیا اور اب اسلام کو انسانی تہذیب کا دشمن ثابت کرنے میں یہ تنظیمیں امریکا کا مکمل ساتھ دے رہی ہیں۔
ان سب حربوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود امریکی سامراج اب تک یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ واقعی عالمی سطح پر تہذیبوں کا تصادم شروع ہوچکا ہے، ہر زاویے سے دیکھا جائے تو دنیا میں آج بھی طبقاتی جنگ جاری ہے، عالمی سطح پر سرمایہ دار اور ترقیاتی یافتہ ممالک آج بھی غریب ممالک کے استحصال کے ذریعے اپنی دولت بڑھا رہے ہیں، اسی طرح استحصالی طبقات اپنے ممالک میں غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں، انسانی سماج کا جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے، لاکھوں سال کی تاریخ یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ اصل میں جنگ وسائل پر قابض طبقوں اور وسائل سے محروم طبقات کے درمیان ہے، آج بھی عالمی سامراجی پالیسیوں کے ذریعے امیر ممالک امیر تراور غریب ممالک غریب تر اوراسی طرح مالدار طبقے مالدار تر اور غریب طبقے غریب تر ہو رہے ہیں، اس نظام سرمایہ پرستی کو ختم کیے بغیر نہ کرپشن ختم ہوگی اور نہ غربت اور جرائم، سپریم کورٹ اور نیب کچھ نہیں کرسکتے۔
مینی فسٹو کے یہ الفاظ انسانی تاریخ کے بارے میں سب سے بڑی سچائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ " کمیونسٹ مینی فسٹو "دنیا کی مختلف مزدورپارٹیوں کے نمایندوں نے 1848 میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی سرکر دگی میں لندن میں تیا رکیا، اس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ۔ " تمام سماجوں کی آج تک کی تاریخ’ طبقاتی جدوجہد، کی تاریخ ہے آزاد اور غلام، پتریشین اور پلے بین، جاگیردار آقا اور زرعی غلام، گلڈ ماسٹر اور کاریگر، غرض یہ کہ جابر اور مجبور، تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں کبھی کھلے بندوں اور کبھی پس پردہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہے اور ہر بار اس لڑائی کا یہ انجام ہوا کہ یا تو نئے سرے سے سماج کی انقلابی تعمیر ہوئی یا پھر لڑنے والے طبقے ایک ساتھ ہی تباہ ہوگئے"۔