Dost Ke Naam Pegham
دوست کے نام پیغام

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پے۔
زندگی میں انسان پر کچھ ایسی کیفیات نازل ہوتی ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی، نہ ہی اُن کو مکمل طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، اِس کالم میں کوشش کی گئی ہے اِن کیفیات کو بیان کرنے کی ایک دوست کے نام پیغام کی صورت میں پیش خدمت ہے۔
السلام علیکم۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے آج کچھ مختلف عرضداشت لے کے حاضر ہوا ہوں۔ جناب کچھ عرصے سے مجھ میں دنیا کی آرزو کم ہوتی جا رہی ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ حالانکہ میں ایک اچھی پوزیشن پہ ایک آفس میں کام کر رہا ہوں اور اچھا پیسہ کما رہا ہوں لیکن روپیہ کمانے کی آرزو ختم ہوتی جا رہی ہے۔
گرچہ ابھی بہت سے کام باقی ہیں جیسے بچوں کی تعلیم، گھر بنانا، روزمرہ کا خرچ وغیرہ وغیرہ، لیکن جسم میں جیسے کرنٹ ختم ہوتا جا رہا ہے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑھاپا ہے تو عمر تو اتنی زیادہ نہیں ہے، لیکن مقابلے کی تمنا ختم ہوتی جا رہی ہے۔ احساسات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی خبر سنوں کوئی، ویڈیو دیکھوں، جس میں انسان تکلیف میں ہو تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور گھنٹوں اِس واقعے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کا کیا حل ہے۔
آپ سرکار ﷺ کا خیال بھی میرے وجود میں اکثر جانگزین رہتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سب کام اِسی درد و غم کی ردا میں ہو رہے ہیں۔
میں اپنے آفس میں ایک اچھی پوزیشن پہ ہوں میرے ماتحت کچھ لوگ کام کر رہے ہیں لیکن اُن سے کام لینے کا طریقہ مختلف ہوتا جا رہا ہے۔ عام طور پر مینجر اپنے ماتحتوں کو ڈانٹتا ہے اُن سے کام لینے کے لیے لیکن مجھ میں وہ صلاحیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
اگر کسی کو کام کا کہتا بھی ہوں تو ایک دوستانہ انداز میں شفقت کے ساتھ، یہ مینجمنٹ کے اصولوں کے خلاف ہے جس سے کہ کام پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ شاید میں اس پوزیشن کے قابل نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اپنی نوکریاں تبدیل کر رہا ہوں، لیکن نوکری بدلنے سے کیا ہوگا مجھے تو لگتا ہے کہ میرا اندر بدل رہا ہے میں دنیا کے قابل نہیں رہا۔
کچھ مہینے پہلے میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ کسی خیال کے تحت میری آنکھیں تر ہوگئی اور میں رونے لگا آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے یہ کیفیت میرے بس میں نہیں تھی۔ اسی لمحے میرے ایڈمن مینجر میرے کمرے میں داخل ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کیا تم رو رہے ہو تو میں نے عرض کیا کہ جی نہیں صرف نزلہ اور فلو کی وجہ سے ایسے ہے اور میں بات کو ٹال گیا، یہ کیفیات نہ کسی کو بتائی جا سکتی ہیں اور نہ سمجھائی جا سکتی ہیں مجھے ایسے لگتا ہے کہ دنیا مجھ سے چھڑوائی جارہی ہے۔
حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان یاد آتا ہے کہ اگر سونا پہننے کا شوق ہو تو کان تو چھدیں گے، کیا یہ کان چھدنے کا عمل ہے، جو میرے ساتھ ہو رہا ہے اور پھر بانو آپا کی وہ بات وہ جملہ کہ اللہ کہیں کچھ رہنے دیتا ہے اُس کا سوائے اپنے جس کو اللہ سے محبت ہوگئی ہو۔
مجھے تو لگتا ہے یہ دنیا کے چھننے کا عمل ہے، یہ کیفیات کیا ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک سال پہلے جامیؒ کا کلام سنا جس میں ایک شعر تھا، "مریضم یا رسول اللہ مریضم علاج درد دل اے چارہ گر کن" یہ اشعار سننے کے بعد مجھ پر ایسی کیفیت وارد ہوئی کہ میں ہچکیاں لے لے کے رونے لگا اور تقریباََ آدھ گھنٹے تک مستقل روتا رہا، پہلے کبھی ایسے نہیں ہوا یہ کچھ عجیب ہے، میں اپنی زندگی میں ان کیفیات سے نہیں گزرا۔
آپ سرکار ﷺ کی حدیثِ قدسی یاد آتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ تیار ہو جاؤ غم کے لیے اگر میری محبت کا شوق ہے، آب تو یہ حالت ہوتی جا رہی ہے کہ آپ سرکار ﷺ کا خیال اکثر جانگزیں رہتا ہے اور کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں ہوتا کہ آنکھ نم نہ ہو اور آپ سرکار کے خیال کے بعد میں غور و فکر کی دنیا میں چلا جاتا ہوں یہ سب کیا ہے کیوں ہے ایسے لگتا ہے رنج و غم زندگی کا حصہ بن گئے ہیں اِن سے بچا نہیں جا سکتا، بچنا اپنے بس میں ہی نہیں۔
زندگی ایسے ہی گزرے گی۔ لیکن ابھی تو بہت سے کام کرنے ہیں بچوں کی تعلیم باقی ہے، گھر کی تعمیر ہے، روزمرہ کی ضروریات کے لیے پیسہ کمانا ہے، میں کیا کروں میری رہنمائی فرمائیں۔
آپ کا دوست ایک درد مند۔۔