Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Bhatti
  3. Us Ko Bhi Apne Khuda Hone Pe Yaqeen Tha

Us Ko Bhi Apne Khuda Hone Pe Yaqeen Tha

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

کیا شان تھی حسنی مبارک کی، پھر انہیں قیدیوں کی وردی پہنے لوہے کے پنجرے میں بیٹوں سمیت پیشیاں بھگتتے بھی دیکھا، کیا رعب و دبدبہ تھا کرنل قذافی کا، پھر ایک گنوار ہجوم نے برساتی نالے سے نکال کر تشدد کے بعد گاڑی کے بونٹ پر گولی مار کر مار ڈالا، وہ صدام حسین جو اکیلا امریکہ سے متھا لگائے بیٹھا تھا، دونوں بیٹوں کو مار کر امریکی فوج نے اسے بھی تہہ خانے سے نکال کر ایک دن پھانسی چڑھا دیا اور یہ تو سب نے سن رکھا کہ بادشاہوں کے بادشاہ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی پر جب آخری وقت آیا تو دنیا میں قبر کیلئے دو گز زمین نہیں مل رہی تھی۔ اپنی بات کر لیتے ہیں، وزیراعظموں، اسمبلیوں سے کھلونوں کی طرح کھیلنے والے اور سازشوں کے بانی گورنر جنرل غلام محمد کو فالج ہوا تو رالیں بہاتے، غوں غوں کرتے گورنر جنرل کے پاس آخری لمحوں میں انگریز سیکرٹری کے علاوہ کوئی نہ تھا، آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر وہ اسکندر مرزا جسے بھٹو صاحب نے قائداعظم سے بڑا لیڈر قرار دے رکھا تھا، جلا وطن ہوئے، تنہائی زدہ کسمپرسی کے عالم میں سسک سسک کر مرے، قائدِ عوام، فخرِ ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں 12لوگ تھے، امت مسلمہ کے مائی باپ ضیاء الحق کی موت ایسی کہ لاش نہ پہچانی گئی، کل تک مشرف کے اقتدار کا سورج ایسے سوا نیزے پر کہ فرماتے "بھول جائیں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو، وہ واپس آ سکتے ہیں but over my dead body، آج پراسرار بیماری کے مریض مشرف پاکستان سے باہر رہنے پر مجبور جبکہ بی بی کی پارٹی 5سال حکومت کر چکی اور میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ بھگتا چکے۔ کل ہی مریم نواز فرما رہی تھیں کہ "ہم حکمراں خاندان، ہمارا احتساب کوئی نئی بات نہیں، ، پھر یہ حکمراں خاندان یوں بکھرا کہ نواز شریف، مریم، داماد کے ساتھ پہلے جیل، اب پیشیاں بھگت رہے، شہباز شریف نیب کی قید میں، ان کا داماد اشتہاری، اسحاق ڈار، حسن، حسین مفرور اور سلمان شہباز نیب انکوائریاں بھگت رہے، کل ہاؤس آف شریفس کی مرضی کے بنا پتا نہیں ہلتا تھا، آج نواز شریف نے درخواست دے رکھی کہ "براہِ کرم نام ای سی ایل سے نکالے جائیں، ، ، سوچوں تو دماغ ساتھ چھوڑ جائے، اللہ نے کتنی عزت دی، کتنا نوازا، کیا جو نہ ملا اور یہ سب کیا کرتے رہے، کیا فائدہ ایسی دولت، عہدے، اختیار کا جو گلے کا پھندا بن جائے، سوچوں کتنی زندگی اور کتنا جمع کر لیا، مزے کی بات، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی پیٹ نہ بھرے، آج بھی کہیں سے پچاس روپے مل جائیں وہ بھی نہ چھوڑیں حالانکہ زرداری صاحب سہارے کے بنا چار قدم چل نہ پائیں، کھانے کا حال یہ کہ آدھی روٹی کبھی دال اور بھنڈی کے ساتھ تو کبھی ساگ کے ساتھ، شریفس کا رائیونڈ محل موجود، 35چالیس فیکٹریاں بھی چل رہیں، ایون فیلڈ فلیٹس سمیت دنیا بھر میں جائیدادیں اور پیسہ بھی مگر کوئی اندر تو کوئی باہر بقا کی جنگ لڑ رہا، کوئی پاکستان آ نہیں سکتا اور کوئی پاکستان سے جا نہیں سکتا، یہ بھی ملاحظہ کریں کہ کل تک جس فواد حسن فواد اور احد چیمہ سے ملنے کیلئے لائنیں لگی رہتی تھیں آج وہ خود لائنوں میں لگے ہوئے، کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں۔ یہاں یہ بھی سنتے جائیے! سورج مکھی قوم کا ایک اور وصف بھی، کردار کشی ایسی کہ اچھے بھلے انسان شیطان ٹھہریں اور اکثر تو بات گھروں تک جا پہنچے، جیسے بیگم رعنا لیاقت کی کہانیاں، فاطمہ جناح کی کردار کشی، بیگم نصرت بھٹو سے متعلق من گھڑت قصے، بینظیر بھٹو پر کون سا الزام جو نہ لگا، بیگم کلثوم نواز کو بسترِ مرگ پر بھی نہ بخشا گیا، مریم نواز مسلسل گھٹیا پروپیگنڈے کی زد میں، جمائما خان جب تک یہاں رہیں تنگ ہی رہیں، بشریٰ مانیکا آج ٹکے ٹکے کی باتیں سن رہیں، قصور یہی کہ عمران خان سے شادی کر لی، دکھ ہو جب بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر سیاست ہو اور دکھ تب بھی ہو جب اپنے افلاطون بیگم صاحبہ کے جنازے کو مسلم لیگ کے دوبارہ زندہ ہونے سے تعبیر کرنے بیٹھ جائیں، دکھ ہو جب مریم نواز کی ذات پر حملے ہوں اور دکھ تب بھی ہو جب 69 روزہ جیل کے بعد اپنے ارسطو لیڈری کا تاج ان کے سر پر رکھ دیں، یہ چھوڑیں کہ جن الزامات پر وہ جیل گئیں، مہذب معاشروں میں ان الزامات کے بعد گھر والے ساتھ چھوڑ دیں، بندہ اگر جیل جانے سے ہی لیڈر بنتا پھر تو محمد علی جناح کو قائداعظم نہ کہیں کیونکہ وہ تو جیل جانے کی "سعادت، ، سے محروم رہے، یقین جانئے دکھ تب بھی ہو جب شریف برادران کی والدہ کے ہاتھ میں کاغذ پکڑا کر کیمرے آن کر دیئے جائیں، ہم کس بھونڈے پن سے اپنی راج نیتی اور سیاست میں ماؤں کو بھی گھسیٹ لائیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی کل اور آج کی، نیب پیشی کے بعد بکتر بند گاڑی میں بیٹھتے شہباز شریف کو دیکھ کر مجھے گرمیوں کی وہ دوپہر یاد آئی، میں ڈاکٹر ظفر الطاف کے سامنے صوفے پر بیٹھا ہوا اور کرسی پر بیٹھے ڈاکٹر صاحب کا چہرہ اداس، آنکھیں نم، لہجے میں دکھ، تلخی، بہانے بہانے سے اپنی اکلوتی بیٹی کو دوسرے کمرے میں بھجوا کر اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے وہ آہستہ آواز میں بتا رہے تھے کہ "شہباز حکومت مجھ پر مقدمے پہ مقدمہ بنا رہی، ایک مقدمے سے ضمانت کروا کر نکلتا ہوں تو ایک اور مقدمہ بنا دیا جاتا ہے، پنجاب پولیس میرے گھر تک آ پہنچی، کیا ملک و قوم کی 35 سالہ خدمت کا یہی صلہ، کیا میرا قصور یہ کہ میں نے غریب کسانوں کیلئے دودھ کا منصوبہ شروع کیا، سینکڑوں کو روزگار ملا، ہزاروں غریبوں کی قسمتیں سنوریں، اب اگر شریف فیملی خود دودھ دہی کا کاروبار کرنا چاہتی ہے تو شوق سے کرے، مگر غریب کاشتکاروں کا پروجیکٹ تو بند نہ کرے، مجھے پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اس دودھ منصوبے سے دور رہیں گو کہ میں اس پروجیکٹ کا اعزازی چیئرمین، میرا کوئی بزنس انٹرسٹ نہیں مگر میں ان غریبوں کو بھلا کیسے اکیلا چھوڑ سکتا ہوں، وہ بات کرتے کرتے رُکے، ٹھنڈی ہو چکی چائے کا گھونٹ بھرا، کرسی سے ٹیک لگائی اور دوبارہ بولے "یار یہ شریفس تو یہ بھی بھول گئے کہ میرے والد سالہا سال اتفاق فونڈری کے لیگل ایڈوائزر رہے، میں خود نواز حکومت میں وفاقی سیکرٹری رہا، ہماری ذاتی جان پہچان، کیا روپیہ پیسہ اتنا طاقتور کہ ہر رشتہ کمزور پڑ جائے، اس روز شام تک میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہا، وہ شام تک یہی باتیں کرتے رہے۔ اور پھر صرف پانچ سالوں بعد شہباز شریف گرفتار ہو گئے، جہاں منوں مٹی تلے سوئے ڈاکٹر ظفر الطاف کے دکھ یاد آئے، وہاں یہ خیال بھی آیا کہ دنیا چاہے بھول جائے مگر قدرت لوگوں پر کئے ظلم نہیں بھولتی، جو بوؤ گئے وہی کاٹو گئے، جیسا کرو گے ویسا بھرو گئے، بھلا اس سے بڑی عبرت بھری کہانی اور کیا ہو گی کہ جو لاہور تخت گاہ تھا، آج وہی لاہور قید خانہ، لیکن کیا کریں نہ کل کسی نے سیکھا اور نہ آج کوئی سیکھے گا کہ

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal