ایک سوال دو بابے !
جیسے یہ سچ کہ غیب کا علم اللہ ہی جانے اور وہی سب کچھ کرنے پر قادر، ویسے ہی یہ بھی اِک حقیقت کہ اللہ جسے چاہےجب چاہے اور جو چاہے عطا کر دے !
یہ اس روز کی بات جب حسین نواز دوسری بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، گوکہ صوفی صاحب سے ملاقات، ‘ سلام دعا، حال احوال اور جو کچھ پوچھنا، بتانا تھاوہ سب ہو چکا، مگر میں پھربھی وہیں بیٹھا ہوا اور میرے بیٹھنے کی وجہ ایک ہی کہ آج ان سے پاناما کیس پر کچھ نہ کچھ پوچھ کر ہی جانا، ویسے تو صوفی صاحب کو سیاست اور سیاسی گفتگو ناپسند اور وہ ہر قسم کی پیشں گوئیوں سے بھی دور بھاگیں مگر مجھے پتا کہ اگر موڈ میں آجائیں توپھر وہ کچھ بھی بتاجائیں جو وہم وگمان میں بھی نہ ہو، جیسے مجھے ابھی ابھی یاد آیا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے 12 دن پہلے صوفی صاحب نے کہا تھا ’’ میری جب بھی بے نظیر بھٹو پر نظر پڑتی ہے تو مجھے وہ پریشان حال نظرآتی ہیں ‘‘، یہ بھی صوفی صاحب ہی کہ جنہوں نے مشرف کے عین عروج کے دنوں میں کہہ دیا ’’بددعائیں مشرف کا پیچھا کررہیں‘‘لگتا ہے نواز شریف کی کچھ جلا وطنی انہیں کاٹنا پڑے گی ‘‘ اور یہ بھی صوفی صاحب ہی جو کئی بار یہ بتا چکے کہ ’’ سب مل کر کچھ کرلیں، حالات یہی رہے تو ملک بینک کرپسی سے بچ بھی گیا تو بھی 2019-20 میں ہمیں بھارت سے لڑوا دیا جائے گا اور لڑوانے کا واحد مقصد نیو کلیئر پروگرام کو رول بیک کرواناہے ‘‘۔
میں ان کے ہاں پہنچا تو مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی مگر تپتی دوپہر حبس زدہ سہ پہر میں بدلنے، سہ پہر شام میں ڈھلنے اور شام کے رات کی چادر اوڑھنے تک مسجد میں بند آنکھوں اور جھکے سر کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگائے منہ ہی منہ میں پڑھتے صوفی صاحب کے سامنے ہم 4 پانچ لوگ ہی رہ گئے، بجلی ایک گھنٹہ آکر پھر سے ایک گھنٹے کیلئے جاچکی تھی اور ایک بار پھر مسجد کے اکلوتے پنکھے اور ٹیوب لائٹ کو پرانی بیٹریوں والا یو پی ایس ہی چلا رہا تھا، اچانک صوفی صاحب نے سراُٹھایا، مجھ پر نظر پڑی، چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اور اُنہوں نے اپنے سامنے پڑی پلیٹ سے چند بادام اُٹھا کر میری طرف بڑھائے، ان کے ہاں اس کامطلب یہی کہ اب تم جاسکتے ہو یا بہت ہوگیا اب یہاں سے نکلو، لیکن بادام لے کراور انہیںمنہ میں ڈال کربھی میں وہیں بیٹھا رہا، ہلا تک نہیں، غالباً انہیں جب کوئی ہل جل محسوس نہ ہوئی تو انہوں نے دوبارہ سر اُٹھایا اورمجھے بڑے اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر ہلکا سا مسکراکر بولے ’’پوچھو۔ ۔ ۔ مجھے پتا ہے تم کچھ پوچھے بنا نہیں جاؤ گے، مگر صرف ایک سوال ‘‘ میں تو اسی موقع کی تلاش میںتھا، فوراً سوال کر دیا ’’صوفی صاحب کیا میاں نوازشریف بچ جائیں گے ‘‘ چند لمحے سامنے خلا میں گھورنے پہلو بدلنے اور سر دیوار سے لگانے کے بعد وہ بولے ’’حقیقی علم تو اللہ کو، مگر میری ناقص رائے یہی کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا، یاد رکھو جب کوئی سیکھنا چھوڑ دے، خود کو Perfectسمجھنے لگے اور جب کسی کی انا اس سے بھی بڑی ہوجائے تو پھر beginning to endکا ہونا لازمی، لیکن جیسے سپریم کورٹ کے بعد جے آئی ٹی آئی، اسی طرح جے آئی ٹی کے بعد بھی ابھی کچھ مرحلے باقی ‘‘صوفی صاحب خاموش ہوئے اور اس سے پہلے کہ میں کچھ اور پوچھتا اُنہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’اللہ کے حوالے، باقی باتیں بعد میں ‘‘ پھر سے سر جھکا کر پڑھنا شروع کر دیا اور ایک آدھ منٹ کے بعد نہ چاہتے ہوئے میں بھی اُٹھ کر مسجد سے باہر آگیا۔
یہ میاں نواز شریف کی پیشی سے ایک دن پہلے کی بات، مجھے جیسے ہی پتا چلا کہ سیلانی طبیعت والے شاہ صاحب اپنے ڈیرے پر آچکے اور شام تک ان سے ملا جاسکے تو ایک لمحہ ضائع کئے بنا میں گھر سے نکل پڑا، یہاں یہ بتانا ضروری کہ یہ وہی شاہ صاحب جو کبھی لاہور اور اسلام آباد کی روحانی محفلوں کی جان ہوا کرتے اورجن کی مجلسوں میں جنرل ضیا الحق سے میاں نواز شریف تک، جنرل حمید گل سے قاضی حسین احمدتک اور سلطان راہی سے فیض احمد فیض اور اشفاق احمد تک سب آیا کرتے، یہ وہی شاہ صاحب جنہیں واصف علی واصف سُچا درویش کہا کرتےجنہیں رسول ؐ سے عشق، قرآن جن کی زندگی اورجنہیں بیک وقت سائنس اور اسلام پر کمانڈ حاصل اور یہ وہی شاہ صاحب جن سے کوشش اور خواہش کے باوجود اب اس لئے ملاقات نہ ہو پائے کہ یہ محفلوں، مجلسوں کو ترک کر چکے اورشہروں اور آبادیوں سے دور دورہی رہیں خیر دو ڈھائی گھنٹے کے پہاڑی سفر کے بعد تپتے دوپہر ی لمحوں میں حسب ِ سابق اپنے کشمیری دوست ملک صاحب کے گھر گاڑی کھڑی کرنےچابی ان کے ملازم کے حوالے کرنے اورپھر سانپ کی طرح بل کھاتی پگڈنڈی پر 15 منٹ چل کر جب میں نے سامنے چھوٹی پہاڑی کی گود میں درختوں سے ڈھکے نیلے چھت والے گھر سے دھواں اُٹھتا دیکھا تو سمجھ گیا کہ نہ صرف شاہ صاحب موجود بلکہ اس وقت یقینا وہ لکڑیوں والے چولھے پر چائے کی کیتلی چڑھائے بیٹھے، میں نے اپنی رفتار تیزکی اور 10 منٹ کی مسلسل چڑھائی کے بعد ہانپتے کانپتے جب ان کے ڈیرے پر پہلا قدم رکھا تو چولھے کے ساتھ ہی زمین پر آلتی پالتی مارکر مٹی کے پیالے میں چائے پیتے شاہ صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی ’’ سیاست کھینچ لائی، ورنہ تم نے ہمیں کب ملنے آنا تھا ‘‘، ایک زور دار جپھی کے بعد ان کے پاس ہی زمین پر بیٹھ کر دو چارلمحے سانسیں درست کر کے میں نے کہا’’ اللہ کا شکر آپ مل گئے، ورنہ 6 سات مرتبہ تو یہاں آکر بھی مایوس ہی لوٹا‘‘، میر ی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اُنہوں نے مٹی کے پیالے میں چائے ڈال کر مجھے پکڑائی اور پھر خود ہی بولنا شروع کردیا’’ نہ پاناما سے کچھ نکلنے والا اور نہ جے آئی ٹی کوئی تیر چلانے والی بلکہ میں تو یہ دیکھ رہا کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی جو رپورٹ جمع کروائے گی۔ اس کا لب ولباب یہی کہ’’ جو کچھ ہوا وہ ملک سے باہراوریہ ہمارے دائرہ کار سے باہر، پھر وقت کی کمی او رادارے بھی تعاون نہیں کررہے تھے، لہٰذا جو کچھ ہو سکا وہ حاضر اور اب فیصلہ آپکا ‘‘ شاہ صاحب بات کرتے کرتے رُکے، کیتلی کو چولھے سے اتار کر زمین پر رکھا اور بات دوبارہ شروع کر دی ’’جہاں حکمرانوں کی نیتیں خراب ہوں، قوم کے کرتوت ٹھیک نہ ہوں اورجہاں سب اللہ کی نافرمانیاں کر رہے ہوں ‘وہاں تبدیلی ‘ خوشحا لی یا انقلاب کہاں سے آئے گا ابھی یہی حکمراں مسلط رہیں گے ابھی افراتفری اور بے سکونی اور بڑھے گی اورابھی رونا دھونا اور چلے گا ‘‘ شاہ صاحب کی بات جاری تھی کہ کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دی ‘وہ خاموش ہوئے‘ ہم نے چائے ختم کی ‘وضو کیا‘ ظہر کی نماز پڑھی اور اس سے پہلے کہ میں کوئی اور بات کرتا اُنہوں نے حکم صادر فرما دیا’’تم نکلو کیونکہ میں نے بھی کہیں اور جانا ہے‘‘ یہ کہہ کر اُنہوں نے الوداعی جپھی ڈالی، میرے کندھے تھپتھپائے اورمجھے وہیں کھڑا چھوڑ کر اپنے حجرے کی طرف چل پڑے اورپھر جیسے ہی وہ اپنے حجرے میں داخل ہوئے میں نے بھی واپسی کا سفر شروع کر دیا لیکن 5 منٹ چل کر ایک موڑ مڑتے ہوئے غیر ارادی طو ر پر جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو80 سالہ شاہ صاحب جوانوں جیسی پھرتی سے میری مخالف سمت وادی کے سب سے بڑے پہاڑ کی طرف بڑھتے نظر آئے، میں سمجھ چکا تھا کہ مزید کسی ملاقات اور ملاقاتی سے بچنے کیلئے وہ پھر سے اپنی جگہ بدل رہے۔ صاحبو! موجودہ سیاسی صورتحال پر یہ ان 2 درویشوں کا نقطہ ٔ نظرجن کی زندگی کا واحد مقصد اللہ کی رضا، جن کا سیاست سے دور دور تک کوئی لینا دینا یا تعلق واسطہ نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دونوں بابے ہماری دنیاترک کر کے اپنی الگ دنیا بسا چکے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ماضی میں جہاں کئی بار انکی باتیں درست نکلیں وہاں ایک آدھ بار معاملہ الٹ بھی نکلا، گو کہ اس بار بھی مجھے میرا تجسس ان کے پاس لے گیا اور جو کچھ اُنہوں نے کہا وہ من وعن آپ تک پہنچا بھی دیا لیکن میرا یہ ایمان کہ ہونا وہی جو اللہ نے چاہنا کیونکہ غیب کا علم اللہ ہی جانے اور وہی سب کچھ کرنے پر قادر، مگر ان سے اس لئے ملا کیونکہ میرا یقین کہ اللہ جسے چاہے، جب چاہے اور جو چاہے نواز دے اور یہ نوازے ہوئے لوگ۔