Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Jigar Ka Tukra

Jigar Ka Tukra

جگر کا ٹکڑا

کہتے ہیں کہ زندگی قدرت کا ایک انمول عطیہ ہوتی ہے۔ جسے ہمارئے والدین ہمیں تحفے میں دیتے ہیں لیکن دنیا میں کچھ ایسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں جب اولاد والدین کو نئی زندگی کا تحفہ دیتی ہے اور بسا اوقات اپنے والدین کی زندگی بچاتے بچاتے خود اپنی زندگی ہار جاتی ہے۔ یہ قربانی کا جذبہ زیادہ تر بیٹیوں میں دکھائی دیتاہے۔ جگر انسانی جسم کا لازمی اور سب سے قیمتی جزو ہے جس میں خرابی پیدا ہونے پر جسم کے دوسرئے اعضاء بھی ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔

ہمارے ملک میں جگر کا کینسر بہت عام ہے جو ہیپا ٹائٹس اے، بی یا سی کی باعث پھیل رہا ہے، یہ مرض رفتہ رفتہ جان لیوا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جگر کی دائمی بیماری یا آخری مرحلے کے جگر کے کینسر میں مبتلا افراد کو جگر کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ بیمار جگر کو ایک ٹھوس جگر میں بدلنا اس لیے جگر کی پیوندکاری میں بےشمار پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ اس لیے جگر کا عطیہ اگر گھر کے افراد دیں تو کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جبکہ جگر کا عطیہ دینے والے کو بھی زندگی کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

باپ بیٹی کا رشتہ دنیا کے سب سے خوبصورت اور خالص رشتوں میں سے ایک ہے۔ یہ محبت ایثار، قربانی اور بے لوثی کی عظیم مثال سمجھی جاتی ہے۔ جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے دنیا کی ہر مشکل کو سہنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر اس کی خوشیوں کو مقدم رکھتا ہےوہیں بیٹیاں بھی ان پر جان نچھاور کرنے سے کبھی دریغ نہیں کرتیں۔ کہتے ہیں کہ باپ ہی وہ پہلا مرد ہوتا ہے جس پر بیٹی اندھا اعتماد کرتی ہے۔ وہ پوری زندگی اس کا ہیرو اور آئیڈل ہوتا ہےجس پر وہ فخر کرتی ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ کی خاموش مگر گہری محبت اسے اپنی بیٹی کے سامنے بے بس کر دیتی ہے اور وہ زندگی ہار نے لگتا ہے۔ تو بیٹی اپنے باپ کو ہارنے نہیں دیتی بلکہ اپنی جان دیکر اس کی جیت کو ممکن بنا دیتی ہے۔

بےشک بیٹیاں کمزوری نہیں بلکہ والدین کی طاقت ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر بوڑھے والدین بیٹیوں کی ذمہ داری ہوتے تو اولڈ ہوم کبھی نہ بنانے پڑتے۔ میری ایک قریبی عزیزہ کے چار بیٹے ہی بیٹے تھے جوانی میں وہ اس بات پر بڑا فخر اور ناز کرتی تھی لیکن جب بڑھاپے نے بستر پر لا ڈالا اور وہ چلنے پھرنے سے محروم ہوگئی تو بار بار کہتی کہ کاش میری ایک بیٹی ضرور ہوتی!

اسی لیے کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹیوں کی محبت ہمیشہ لافانی ہوتی ہے۔ جہاں باپ اپنی پوری زندگی بیٹیوں پر نثار کردیتا ہے وہیں بیٹیاں بھی ضرورت پڑنے پر اپنے بابل کے لیے جان دینے سے گریز نہیں کرتیں شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں تو باپ کے جگر کا ٹکڑا ہی ہوتی ہیں۔ گو یہ خبر تو چھوٹی سی ہے لیکن بات بہت بڑی ہے کہ ملتان کی ایک بیس سالہ بی ایس سی کی طالبہ مقدس خلیل نے باپ کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کی قربانی دئے دی۔

شجاع آباد راجہ رام کا رہائشی 50 سالہ خلیل عرصہ دراز سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹرز نے خلیل احمد کی زندگی بچانے کے لیے جگر کی پیوندکاری کی تجویز دی تھی۔ خلیل احمدکی 20 سالہ بیٹی مقدس نے باپ کو بچانے کے لیے اپنے جگر کا ٹکڑا عطیہ کیا۔ مقدس نے اپنا 60 فیصد جگر اپنے والد کو دے کر اس کی جان بچا لی۔ یہ دونوں باپ بیٹی سندھ کے ہسپتال خیرپور گھمبٹ میں پندرہ روز سے زیر علاج تھے۔ لیکن مقدس خلیل باپ کو جگر کا ٹکڑا دیکر جانبر نہ ہو سکی اور اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔۔ جی ہاں! سچ میں بیٹیاں تو ایسی ہی ہوتی ہیں جو اپنی جان تک نچھاور کرکے اپنے باپ کو زندہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ اللہ پاک اس بیٹی مقدس خلیل کے درجات بلند کرے آمین۔

اس سے قبل خواتین ماوں کے اپنی اولاد کی خاطر جان دینے کے بےشمار واقعات سنے تھے لیکن اپنے والد کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جان کی قربانی ایک منفرد واقعہ ہے ذرا اس باپ کی حالت کا اندازہ لگائیں کہ جو بیٹی کے جگر سے زندہ رہ کر بیٹی کی موت کا دکھ برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ پہلے اسکی بیٹی جسم سے باہر اس کے جگر کا ٹکڑا تھی اور اب اسکے جسم کا حصہ بن کر جگر کا ٹکڑا بن گئی ہے گویا اس نے اپنا جگر نہیں بلکہ اپنی زندگی اپنے باپ کو عطیہ کردی ہے۔

اس سے چند سال قبل ڈیرہ بگٹی کے طوطا خان نامی ایک نوجوان نے جگر دے کر اپنی ماں کو بچا لیا تھا جس سے اسکی ماں کو تو نئی زندگی مل گئی مگر یہ جواں سال بیٹا خود جان کی بازی ہار گیا تھا۔ جس نے ہدایت کی تھی کہ ماں کی مکمل صحت یابی تک اس کی موت کی خبر کو ماں کو نہ بتایا جائے۔

اس سے قبل بھارت کی اٹھارہ سالہ ایتھلیٹ انکیتاشریواستو نے اپنے جگر کا چوہتر فیصد حصہ عطیہ کرکے اپنی ماں کی جان بچائی تھی اور اپنا ایتھلیٹ بننے کا خواب بھی پورا کیا تھا۔ لیکن آپریشن کے دو تین ماہ بعد ہی اس کی ماں زندگی کی بازی ہار گئی۔ ہانگ کانگ میں تین بیٹیوں نے بیک وقت اپنے اپنے جگر کا حصہ عطیہ کرکے اپنی ماں کو زندہ رکھا کہتے ہیں کہ یہ جگر کا واحد تاریخی آپریشن تھا جہاں ماں کے ساتھ ساتھ تینوں بچیوں کی سرجری بھی کرنی پڑی تھی۔ میں نے بےشمار واقعات دیکھے ہیں جہاں بیٹیوں نے اپنی آنکھیں، گردئے اور جگر جیسے عطیے دئے کر اپنے والدیں کو نئی زندگی دی ہے۔

مقدس خلیل کی موت کا یہ الم ناک واقع جس دن ہوا پوری دنیا خواتین کے حقوق کا عالمی دن منا رہی تھی۔ پوری دنیا میں سیمینارز، ریلیاں، تقاریر اور تحریروں کے ذریعے دنیا بھر کی نصف سے زیادہ آبادی کے حقوق کی بات کی جارہی تھی۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور اخلاقی، قانونی، معاشرتی اور مذہبی حوالوں سے کی جانے والی زیادتیوں کے ازلے کے مطالبات کئے جارہے تھے۔ اس اہم دن پر مقدس خلیل کی اس قربانی کو ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ بےشک اس عظیم بیٹی نے پوری دنیا میں خواتین کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں۔

میری ان تمام والدین سے التجا ہے کہ خدارا بیٹیوں کو کبھی بھی اپنے بیٹوں سے کم نہ سمجھیں۔ ان کو ہماری زندگی میں بیٹوں سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ تو جگر کا ٹکڑا ہوتی ہیں۔ ان کی پیدائش پر ضرور خوشیاں منائیں اور مٹھائی بانٹیں کیونکہ یہ آپ پر رب کی رحمت ہوتی ہیں۔ بیٹوں کی طرح ان کی تربیت اور تعلیم میں بھی کوئی کمی نہ رکھیں۔ ان کے برابری کے حقوق کا مکمل خیال رکھیں۔ یہ بےزبان اور محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔ خدارا! ان سے بیٹوں کی خاطر جائداد جیسی معمولی چیز کی قربانی نہ مانگا کریں اور کسی بھی طرح کی ان کی وراثتی حق تلفی سے گریز کریں۔

اسلام نے بیٹی کو معاشرے میں جو حقوق اور مقام دیا ہے وہ صرف اسلام کا ہی خاصا ہے۔ بیٹی کو بوجھ سمجھنا، اسکے حقوق پر ڈاکا ڈلنا، اس کو وراثت سے کسی بھی طرح محروم کرنا اور اسکے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہرگز اسلامی معاشرئے کی عکاسی نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ باپ اور بیٹی کی محبت وہ انمول محبت ہوتی ہے جو مرتے دم تک بیٹی اپنے سینے میں محسوس کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس محبت کو باپ کے بعد کبھی بھائی، کبھی شوہر اور کبھی بیٹے میں تلاش کرتی ہے کیونکہ باپ کا بازو بیٹی کا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے روز مقدس خلیل کی یہ قربانی ہمیشہ پاکستانی تاریخ کا حصہ رہے گی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan