Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. Ye Dunya Hai Yahan Har Baat Mumkin Hai (1)

Ye Dunya Hai Yahan Har Baat Mumkin Hai (1)

یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے (1)

مستقبل میں کیا ہو گا؟ علیم و خبیر اللہ ہی بہتر جانتا ہے، میرا مگر خیال ہے کہ اب میڈیا کی باری ہے، بیس سال تک اپنی عسکری قوت، سائنسی ترقی اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے ڈرا ڈرا کر امریکہ نے پوری دنیا کا خون خشک کئے رکھا، پاکستان ہی نہیں ہر مسلم ریاست میں ایک نسل جوان ہوئی جس نے افغانستان میں امریکی ٹیکنالوجی اور عسکری صلاحیت کی شان میں قصیدے سنے، یقین کیا کہ افغانستان میں طالبان کبھی دوبارہ سر اٹھائیں گے نہ ملا عمر کے عمامہ پوش پیرو کار ایوان اقتدار کے اردگرد پھٹکیں گے، افغانستان کے مالک اب حامد کرئی، عبداللہ عبداللہ، عبدالرشید دوستم، اشرف غنی، احمد مسعود ہیں، امریکہ کی کبریائی کا کلمہ پڑھنے والے، سیکولر اور کرپشن میں لت پت لبرل، 2021ء میں مگر شرمناک انخلا نے یکطرفہ پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی اور ثابت یہ ہوا کہ ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھاجو سنا افسانہ تھا

نیٹو ممالک حیران ہیں کہ امریکہ نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ بیس سال تک یورپی عوام کو دھوکہ کیوں دیا، برطانیہ کے وزیر دفاع نے کھل کر کہہ دیا کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں، اس نے اپنی عالمی ساکھ خراب کر لی، کامیابیوں کی جھوٹی داستانیں، افغان نیشنل آرمی کی مصنوعی تربیت، جنگی تیاری اور افغان حکمرانوں کی جعلی عوامی مقبولیت کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا اور واحد سپر پاور کی ساکھ کل عالم کے علاوہ اپنے اتحادیوں میں بھی خراب ہو چکی، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

امریکی ناکامی سے سبق یہ ملا کہ اپنی طاقت و قوت کا غلط اندازہ لگانا چاہیے نہ دشمن کی صلاحیت اور حکمت عملی کو متکبرانہ انداز میں نظر انداز کرنا تقاضائے دانش مندی ہے، جھوٹ کے طومار سے زمینی حقائق بدلے جا سکتے ہیں نہ زیادہ عرصے تک سیاہ کو سفید منوانا، غلط کو درست ثابت کرنا ممکن، افغانستان سے فوجی انخلا اور عسکری پسپائی کے بعد دانائی کا تقاضا یہ تھا کہ افغانستان اور طالبان کو اپنے حال پر چھوڑ کر امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی بیس سالہ ناکامیوں کا جائزہ لیتے اور آئندہ کسی دوسرے آزاد و خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عزم دہراتے مگر ایک بار پھر طالبان کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے اور ایک خود مختار قوم کو دنیابھر میں بدنام کرنے کی نئی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ شکست خوردہ فریق فاتحین سے شرائط منوانے کے درپے ہے اور منفی پروپیگنڈا سے یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا کہ امریکی واپسی کے بعد گویا افغانستان جاں بلب ہے اور افغان عوام عالمی برادری کے روبرو ہاتھ پھیلائے مدد کے طلب گار ہیں۔ افغانستان میں موجود غیر جانبدار پاکستانی اور غیر ملکی صحافی تسلسل سے یہ اطلاعات فراہم کر رہے ہیں کہ افغان طالبان متحد ہیں، سیاسی اور عسکری اُمور چلانے والی قیادت یک جان دو قالب ہے۔

15اگست کے بعد امن و امان کی صورتحال بہتر ہے، اشیائے خورو نوش، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی کمی نہیں اور عام شہری کرپٹ ٹولے سے نجات ملنے پر خورسند، مغربی کلچر کی دلدادہ اقلیت یقینا پریشان ہے اور کرپٹ وار لارڈز کے پروردہ عناصر خوفزدہ مگر شہر و دیہات میں کہیں طالبان کو عوامی مزاحمت کا سامنا ہے نہ اپنے مستقبل سے مایوس شہریوں کی مخالفانہ مہم جوئی کا اندیشہ، بھارتی اور مغربی میڈیا پر البتہ یکسر مختلف تاثر دیا جا رہا ہے، حکومت کی تشکیل میں تاخیر کو طالبان کی صفوں میں انتشار اور محاذ آرائی کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ بعض مغربی و بھارتی اخبارات و جرائد نے تو عبدالغنی برادر اور شیر محمد عباس کے مابین ہاتھا پائی کی خبریں تک چھاپ دیں۔ کابل، قندھار، ہرات اور مزار شریف سمیت کئی شہروں میں اشیائے خورو نوش اور ادویات کی قلت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا اور وادی پنج شیر کے شیر قالین احمد مسعود، سابق نائب صدر امراللہ صالح کی دلیری اور استقامت کے گیت گائے جا رہے ہیں، عبوری حکومت کا اعلان کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کھل کر کہا کہ یہ فہرست حتمی نہیں، ردوبدل کا امکان ہے اور ہر نسلی و لسانی گروہ کو بھرپور نمائندگی دی جائے گی، اس کے باوجود عالمی میڈیا کا منفی پروپیگنڈا جاری ہے۔

پاکستان میں میڈیا پر دبائو کا ذکر ہوتا ہے اور فیک نیوز کی بہتات کا شکوہ بھی، مگر افغانستان کے حوالے سے امریکہ و یورپ اور ہمارے سیکولر لبرل دوستوں کی محبوب جمہوری ریاست بھارت میں فیک نیوز کا بازار گرم ہے۔ پرانی تصویریں، ویڈیوز اٹھا کر موجودہ طالبان انتظامیہ کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ کشمیر، فلسطین کے مظلوم عوام کی فوٹیجز کو افغانستان کے تازہ واقعات کے طور پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے اور ایک روز قبل وجود میں آنے والی طالبان حکومت کا چہرہ مسخ کرنے کی بھونڈی کوششیں عروج پر ہیں۔ بیس سالہ قوت، ہیبت اور کامیابیوں کا بھانڈا 15 اگست کو پھوٹ چکا، جارحیت پسندوں کے ہاتھ ندامت کے سوا کچھ نہیں آیا۔ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر طالبان کابل میں داخل ہوئے اور تین لاکھ فوج کا ایک سپاہی بھی کہیں مزاحمت کے لیے موجود نہ پایا، لگتا ہے شرمندگی کی یہ کالک ملنے کے بعد بھی یار لوگوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب مغربی، بھارتی میڈیا اپنی رہی سہی ساکھ کی لٹیا ڈبونے کے درپے ہے اور فیک نیوز، بے سروپا ہذیانی تبصروں و تجزیوں سے گوئبلز کی روح کو شرمندہ کرنے کا خواہش مند۔ پہلے کی طرح اگر طالبان نے عالمی میڈیا کو بھی سرپرائز دیا، خوراک و ادویات کی قلت ہوئی نہ امن و امان کی صورتحال ابتر اور مزاحمتی فرنٹ بھی اشرف غنی، دوستم وغیرہ کی طرح منظر سے غائب ہوگیا، گدھے کے سر سے سینگ غائب ہونے کا محاورہ سچ ثابت کردیا تو صدق بیانی، صحافتی اصول پسندی اور اظہار رائے کی آزادی کے علمبردار نام نہاد میڈیا کا ردعمل کیا ہوگا؟ کھسیانی بلی کھمبا نوچے گی یا اعلیٰ ظرفی سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے گا۔

امریکہ اور یورپ کو طالبان نے ایک سرپرائز 15 اگست کو دیا، عقلمندوں کے لیے یہی اشارہ کافی تھا کہ گھڑی امریکہ کے پاس رہی وقت مگر طالبان کی مٹھی میں بند تھا اور انہوں نے 15 اگست کو اپنی مٹھی کھول کر سب کو ششدر کردیا۔ اب بھی ممکن ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت اور طالبان کی سیاسی، سفارتی اور انتظامی صلاحیت کے بارے میں لگائے جانے والے سارے تخمینے، دھرے کے دھرے رہ جائیں اور چین، روس، قطر، پاکستان، ترکی کے تعاون سے افغان حکمران و عوام، خبر نگاروں، تجزیہ کاروں اورمنفی سوچ کے حامل ابلاغی ماہرین کو دریائے ندامت میں غرق کر دیں۔ منفی مہم سے طالبان کی بدنامی پر تُلا عالمی میڈیا اپنی بچی کھچی ساکھ ہی خراب نہ کر بیٹھے ع

یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra