طاقتور مافیا‘ کمزور ریاست
پاکستان میں مافیاز واقعی ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں، یقین نہ آئے تو بلا امتیاز احتساب کے علمبردار ریاستی اداروں اور افراد کی بے بسی دیکھ لیجئے یا پھر چیئرمین نیب جسٹس(ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی دیروزہ پریس کانفرنس اور بدن بولی۔ چند روز پہلے تک جسٹس صاحب کا بیانیہ تھا کہ وہ کیس دیکھتے ہیں، فیس نہیں، قوم کو یقین دلا رہے تھے کہ زمین پھٹے یا آسمان گرے احتساب کا عمل جاری رہے گا اور وہ کسی کے دبائو میں نہیں آئیں گے۔ اتوار کے روز ہنگامی پریس کانفرنس میں انہوں نے تمام ٹیکس ریفرنس واپس کرنے اور بنک ڈیفالٹ کے معاملات نہ دیکھنے کا اعلان کیا، یہ بھی کہا کہ آج کے بعد نیب افسر کسی بزنس مین کو فون نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم اعلیٰ بیورو کریسی کو پہلے ہی یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ آزادی سے کام کریں، نیب ان سے پوچھ گچھ نہیں کرے گا، گویا نیب کا دائرہ کار اب صرف سیاستدانوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور یہی مافیا کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ سیاسی اشرافیہ، کاروباری برادری اورانتظامی مشینری تھی جس نے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت کو اپنے پیروں پر کھڑا اور ازلی دشمن بھارت کا مقابلہ کرنے میں غیر معمولی ریاضت اور حب الوطنی دکھائی، متروکہ وقف املاک کی الاٹ منٹ اور پرمٹوں کی گنگا میں تینوں نے اشنان کیا مگر یہ ایک محدود طبقہ تھا، بے حس مفاد پرست اور ابن الوقت، نماز جنازہ میں جیب تراشی کا عادی طبقہ، ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن نے سیاسی اشرافیہ، کاروباری برادری اور نوکر شاہی میں لوٹ مار، اقربا پروری اور دوست نوازی کے بے ہودہ اور عوام دشمن کلچر کی بنا ڈالی اور پھر چل سو چل۔
1988ء میں نیشنلائزیشن متروک قرار پائی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو اپنے والد گرامی کو دیوتا سمجھتی تھیں نیشنلائزیشن کو غلطی گردانا، مارگریٹ تھیچر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرائیویٹائزیشن کا آغاز کیا تو لوٹ مار اور غلط بخشی کا نیا دور شروع ہوا۔ قومی اثاثے کوڑیوں کے بھائو طفیلی سیٹھوں میں بٹے اور منڈی کی معیشت کے نام پر عوام کا جینا حرام ہوا۔ عیّار بیورو کریسی نے سیاستدانوں کو کرپشن کے طریقے سمجھائے اور کاروباری برادری سے حصہ رسدی وصول کیا۔ غریب خاندانی پس منظر کا تنخواہ دار سرکاری ملازم چند برسوں میں اندرون ملک قیمتی پلازوں، ہزاروں ایکڑ زرعی زمین اور بیرون ملک مہنگے اثاثوں کا مالک بن جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا کرشمہ اور سیاسی اشرافیہ و کاروباری برادری کے درمیان "وچولے" کا کردار ادا کرنے کا ثمر ہے۔ پاکستان میں احتساب کا نعرہ 1997ء میں عمران خان نے بلند کیا، پہلا احتسابی ادارہ میاں نواز شریف نے سیف الرحمن کی سربراہی میں تشکیل دیا، مگر احتساب کی باریک پیسنے والی چکی 2016ء میں چلنی شروع ہوئی جب پانامہ پیپرز سامنے آنے کے بعد میاں نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کو ایک اعلیٰ سطحی کمشن تشکیل دینے کے لئے خط لکھا جو پانامہ پیپرز کی جانچ پڑتال کرے۔ اگر احتساب بیورو کی باگ ڈور اس وقت تک جسٹس (ر) جاوید کے ہاتھ میں نہ آئی ہوتی تو عمران خان کی ساری کدوکاوش رائیگاں جاتی اور چیف جسٹس کے منصب پر جسٹس(ر) ثاقب نثار کے بجائے کوئی جسٹس محمد قیوم یا ان کا ہم پیالہ و ہم نوالہ جج براجمان ہوتا تو تب بھی نتیجہ صفر نکلتا مگر حالات کی ستم ظریفی کہ دبنگ چیف جسٹس اور دبنگ چیئرمین نیب نے پانامہ کیس، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس اور العزیزیہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ٹھان لی اور بعدازاں جعلی اکائونٹس سمیت لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کے نئے اور ہوشربا کیسز سامنے آئے جو شریف خاندان اور زرداری خاندان کی جیل یاترا کا باعث بنے۔
عمران خان بلا تفریق احتساب کے علمبردار کے طور پر اقتدار میں آئے تو تبدیلی کے علمبردار حکمران اور اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ریاستی اداروں کو ناکام بنانے کے لئے سیاسی اشرافیہ، کاروباری برادری اور نوکر شاہی کے کل پرزوں کا ناپاک اتحاد فعال ہو گیا۔ سیاسی اشرافیہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ہمدرد کاروباری برادری نے احتساب کے عمل اور نیب کے ادارے کو سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قراردیا اور بیورو کریٹس نے یہ کہہ کر فائل ورک سے انکار کر دیا کہ اگر انہوں نے کسی منصوبے کی منظوری اور تکمیل میں کردار ادا کیا تو فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی طرح نیب کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کے یہ وہ چہیتے بیوروکریٹس ہیں جو فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی طرح سینئرز کے سینے پر مونگ دلتے، کروڑوں کا ہیر پھیر کرتے رہے اور اب بھی پر اُمید ہیں کہ اگر عمران خان ناکام رہیں تو سابقہ حکمران اقتدار میں آ کر وفاداری کا منہ مانگا انعام دیں گے اور وہ ان کے ساتھ مل کر کرپشن کے حمام میں ننگے ناچیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے قبل بزنس لیڈروں کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کا مقصد کچھ اورتھا، نتیجہ کچھ اور نکلا، حقیقت کبھی چھپی نہیں رہے گی، سابقہ حکمرانوں کے مراعات یافتہ کاروباری حضرات کی حسرتیں دل میں رہ گئیں وہ یہ تاثر دینے میں ناکام رہے کہ سول اور خاکی قیادت کے مابین اعتماد کی سطح وہ نہیں جو چند ماہ پہلے تھی۔ آرمی چیف نے بعض ملاقاتیوں کے مقاصد کو بھانپ کر ہی حفیظ شیخ اورحماد اظہر کو ساتھ بٹھایا اور یہ بھی واضح کیا کہ جب ماضی کی کرپٹ، نااہل اور عوام دشمن حکومتیں اپنی مدت پوری کرتی رہی ہیں تو موجودہ حکومت کو جو نیک نیت ہے اور پاکستان کو بلندیوں پر لے جانے کی خواہش مند بھی، اس حق سے محروم کرنے کا کیا جواز ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تمام قومی ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں کاروباری طبقہ حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ اس سے تعاون کرے میاں منشا اور ملک ریاض کو اپنے سوالات کا تسلی بخش بلکہ منہ توڑ جواب ملا اور وہ مزید کچھ کہنے کے قابل نہ رہے، عقیل کریم ڈھیڈی نے میاں منشا اور دیگر بزنس لیڈروں کو یاد دلایا کہ مہنگی بجلی کے باعث انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے اور اس کی ذمہ دار حکومت نہیں، وہ لوگ ہیں جو سابقہ دور حکومت میں من مانے نرخوں سے ریاست اور گھریلو و کاروباری صارفین کو کنگال کرتے رہے۔ آرمی چیف نے ارب پتی بزنس لیڈرز کو ریکوڈک جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور گوادر کی راہ دکھائی تاکہ حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کی راہ نہ دیکھنی پڑے مگر مجھے نہیں لگتا کہ کوئی تیارہو گا۔ مقصد سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا نہیں احتساب کے عمل میں رخنہ اندازی تھا۔
سی پیک پاکستان کے لئے گیم چینجر منصوبہ ہے اور خارجہ پالیسی میں چین کی اہمیت کا مظہر، مگر سابقہ حکمرانوں کے چہیتے بیورو کریٹس نے اسے ناکام بنانے کے لئے نیب قوانین اور کرپٹ بیورو کریٹس کی گرفتاری کا بہانہ بنا کر فائلیں روکیں، یہ ریاست سے غداری ہے کہ نہ صرف قومی معیشت تباہ ہو، بیرونی و اندرونی سرمایہ کار کے حوصلے پست اور چین سے تعلقات میں رخنہ اندازی ہوبلکہ پاکستان کا تشخص ایک ایسی مملکت کے طور پر ابھرے جہاں سرمایہ کار خوش ہیں نہ سیاستدان اور نہ ریڑھ کی ہڈی سرکاری ملازمین۔ توقع یہ تھی کہ آرمی چیف اور وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی، کاروباری طبقے میں موجود کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے فرنٹ مینوں کو شٹ اپ کال ملے گی اور بلا تفریق احتساب کے عمل میں موجود رکاوٹیں دورہوں گی لیکن چیئرمین احتساب بیورو کی پریس کانفرنس سے کچھ اور ہی پیغام ملا۔ بیورو کریسی اور کاروباری برادری اگر احتساب کے عمل سے مستثنیٰ قرار پائی، معیشت اورحکومت کا پہیہ ان کی خوشنودی اور من مانی کے بغیر نہیں چل سکتا تو جمہوریت اور پارلیمانی نظام سیاستدانوں کے بغیر کیسے چلے گا؟ مافیاز کا تو بیانیہ ہی یہ ہے کہ کرپشن کے بغیر جمہوریت چل سکتی ہے نہ پارلیمنٹ اور نہ معیشت و نظام حکومت۔ جب بیورو کریسی اور کاروباری برادری احتساب سے بالاتر اور نیب کے دائرہ کار سے ماورا قرارپائی تو سیاستدانوں اوران کے درباریوں، نمک خواروں کے لئے یہ کہنا آسان ہو جائے گا کہ یہ سارا عمل ہی حکومتی انتقام ہے اپنے مخالفین کو زچ کرنے اور جمہوری حقوق سے محروم کرنے کا فرسودہ طریقہ، کاش وزیر اعظم اور قومی ادارے مخالفین کے جال میں پھنسنے کے بجائے بلا تفریق احتساب کے عزم پر قائم رہیں اورکرپٹ، مافیا کے بیانئے کو تقویت نہ پہنچائیں۔ یہ تاثر پختہ نہ کریں کہ مافیاز کے سامنے ریاست بے بس ہے، عضومعطل۔