Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Aasap Ki Bandish

Aasap Ki Bandish

آساپ کی بندش

وائس امریکا کے معاملات سے مجھے ایک زمانے میں بلوچستان کے قومی روزنامہ "آساپ" کی بندش کے دن یاد آ گئے۔ آساپ بلوچوں کا ویسے ہی قومی اخبار تھا جیسے جنگ پاکستان کا قومی اخبار ہے۔ اُن دنوں ملک سراج نے پریس کلب کوئٹہ میں ایک صحافتی ورکشاپ رکھی تھی، میں مقرر تھا، کسی نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ کیا آساپ محض ایک پروپیگنڈا اخبار نہیں ہے؟ میں نے کہا تھا، بالکل ہے، ویسے ہی جیسے جنگ اور مشرق پاکستان کے پروپیگنڈا اخبار ہیں، آساپ بلوچ پروپیگنڈا اخبار ہے۔ آپ کے پاس آپشن موجود ہے کہ آپ کون سا پروپیگنڈا پڑھنا چاہتے ہیں۔

2002 میں شروع ہونے والا روزنامہ آساپ اگست 2009 میں بند ہوگیا۔ اس کی بندش کے پیچھے اہم وجہ تو سکیورٹی مسائل تھے، شاید کچھ مالی مسائل بھی ہوں۔ ہم اُس زمانے میں اخبار سے اس قدر منسلک ہو چکے تھے کہ ہم نے فری آف کاسٹ اپنی خدمات پیش کرنے کی آفر کی۔ لیکن مالکان کا کہنا تھا کہ ایڈیٹر ان چیف پر قاتلانہ حملہ کے بعد ادارے کو سکیورٹی تھریٹ ہے، درجنوں کارکنوں کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا، اس لیے اخبار بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

میں خیر اُس زمانے میں سرکاری ملازمت میں آ چکا تھا۔ ایکسپریس میں ہفتہ وار کالم بھی چھپنا شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے مجھے کسی مالی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ آساپ سیریز کی ترتیب کا کام جاری تھا جو اگلے ایک برس تک جاری رہا، تب تک میں دفتر آتا جاتا رہا۔ اس دفتر سے میری بہت یادیں جڑ چکی تھیں۔ سریاب تھانے کے عین سامنے واقع یہ بلڈنگ ایک عرصے تک میرا سائبان بنی رہی۔ مجھے رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا تو دفتر میں رہنے کی اجازت چاہی جو بنا کسی تردد کے مل گئی کہ ویسے بھی میرا دن کا بیشتر وقت وہیں گزرتا تھا۔

میں جس کمرے میں بطور ایڈیٹر ایڈیٹوریل صبح سے لے کر رات گئے تک کام کرتا تھا، رات کو شفٹ ختم ہونے کے بعد وہیں اخبار بچھا کر سو جاتا۔ دشتی خاندان کے کچھ نوجوان بالائی منزل پہ رہتے تھے، ان کے لیے رات کو جو کھانا پکتا، وہ میرے لیے بھی آجاتا۔ اسی کمرے کے شیلف میں میری اولین لائبریری بنی۔ دو ڈھائی برس تک میرا اوڑھنا بچھونا یہیں رہا۔ میرا دفتر بھی یہی تھا اور گھر بھی یہی۔

آساپ کی بندش پہ اُس وقت ہم سب رنجیدہ تھے مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ فیصلہ درست ہی تھا۔ اگلے پانچ چھے برسوں میں سوشل میڈیا کا عروج ہوا اور اخبارات آخری سانس لینے لگے۔ بلوچستان میں صحافت دم توڑنے لگی۔ میں بروقت سرکاری ملازمت میں آ گیا اس لیے بچت ہوگئی۔

مجھے شروع سے اندازہ تھا کہ بلوچستان میں صحافت کا کوئی مستقبل نہیں۔ یا تو بیورو چیف بن جائیں، یا کسی عالمی ادارے سے منسلک ہوں، یا کسی وزیر مشیر کے منشی بن جائیں یا کوئی پیداگیری سیکھ لیں۔ آخر الذکر دو خصوصیات بائی ڈیفالٹ ہم میں ناپید تھیں، اولذکر دو کا حال بھی اب دیکھ لیا۔ بیورو آفیسز بند پہلے ہی بند ہونا شروع ہو چکے تھے اب عالمی اداروں کے دفاتر کا بھی بستر گول ہو رہا ہے۔

بلوچستان میں کل وقتی صحافی پہلے بھی ناپید تھے، اب تو چند ایک ہی رہ گئے ہیں۔ خدا ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam