Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Dosti Ki Aik Lazawal Dastan

Dosti Ki Aik Lazawal Dastan

دوستی کی ایک لازوال داستان

سیراکیوس میں دو نوجوان رہتے تھے جن کے نام ڈیمون اور پائیتھیاس تھے۔ وہ بہت اچھے دوست تھے اور ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے کہ شاذ و نادر ہی الگ دکھائی دیتے تھے۔ ایک دن پائیتھیاس نے ظالم حکمران کو ناراض کر دیا، جس نے اسے قید کر دیا اور چند دنوں میں موت کی سزا سنا دی۔ جب ڈیمون کو یہ خبر ملی تو وہ بہت پریشان ہوا اور اس نے اپنے دوست کی معافی اور رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر وہ ناکام رہا۔

پائیتھیاس کی ماں بہت بوڑھی تھی اور اپنی بیٹی کے ساتھ سیراکیوس سے دور رہتی تھی۔ جب پائیتھیاس کو اپنی موت کا یقین ہوگیا تو وہ یہ سوچ کر بہت بے چین ہوگیا کہ وہ ان کو بے سہارا چھوڑ جائے گا۔ اپنے دوست ڈیمون کے ساتھ ملاقات میں، پائیتھیاس نے افسوس کے ساتھ کہا کہ وہ زیادہ سکون سے مر سکتا تھا اگر وہ اپنی ماں کو الوداع کہہ پاتا اور اپنی بہن کے لیے کوئی محافظ ڈھونڈ لیتا۔

ڈیمون اپنے دوست کی آخری خواہش کو پورا کرنے کے لیے بے چین تھا۔ اس نے ظالم حکمران کے سامنے جا کر پیشکش کی کہ وہ پائیتھیاس کی جگہ قید میں رہنے کو تیار ہے، حتیٰ کہ مصلوب ہونے کو بھی، اس درخواست کے ساتھ کہ پائیتھیاس کو ایک بار اپنے اہلِ خانہ سے ملنے دیا جائے۔

ڈائیونیسس، جو ان نوجوانوں کی شاندار دوستی کے بارے میں جانتا تھا اور اسی وجہ سے ان سے نفرت کرتا تھا، نے انہیں جگہیں بدلنے کی اجازت دے دی، لیکن خبردار کیا کہ اگر پائیتھیاس وقتِ مقررہ پر واپس نہ آیا تو ڈیمون کو اس کی جگہ مرنا ہوگا۔

ابتدا میں پائیتھیاس نے اپنے دوست کو اپنی جگہ قید ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا، لیکن آخر کار وہ مان گیا اور وعدہ کیا کہ چند دنوں میں وہ واپس آ کر اسے آزاد کرا دے گا۔ پائیتھیاس تیزی سے گھر پہنچا، اپنی بہن کے لیے ایک اچھا رشتہ تلاش کیا اور اس کی شادی کروا دی۔ پھر اپنی ماں کا مناسب انتظام کرنے اور اسے الوداع کہنے کے بعد وہ سُوئے سیراکیوس روانہ ہوا۔

نوجوان اکیلا اور پیدل سفر کر رہا تھا۔ جلد ہی وہ ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گیا، جنہوں نے اسے ایک درخت سے باندھ دیا۔ کئی گھنٹوں کی سخت جدوجہد کے بعد وہ اپنے آپ کو آزاد کر پایا اور اپنی منزل کی جانب تیزی سے بڑھا۔

وہ وقت بچانے کے لیے جتنا تیز دوڑ سکتا تھا دوڑ رہا تھا۔ حتی کہ وہ ایک ندی کے کنارے جا پہنچا۔ چند دن پہلے اس نے اسے آسانی سے عبور کرلیا تھا، لیکن اب سیلاب نے اسے ایک طوفانی دھارے میں بدل دیا تھا، جس میں کوئی اور داخل ہونے کی جرات نہ کرتا۔

خطرے کے باوجود، پائیتھیاس پانی میں کود گیا اور اس خوف سے کہ اس کا دوست اس کی جگہ مر جائے گا، وہ لہروں سے کامیابی سے لڑتے ہوئے دوسری طرف پہنچا۔ اب تک وہ نڈھال ہو چکا تھا۔

تھکان اور تکلیف کی پرواکیے بغیر پائیتھیاس بے چینی سے آگے بڑھا۔ اب اس کا راستہ ایک میدان سے گزرتا تھا جہاں سورج کی گرم شعاعوں اور جلتی ریت نے اس کی تھکن اور کمزوری کو بہت بڑھا دیا۔ وہ پیاس سے جاں بہ لب ہوگیا۔ اس کی ہمت ہی اس کی مددگار تھی۔ سورج تیزی سے غروب ہو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ سورج غروب ہونے تک سیراکیوس نہ پہنچا تو اس کا دوست مر جائے گا۔

اس دوران، ڈائیونیسس ڈیمون کا مذاق اڑانے میں مصروف تھا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ اس نے اپنے دوست کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈال کر بیوقوفی کی ہے۔

ڈیمون، جو اپنی دوستی پر نازاں تھا، دہراتا رہا کہ پائیتھیاس اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑے گا اور یہ کہ اس کی آمد میں تاخیر کی وجہ کوئی غیر متوقع رکاوٹ ہوگی۔

یہاں تک کہ آخری وقت آ پہنچا۔ محافظ ڈیمون کو صلیب کے مقام پر لے گئے، جہاں اس نے دعا کی کہ پائیتھیاس دیر سے پہنچے، تاکہ وہ اس کی جگہ مر سکے۔

عین اس وقت جب محافظ صلیب پر کیل ٹھونکنے والے تھے، پائیتھیاس خون آلود، تھکا ہارا اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ وہاں آپہنچا اور اپنے دوست کی گردن میں بازو ڈال کر خوشی سے رو پڑا۔ ڈیمون کا رنگ اڑ گیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

پائیتھیاس نے اپنی تاخیر کی وجہ بیان کی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دوست کی رسی کھول کر کہا کہ محافظ اسے باندھ لیں۔

ڈائیونیسس، جو موت کا تماشا دیکھنے آیا تھا، ان کی سچی کھری دوستی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنی سفاکی کو پس پشت ڈال کر دونوں نوجوانوں کو آزاد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایسی محبت کا یقین نہ کرتا اگر اس نے اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا۔

یہ دوستی مثالی بن گئی۔ مغربی روایت میں مخلص دوستوں کا موازنہ ڈیمون اور پائیتھیاس سے کیا جاتا ہے۔ یہ حکایت اُدھر شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کے دل کے قریب رہی ہے۔ بہ ظاہر سادہ نظر آتی اس حکایت کو سسیرو کے قلم نے چھو کر خلوص، بہادری اور دوستی کے جذبوں کی عکاسی کے بہ موجب یادگار کر دیا۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail