’’ربّ ڈانگاں نئیں مت ماردا‘‘
دسمبر 2012ء میں سپین کے ایک شہر میں دوڑ کے مقابلوں کے دوران یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا، مقابلے میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا اتھلیٹ ابوالمطیع سب سے آگے تھا، اسے احساس ہوا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے چنانچہ رک گیا اسپین کا اتھلیٹ ایون فرڈیننڈز اس کے بالکل پیچھے دوڑ رہا تھا۔ مطیع کے رکنے پر وہ بآسانی چند قدم آگے فنش لائن پر پہنچ کر اپنی فتح کو یقینی بنا سکتا تھا مگر اس نے جان لیا کہ مطیع غلط فہمی کا شکار ہے لہٰذا اس نے آواز دی کہ" دوڑو، فنشن لائن عبور نہیں ہوئی" مطیع فرڈیننڈز کی بات سمجھ نہیں پایا اور اپنی جگہ رکا رہا، حالات نے فرڈیننڈز کو جیت کا بہترین موقع فراہم کر دیا تھا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا، سٹیڈیم میں موجود ہزاروں شائقین نے دیکھا کہ فرڈیننڈز نے آگے قدم بڑھانے کے بجائے مطیع کو زور سے دھکا دیا۔ کینیا کا اتھلیٹ فنش لائن عبور کر گیا اور فاتح قرار پایا جبکہ فرڈیننڈز کو رنراپ قرار دیا گیا۔ اخبار نویسوں نے فرڈیننڈز سے پوچھا تم نے اپنی یقینی فتح کو مطیع کی غلط فہمی پر قربان کیوں کیا؟ ، خود فنش لائن عبور کرنے کے بجائے مطیع کو آگے کیوں بڑھایا، فرڈیننڈز کا جواب چشم کشا تھا کہا"میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کا حق مار کر فتح کو یقینی نہ بنا سکے" مگر تم نے کینیا کے اتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیاصحافی نے پھر پوچھا" وہ ویسے ہی جیت رہا تھا یہ دوڑ اس کی تھی" صحافی نے اصرار کیا" دوڑ کر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے" فرڈیننڈز نے صحافی کی طرف خشمگیں انداز میں دیکھا اور کہا "اس جیت کا میرٹ کیا ہو، "اس میڈل کی عزت کیا ہوتی۔ میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی"۔
نو سال پرانا یہ واقعہ مجھے آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کے بعد مریم نواز اور بلاول بھٹو کے بیانات پڑھ کر یاد آیا۔ اپنے والدین کی اولاد پروری اور مسلم لیگ(ن) و پیپلز پارٹی کی بزرگ قیادت کی کم ہمتی کے طفیل قومی سیاست میں نمایاں ہونے والے خوش قسمت سیاستدانوں نے انتخابی نتائج کو نہ ماننے کی رٹ لگائی اور تحریک انصاف کی کامیابی کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا، کل تک ڈسکہ، نوشہرہ اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں کامیابی پر خوشی کے شادیانے بجانے والے سیاستدانوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان اور کشمیر کے عوام کو واقعی کالانعام اور بدھو سمجھتے ہیں اور ہرگز نہیں سوچتے کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا نے ان کی یادداشت تیز کر دی ہے۔ کشمیری عوام کی ترجیحات میں پاکستان اور اس کی فوج ہمیشہ سرفہرست رہے ہیں، پاکستان کی طرح کشمیریوں کا ازلی دشمن بھارت وہ حقیقی خطرہ ہے جس کا تدارک صرف پاک فوج کر سکتی اورکرتی ہے، آزاد ریاست جموں و کشمیر کے لئے ترقیاتی فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا بھی اس کا مینڈیٹ ہے۔ حسن اتفاق سے اس وقت پاکستان کی فوج اور حکومت میں ہم آہنگی مثالی ہے اور دونوں مل کر بھارت کو عسکری، سفارتی اور سیاسی سطح پر ٹف ٹائم دے رہے ہیں، مریم نوازشریف نے مگر معلوم نہیں کیا سوچ کر 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی بدترین شکست کا باعث بننے والی حکمت عملی کو آگے بڑھایا، محترمہ نے اس پچ پر کھیلنے کی کوشش کی جو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ پچ ہے اور شریف خاندان و مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے کانٹوں کی سیج۔ کشمیر فروشی، مودی سے ساز باز، اور کرپشن کا بیانیہ عمران خان کے خلاف استعمال کرنا ممکن نہیں، البتہ شریف خاندان آسان شکار ہے کہ سپریم کورٹ و احتساب عدالتوں کے فیصلے آ چکے اور نریندر مودی کی جاتی عمرہ آمد، شادی کی تقریبات میں شرکت ایک ایسا داغ ہے جسے محض بیان بازی سے دھویا نہیں جا سکتا۔
یہ حقیقت عمران خان کے مخالفین جس قدر جلد سمجھ لیں ان کے مفاد میں ہے کہ نیا، جاندار اور عوام کے لئے قابل قبول بیانیہ تشکیل دیئے بغیر محض سلیکٹڈ، سلیکٹرز، دھاندلی اور چینی چور، آٹا چور کے نعروں سے موجودہ حکومت کی کشتی میں سوراخ کیا جا سکتا ہے نہ عوام کو اپنا ہمنوا بنانا آسان، بھٹو نے 1970ء کے عام انتخابات میں نئے نعروں، نئے چہروں اور نئے جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور دوران اقتدار غیر روائتی شعبوں میں کام کیا، کئی عشروں تک مقبولیت برقرار رکھی، 1985ء سے 2013ء تک میاں نواز شریف کو اپنے مخالفین پر یہی برتری حاصل تھی، پیپلز پارٹی کی پسپائی کی اہم ترین وجہ ازکار رفتہ نعروں پر انحصار اور کرپشن کے الزامات کو قرار واقعی اہمیت نہ دینا تھا، یہی غلطی اب مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت عمران خان کے بارے میں کر رہی ہے اور جذباتی نعروں، کردار کشی اور الزام تراشی سے انتخابی معرکہ سر کرنے کے درپے۔ کرپشن، کشمیر فروشی اور ناکردہ کاری کے الزامات پر مبنی کوئی بھی انتخابی اور احتجاجی مہم عمران خان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، الٹا اُسے جارحانہ انداز میں چوکے چھکے لگانے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ یہ اس کا میدان ہے یہ چھاج اور چھلنی کا مقابلہ ہے جس میں جیت چھاج کی یقینی ہے، چھلنی کیوں بولے جس میں نو سو چھید۔
آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں مریم نواز شریف کی شرکت اور میاں شہباز شریف کی پراسرار خاموشی سے مسلم لیگ اور شریف خاندان کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے، عبرتناک شکست کے بعد میاں شہباز شریف کا پلڑا بھاری ہے اور وہ بآسانی برادر بزرگ کے علاوہ پارٹی کی سینئر قیادت کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ "ہور چوپو" میاں شہباز شریف کے مفاہمت پسندانہ انداز فکر سے شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کو آسودگی نصیب ہوئی، میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے اور کئی رہنمائوں کو بیرون جیل آنے کا موقع ملا جبکہ بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے جارحانہ بیانیے سے ایک دو ضمنی انتخابات کے عوض گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑا، اس جارحانہ بائولنگ کا کیا فائدہ جس کے عوض ایک دو وکٹیں تو مل جائیں مگر ٹیم پورا میچ ہار جائے، نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ"گھر میں بیٹھ کر میاں شہباز شریف کو بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا، ان کی جوڑ توڑ اور گھٹنے پکڑ"سیاست کو نقصان پہنچا۔ پارٹی کا جو سربراہ پے درپے نقصانات کے باوجود بھتیجی کو معقول بات سمجھانے کے قابل نہیں وہ بڑے میاں صاحب کی ضمانت دینے کا اہل کہاں؟ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے غیر دانش مندانہ بیانات، گوجرانوالہ میں مسلم لیگی اُمیدوار اسماعیل گجر کی بھارت کو دہائی اور بڑے میاں صاحب کی حمد اللہ محب سے ملاقات پر پنجابی کہاوت یاد آتی ہے "رب ڈانگاں نئیں مت ماردا"۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے سیاسی طور پر نابالغ موروثی قیادت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر یہی بچگانہ انداز سیاست اختیار کئے رکھا، دوسروں کا آموختہ دہرانے والی قیادت خوشامدیوں میں گھری خیالی قلعے سر کرتی رہی تو پاکستان کو یک جماعتی نظام کی طرف بڑھنے سے کون روک سکتا ہے، بطور جماعت تحریک انصاف بھی الیکٹ ایبلز کے رحم و کرم پر ہے مگر عمران خان کے متبادل کے طور پر شاہ محمود قریشی، اسد عمر، چودھری سرور اور ایسے ہی کئی تجربہ کار سیاستدانوں پر نظر پڑتی ہے مگر مسلم لیگ(ن) میں مریم نواز کا متبادل حمزہ شہباز اور پیپلز پارٹی میں بلاول کا متبادل آصفہ بھٹو کے سوا کون ہے؟ کوئی دوسرا نام تو لے کر دیکھے، رضا ربانی، یوسف رضا گیلانی، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور ایاز صادق میں سے کوئی خواب میں بھی پارٹی سربراہی کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ کاش کسی کو سوچنے کی توفیق ملے، خیر یہ ان کا سردرد ہے فی الحال تو آزاد کشمیر کے عوام نے ماضی کی حکمران جماعتوں کو مسترد کرکے تبدیلی کا راستہ چنا ہے، خدا کرے کہ انہیں راس آئے۔