کیا کہا جائے !
کیا کہا جائے، رانا ثناء اللہ گاڑی میں 15 کلو ہیروئن لے جارہے تھے، اسمگلنگ فیصل آباد سے لاہور، اینٹی نارکوٹکس فورس کے چھاپے پر انہوں نے گاڑی میں ہیروئن کی نشاندہی خود کی، سمجھ سے بالاتر، اپوزیشن دور میں یوں اپنی گاڑ ی میں سرعام منشیات لیکر پھرنا، باقاعدہ منشیات فروشی دھندے سے منسلک ہونا، قصہ منی لانڈرنگ تک پہنچ جانا، بات سمجھ سے باہر، دیکھتے ہیں اے این ایف عدالت میں کیا شواہد پیش کرتا ہے، دعا، خواہش یہی رانا صاحب کا کیس پاناموں، اقاموں، 25 والیمز والی منی لانڈرنگ رپورٹ سمیت ثبوتوں بھرے مقدمات کو مشکوک نہ بنا جائے، لیکن حیرت، رانا ثناء کی پہلی پیشی، مسلم لیگ کا گڑھ لاہور، چند سیاسی کارکن، ایک رہنما بھی نہ آیا، مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء چاروں طرف دیکھتے ہی رہ گئے، حسبِ عادت شہباز شریف نے ٹی وی کیمروں کے سامنے غصہ نکالا، حسبِ سابق مریم نواز نے ٹویٹر ٹویٹر کھیلا، چند ٹویٹس، رانا صاحب کی تصویر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لگادی، کچھ عرصہ پہلے توہینِ عدالت کیس میں نہال ہاشمی کو سزا ہوئی تو مریم نواز نے ہاشمی صاحب کی تصویر بھی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لگائی، مگر اسی نہال ہاشمی نے جب سپریم کورٹ سے معافی مانگی تو ایک دن اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر عام لوگوں کیساتھ لائن میں کھڑے سیکورٹی اہلکاروں کے دھکے کھاتے ہاشمی صاحب کے پاس سے نواز، مریم گزر گئے، ہاشمی صاحب کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھا، سوچ ملاحظہ فرمائی، سپریم کورٹ کی توہین قابلِ فخر کارنامہ، معافی مانگنا ناقابلِ معافی۔
کیا کہا جائے، سوچوں اگر ٹویٹر آپشن نہ ہوتا تو محل کے پر فضا مقام پر بیٹھ کر انقلاب انقلاب کھیلتی مریم کا انقلاب تو یتیم ہی ہوجاتا، آجکل تو مہنگائی بھرے اخباری تراشے بھی ٹویٹ کررہیں، کتنا اچھا ہو ورلڈکپ کی خبریں بھی ٹویٹ کر دیا کریں تا کہ اخبار پڑھنے سے جان چھوٹ جائے، مہنگائی اور مریم، صدقے جاواں، ایک زرداری سب پہ بھاری اندر، قائداعظم ثانی نواز شریف اندر، اپنی انگلیوں پر پورا پنجاب نچانے والے حمزہ اندر، کسی جیالے، جانثار کو کوئی فکر ہی نہیں، پیالی کے طوفان ٹی وی اسکرینوں، تقریروں، بیانوں، پریس ٹاکوں میں، نواز شریف تو کوٹ لکھپت جیل میں، عین لاہور شہر کے درمیان، ایک دن بھی جیل کے سامنے ٹریفک میں ہلکا سا خلل نہ پڑا، دو اڑھائی سو لوگ آئے، نعرے مارکر چلے گئے، اللہ اللہ، خیر صلا۔
کیا کہا جائے، پرویز مشرف کو امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے دو پستول تحفے میں دیئے، پرویز مشر ف نے ایک پستول امیر مقام (جنہیں وہ اپنا بھائی کہا کرتے) کو دیدیا، سنا جا رہا جنرل مشرف کے پستول بدل بھائی امیر مقام کی تعمیراتی کمپنی کو نواز دور میں 6ارب کے تعمیراتی ٹھیکے ملے، کہا جارہا، انہیں ان ٹھیکوں سے مبینہ طور پر ایک ارب کا منافع ہوا جبکہ ٹیکس دیا 15 لاکھ، کیوں کیسا، وزارت ق لیگ سے، پستول مشرف سے، ٹھیکے نواز شریف سے، کیا کہا جائے، مسلم لیگ(ن) کے ایم پی ایز، ایم این ایز، سینیٹرز بالآخر تحریک انصاف حکومت سے ملنے، ملانے لگے، پرندوں کے گھونسلے بدلنے کا موسم آیا، وہی ہو رہا جو ہمیشہ ہوتا آیا، ریاست مدینہ والے عمران خان کو تو چھوڑیں، بلاشبہ انہیں لوٹے سخت ناپسند تھے لیکن بندہ اقتدار میں آخر کب تک اخلاقی پوٹلیاں اُٹھائے پھرتا رہے، سچ بتاؤں مجھے اس بار اک خود غرض سی خوشی اس لئے کہ "لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا، اس "اڑن چھو سیا ست، کو بامِ عروج پر پہنچانے والے خود نواز شریف، چھانگے، مانگے، مری کی سیریں، اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں اراکین اسمبلی کو لابسانا (ہوٹل کابل ابھی تک واجب الادا) پلاٹوں، پرمٹوں، عہدوں، پیسوں، پٹواریوں، تھانیداروں کے زور پر "لوٹا کریسی، کو جو بلندیاں ہاؤس آف شریفس نے عطا فرمائیں، وہ اپنی مثال آپ، سب کچھ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل، پی پی کی ہارس ٹریڈنگ اورمشرف دور کی پیٹریاٹ کہانیاں بھی سب کے سامنے، اس بار ابھی یہ ابتدا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
کیا کہا جائے، 2007، لندن میں بیٹھے نواز شریف آئے روز فرمایا کرتے "یہ لکھ لو اس بار میری پارٹی میں لوٹوں کی کوئی گنجائش نہیں، ہم نے لوٹوں کی دکان بند کر دی"، میاں برادران کی واپسی ہوئی، خیر سے نہ صرف ہر لوٹے کو شرفِ قبولیت بخشا بلکہ پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے عطا مانیکا کو علاج کیلئے سرکاری خزانے سے دیئے 30 ہزار پائونڈ، مانیکا نے فارورڈ بلاک بنایا، ووٹ شہباز شریف کو دیا، چھوٹے میاں وزیراعلیٰ بن گئے، یہی نہیں عمران دھرنوں کے دوران تحریک انصاف کے 5 ممبران قومی اسمبلی توڑ لئے گئے، اب کل جو چکر دیئے، آج وہی چکر واپس آرہے، جو کل دوسروں کے ساتھ کیا، آج وہی اپنے ساتھ ہو رہا، ویسے ممبران اسمبلی بھی کیا کریں، ہاؤس آف شریفس نظریاتی نہ مسلم لیگ نظریاتی، ہاؤس آف شریفس کاروباری ٹولہ، مسلم لیگ اقتداری ٹولہ، اپنے کرتوتوں کی وجہ سے نواز شریف، حمزہ جیل میں، حسن، حسین، سلمان مفرور، شہباز، مریم ضمانت پر، اوپر سے چچا، بھتیجی لڑائی نے رہی سہی کسر نکال دی، یہ بھی سب کے سامنے کہ ہاؤس آف شریفس، نظریاتی لڑائی نہیں، ذاتی لڑائی لڑ رہا، دوسری طرف ایان سیریز اور انور مجیدوں میں پھنسے بلاول کا بھی کھال بچاؤ، آل بچاؤ، مال بچاؤ مشن، ان حالات میں ارکانِ اسمبلی کی مایوسی، حکومتی آپشن، کو شرفِ قبولیت بخشا فطری عمل، ویسے بھی اب شاہی ٹبروں کی ذاتی لڑائیاں سیاسی کارکن لڑیں، وہ زمانے گئے۔
کالم لکھتے لکھتے ابھی یہیں پہنچا تھا کہ شاعر دوست محبوب ظفر کا موبائل میسج، ملک کے نامور شاعر، دل دل پاکستان کے خالق، نثار ناسک انتقال کر گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون، غربت سے لڑتا نثار ناسک بالآخر غربت سے چھٹکارا پاگیا، چند ہفتے قبل استاد گرامی حسن نثار نے دکھی لہجے میں بتایا نثار ناسک جیسا بڑا انسان کسمپرسی کے عالم میں، حسن نثار صاحب نے جو کچھ کیا، وہ یہاں کیا دہرانا مگر کیسا بدنصیب معاشرہ، حبیب جالب، استاد دامن، ڈاکٹر انور سجاد، نثار ناسک سے لیکر مستانہ اور ببوبرال تک بیسیوں بڑے محتاجی میں مرگئے اور اتنا شور بھی نہ مچا، جتنا زرداری صاحب کے پروڈکشن آرڈرز لیٹ ہونے اور نواز شریف کو جیل میں گھر کے کھانوں کی ممکنہ بندش پر دہائی مچی لیکن وہاں کیا گلہ کرنا جہاں صرف ایان علی کے 75 پھیرے دبئی کے، فالودے، پھیری والے ارب پتی، جبکہ ملک کے 12 سو فنکار 5 پانچ ہزار وظیفوں کی بندش کے خلاف روزانہ تپتی دو پہروں میں سٹرکوں پر احتجاج کرتے ملیں۔