کچھ تصویریں اور بھی ہیں حضورِوالا !
یہ تصویرتو حفظ ہو چکی کہ صاف ستھرا اور ائیر کنڈیشنڈ کمرہ، کمرے میں کرسی پر سرجھکائے بیٹھا حسین نواز، حسین نوازکے ساتھ پڑی میز، میز پر ٹشو کا ڈبہ، ٹشوکے ڈبے کے ساتھ فائلیں اورفائلوں پر پڑے دو پین، یہ بھی سب کو معلوم کہ اس تصویر کے منظرِعام پر آتے ہی کیسے کیسے گونگوں کو زبانیں لگیں، کن کن بہروں نے چیونٹی کے قدموں کی آہٹیں تک سن لیں اور کون کون سے اندھے دیوار کی دوسری طر ف بھی دیکھنے کے قابل ہوگئے اور یہ بھی سب کو پتا کہ اس تصویرپر کتنا شور مچا، کتنے ٹی وی پروگرام ہوئے، کتنی خبریں چھپیں، کتنے بیانات دیئے گئے اور معاملہ کہاں سے کہاں جا پہنچا، لہٰذا اس تصویر پرنہ مزید بات کرنے کی ضرورت اور نہ میرا یہ موضوع، مجھے توصرف یہی کہنا کہ حسین نواز کی تصویر اور اس پر برپا ہوئی قیامت کو ذہن میں رکھ کرذرا چند یہ تصویریں بھی ملاحظہ فرما لیں کہ جو پچھلے کچھ مہینوں کی اوریہ اخباروں میں چھپ بھی چکیں، آپ کو یہ تصویریں کیوں دکھانا چاہ رہا، یہ بعد میں، پہلے ذرا اک نظر ان تصویروں پر !
ایک تصویر تھر کے اس ننگ دھڑنگ بچے کی جو کیچڑمیں لیٹ کر ایک ایسے جوہڑ سے پانی پی رہا کہ جو نہ صرف کوڑا کرکٹ سے بھراہوا بلکہ علاقے بھر کے جانور بھی اسی جوہڑ سے پانی پئیں۔ ایک تصویر گوجرانوالہ کے پٹرول پمپ پر رُکے اس رکشے کی جس پر 3 مرد سفید چادریں تانے کھڑے جبکہ ایک شخص لوگوں اور ٹریفک کو رکشے کے قریب آنے سے روک رہا، بعد میں پتاچلا کہ اس رکشے میں سب کے سامنے دن دیہاڑے گوجرانوالہ کی وہ خاتون بچے کو جنم دے رہی تھی کہ جسے شہر کے سرکاری اسپتال میں جگہ نہ ملی اور پرائیویٹ اسپتال میںعلاج کی اس میں سکت نہ تھی۔ ایک تصویر فیصل آباد کے ایک اسپتال کے سامنے لوگوں کے ہجوم میں زمین پر پڑی ایک لاش کی، یہ لاش اس شخص کی جسے اپنی تمام تر کوششوں اور سفارشوں کے باوجودجب نہ گولی ملی اور نہ ٹیکہ اورجسے ہفتہ بھر کی منتوں سماجتوں اور ترلے واسطوں کے باوجود اسپتال انتظامیہ نے جب دھتکاردیا توپھر غربت اور بیماری سے تنگ آئے اس شخص نے اسپتال کے مین گیٹ پر خود کشی کر لی۔ ایک تصویر تھر میں تپتی دوپہر کے دوران سڑک کے کنارے کھڑی اس خراب ایمبولینس کی جو ایک شیر خوار بیمار بچے کو اسپتال لے جارہی تھی، ایمبولینس خراب ہوئی اور تھر کی دوپہر دوزخ بنی، لہٰذا بیماری اور گرمی سے تڑپ تڑپ کر بچے نے ایمبولینس میں ہی جان دیدی۔ ایک تصویر کوئٹہ میں سڑک کنارے پڑی دو لاشوں کی، یہ وہ مزدور جنہیں نامعلوم موٹر سائیکل سوار گولیاں مار کر جب چلتے بنے تو سڑک پر ہی آدھا گھنٹہ تڑپ تڑپ کر مرنے والے ان دونوں مزدوروں کو 2 گھنٹوں بعد بڑی بے دلی سے مردہ خانے پہنچا دیا گیا۔ ایک تصویر ملتان کے اس غریب کی جسے ٹانگوں سے پکڑ کر دو پولیس اہلکاروں نے تالاب میں الٹا لٹکارکھا جبکہ 4 شیر جوان ساتھ کھڑے قہقہے ماررہے، الٹا لٹکانے، پانی میں غوطے دینے اور جانوروں جیسا تشدد کرنے کی وجہ صرف اور صرف یہی کہ اس پر چوری کا الزام ایک بااثر وڈیرے نے لگایا، سنا گیا کہ اس روایتی تفتیش کے دوران اس بھوکے ننگے نے وہ جرائم بھی قبول کر لئے جو اس کی پیدائش سے بھی پہلے ہو چکے تھے۔ ایک تصویر چارپائی پر تڑپتی جنوبی پنجاب کی اس طالبہ کی جسے ایک جاگیردارکا بیٹا دن دیہاڑے گھر سے اُٹھا کر لے گیا اور جسمانی زیادتی کے بعد اس زندہ لاش کو ایک ویران جگہ پر پھینکوا دیا، ویسے تو سوشل میڈیا پر لاکھ کے قریب لوگ لٹی پٹی اس بے چاری کے حمایتی، لیکن عملی طور پر ابھی تک کوئی ایک بھی مدد کیلئے آگے نہیں آیا۔
ایک تصویر درخت کے پتے کھاتے گوجرانوالہ کے 50 سالہ محمود بٹ کی، کھاجوں اور پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ کا یہ رہائشی بتائے کہ جب کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا تومیں درختوں کے پتے کھا کر اور پانی پی کر پیٹ بھر لیتا ہوں۔ ایک تصویر ملتان کے علاقہ شریف پورہ کے مزدور اور اس کے خاندان کی لاشوں کی، یہ لاچارمزدور جب ہر دروازہ کھٹکھٹا چکا اور جب اسے ہر دروازہ ہی بندملا تو پھر بھوک اورفاقوں سے تنگ آکر اس نے اپنے 4 بچوں اور بیوی کو مار کر خود بھی خود کشی کر لی۔ ایک تصویر خادمِ اعلیٰ کے پسندیدہ شہر لاہور کے نواحی علاقے شاہ پور کانجراں کی جہاں غربت سے تنگ آئے رکشہ ڈرائیوراکبر نے بیوی اوردوبیٹیوں سمیت زہر کھا لیا، آخری اطلاعات آنے تک صرف بیوی کی سانسیں چل رہی تھیں، جبکہ اکبراپنی دونوں بیٹیوں سمیت پریشانیوں اور دکھوں سے جان چھڑا کر کہیں دورجا چکا۔ ایک تصویر پکوڑے تلتے اس نوجوان کی جو میٹرک سے ایم اے تک ہر امتحان میں اول آنے کے باجودنوکری نہ ملنے پر سڑک کنارے پکوڑوں کی ریڑھی لگائے بیٹھا۔ ایک تصویر گھریلو ملازم اس 10 سالہ بچے کی جس کی ایک غلطی پر مالکان نے اسکا ہاتھ کاٹ دیا۔ ایک تصویر شیخوپورہ کی اس بیوہ ماں کی جو برستی بارش میں اپنے 3 بچوں کوخود سے چمٹائے ایک بند دکان کے سامنے صرف اس لئے بیٹھی ہوئی کہ علاقے کے زمیندار نے اس کے گھرپر قبضہ کرکے اسے بے گھرکر دیا، وہ انصاف کیلئے پچھلے دو سالوں سے دربدر دھکے کھا رہی، مگرکہیں کوئی شنوائی نہیںاور ایک تصویر ہری پورمیں سجدے کے اندازمیں سڑک پر پڑے صحافی بخشیش الٰہی کی، جسے نامعلوم افراد گولیاں مارکر غائب ہوگئے۔
دوستو!جیسا کہ پہلے بتا چکا کہ ایک آدھ کے علاوہ باقی تمام تصویریں پچھلے چندماہ کی اور ایسی بیسوؤں تصویریں اور بھی، آج ان تصویروں کی ایک جھلک دکھانے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت، میڈیا سمیت سب اداروں اور اپنی قوم سے یہ پوچھ سکوں کہ جتنی کوریج یا پذیرائی آپ حسین نواز کی تصویر کو بخش چکے، کیا اتنی توجہ آپ نے ان تصویروں کوبھی دی، کیا ان تصویروں پر بھی ٹی وی پروگرام ہوئے، کیا اخباروں نے ان تصویروں کو بھی قومی ایشو بنایا، کیا ان تصویروں پر بھی کسی عدالت میں کوئی بنچ بنا یاکہیں کوئی کیس چلا اور کیا ان تصویروں پر بھی کوئی حکومتی ترجمان گرجا برسایا کسی نے گلا پھاڑپھاڑ کر دہائی دی، چلو یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلیتے ہیں کہ وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز اور کوڑیوں کے بھاؤ بکتے ٹکے ٹکے کی مخلوق کا کیا موزانہ، پھر بھی یہ سوال توضروربنے کہ جتنی کوریج اکیلے ان کو ملی، کیااتنی کوریج ان تمام بے بسوں اور بے کسوں کو مل سکی۔ ۔ نہیں نا۔ ۔ بس یہ سب تصویریں دکھا کر یہی بتانا اور سمجھانا تھا کہ یہاں غریب لٹ جائے یاعام آدمی مرجائے مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا کیونکہ یہ ملک 22 کروڑ کا تھوڑی، یہ توصرف چند سو خاندانوں کا، یہاں ہر سہولت، ہر آسائش اور سب انصاف اسی مخصوص طبقے کیلئے اور یہاں اشرف المخلوقات صرف یہی طبقہ، باقی سب توکیڑے مکوڑے، کاش پاناما، ڈان اور تصویر لیکس میں الجھے ذرا اس قوم پربھی توجہ دے لیتے کہ جواب چاروں طرف سے لیک ہو چکی، اگر اب بھی آپ کسی مسیحا سے کوئی امید لگائے بیٹھے،
اگر ابھی بھی آپ یہ سمجھ رہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے انقلاب آجائے گااوراگرابھی بھی آپ کے doubts کلیئر نہیں ہوئے تو پھر سلام ہے آپ کی بصیرتوں اور ہمتوں کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں ہاتھوں سے سلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باقی جاتے جاتے کہنا یہ بھی کہ آج وزیراعظم نواز شریف کی پیشی، اس پیشی کا ایک پہلو تو یہ کہ بہت اچھی بات وزیراعظم نواز شریف کسی استثنیٰ کے چکر میں نہیں پڑے، کوئی آئیں بائیں شائیں نہیں ہوئی اور حکومتی مشینری نے سب کچھ من وعن تسلیم کیا، یہ یقیناًعدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی کا پریشر، عمران خان کی مستقل مزاجی کا نتیجہ اور بلاشبہ مہذب معاشروں میں ایسا ہی ہو، لیکن اس پیشی کا دوسرا پہلو یہ بھی کہ توبہ، استغفار کرنے کو جی کرے یہ دیکھ کر کہ کچھ لوگ اتنے غریب کہ انکے پاس دولت کے علاوہ کچھ نہیں اور یہیں یادآئیں مولانا رومی کہ ’’کوئی بھی چیزجب ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو وہ زہر بن جائے، خواہ وہ دولت ہو، صحت ہو، اختیار ہو، طاقت ہویا اقتدار ہو‘‘باقی آپ خود ہی سمجھ جائیں۔