میرے گائوں میں بجلی آئی ہے
غلام مصطفی کھر نے نشست سنبھالی تو ان سے پہلا سوال بجلی کے مہنگے کارخانوں کی تنصیب اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کے بارے میں ہوا۔ کھر صاحب بے نظیر دور حکومت میں بجلی و پانی کی وزارت کے انچارج تھے، کونسل آف نیشنل افیئر زکی ہفتہ وار نشست میں انہیں مدعو کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ تھرمل پاور پراجیکٹس کے حوالے سے معلومات حاصل کی جائیں۔
1994ء میں بے نظیر بھٹو نے بجلی کے بحران پر قابو پانے اور گھر گھر، گائوں گائوں بجلی پہنچانے کی نیت سے درآمدی تیل سے چلنے والے کارخانے لگانے کا فیصلہ کیا تو ان کے خلاف سب سے زیادہ شور پیپلزپارٹی کے ساتھ سیکرٹری جنرل، سابق وفاقی وزیر خزانہ اور ذوالفقار علی بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن نے مچایا۔ وہ ہر اخبار کے دفتر میں گئے اور اخبار نویسوں کو بتایا کہ درآمدی تیل سے چلنے والے ان کارخانوں کی تنصیب قومی معیشت کے لیے تباہ کن اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی گھنائونی واردات ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ مہنگی بجلی کے بل ادا کرنا عوام کے بس میں ہوگا نہ صنعت و تجارت کا چلنا سہل۔
میاں نوازشریف نے بھی اپوزیشن لیڈر کے طور پر حکومتی منصوبوں کی مخالفت کی۔ قوم کو بتایا کہ ان کارخانوں کی تنصیب کا مقصد عوام کو وافر بجلی فراہم کرنا نہیں بلکہ کمیشن اورکک بیکس سے آصف علی زرداری کے بیرون ملک بینک اکائونٹس اور جائیدادوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ انہی دنوں سرے محل کا انکشاف ہوا۔ یہ اور بات کہ جب میاں نوازشریف اقتدار میں آ گئے تو انہوں نے بھی کالا باغ ڈیم، بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم، داسو ڈیم یا کسی دوسرے آبی منصوبے پر کام کرنے کے بجائے انہی آئی پی پیز پر توجہ دی جو بے نظیر بھٹو دور میں معیشت کے لیے تباہ کن اور زرداری کی کرپشن کا ذریعہ قرار پائے تھے۔
غلام مصطفی کھر سے پوچھا گیا کہ پاکستان تیل پیدا کرنے والا ملک ہے نہ اس کی معیشت میں اتنی جان کہ وہ بجلی سے صنعت و تجارت کو فروغ دے سکے۔ ضرورت سے زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کر بھی لی جائے تو ٹرانسمیشن سسٹم انہیں عوام اور صنعتی اداروں تک پہنچانے کی صلاحیت سے محروم ہے پھر دھڑا دھڑ بجلی کے یہ کارخانے لگانے کا سبب کیا ہے؟ اور ان کارخانوں سے پیدا ہونے والی بجلی اس قدر مہنگی کیوں ہے؟ بھارت اور بنگلہ دیش سے کئی گنا زیادہ مہنگی؟ غلام مصطفی کھر نے بتایا کہ اس سلسلے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جس میں آپ کے سارے سوالوں کا جواب موجود ہے۔
کھر صاحب نے بتایا "ایک بین الاقوامی کمپنی کا وفد بنگلہ دیش اور بھارت کا دورہ کرنے کے بعد اسلام آباد وارد ہوا اور وزارت پانی و بجلی، واپڈا اور دیگر حکام سے بجلی کا کارخانہ لگانے کے لیے مذاکرات کئے۔ ایک روزہ مذاکرات کے بعد ایم او یو پر دستخط ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی گئی۔ اسی شام وفد کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام تھا جس میں مجھے بھی انچارج وزیر کے طور پر مدعو کیا گیا، میں نے وفد کے سربراہ سے پوچھا کہ آپ نے بنگلہ دیش اور بھارت کا دورہ کیا۔ اہم سرکاری حکام سے مذاکرات ہوئے اور ایم او یو پر دستخط کئے گئے۔ تینوں ممالک کے سرکاری اہلکاروں کے برتائو، انداز فکر اور ماحول میں کیا فرق محسوس کیا؟ وفد کے سربراہ نے کہا اگر میں صاف گوئی سے کام لوں تو آپ برا نہیں مانیں گے؟ میں نے کہا "بالکل نہیں۔ آپ کھل کر بات کریں"۔
"وفد کے سربراہ نے بتایا کہ ہم پانچ دن تک قیام کا ارادہ لے کر ڈھاکہ پہنچے مگر مذاکرات ایک ہفتہ تک جاری رہے اور ہماری پیشکش کے جواب میں بنگلہ دیشی وفد نے خوب بھائو تائو کے بعد تین ساڑھے تین سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بھارت جاتے ہوئے ہم نے ہوٹلوں میں ایک ہفتہ کی بکنگ کرائی مگر مذاکرات دس دن تک چلے اور بھارتی حکام اڑھائی سینٹ فی یونٹ کے نرخوں پر آمادہ ہوئے۔ جب معاملہ طے پا گیا تو بھارتی وفد کے سربراہ نے کمیشن طلب کی، ہم چکرا گئے کہ اتنے کم نرخ اور پھر بھی کمیشن کامطالبہ؟ ہم نے لیت و لعل سے کام لیا تو صاف کہا گیا کہ یہ تو دنیا میں ہوتا ہے دیگر کئی کمپنیاں معاہدے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ مجبوراً ہمیں ان کی ڈیمانڈ پوری کرنی پڑی"۔
"پاکستان آتے ہوئے ہم نے بھارت اور بنگلہ دیش کے تجربے کی بنا پر پندرہ روزہ شیڈول ترتیب دیا۔ خیال یہی تھا کہ پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے اور ہمارے دورے کی سُن گُن انہیں مل چکی ہوگی لہٰذا خوب اور سخت سودے بازی ہوگی، مگر کل یہاں پہنچے، ہمیں کہا گیا آپ تھک گئے ہوں گے آرام کریں، کل مذاکرات ہوں گے۔ آج مذاکرات کے پہلے دور میں ہی پوچھا گیا کہ بجلی کے نرخوں پر بات بعد میں ہوگی، پہلے ہمارا کمیشن طے کریں۔ ہم نے وفد کے ارکان کی خواہش کے مطابق کک بیک کی یقین دہانی کرائی۔ ساڑھے چھ سینٹ فی یونٹ نرخ طے کیا اور آج رات وطن واپس روانہ ہو جائیں گے۔ "ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے" کا محاورہ ہم نے بھارت میں سنا تھا، مطلب و معانی سے اسلام آباد میں آشنا ہوئے۔ " کونسل آف نیشنل افیئرز کے ارکان کھر صاحب کی زبانی حکمران اشرافیہ کی گھنائونی واردات کی تفصیلات سن کر ہکا بکا کہ یہاں کتنی آسانی سے محض معمولی مفاد کے لیے عوام اور ریاست کی بلی چڑھائی جاتی ہے اور کسی کو شرم آتی ہے نہ حیا۔
میاں نوازشریف کے دونوں ادوار میں ویسے ہی کارخانے لگے جیسے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی منظوری سے پاکستانی معیشت، صنعت و تجارت کا بیڑا غرق کرنے اور عوام کی جیبیں صاف کرنے کے لیے لگائے گئے تھے۔ میاں صاحب اوران کے نورتنوں سے پوچھا جاتا کہ سابقہ دور میں یہ کارخانہ حرام تھے، اب کیسے حلال ہو گئے؟ تو بتایا جاتا کہ فی الحال ہم بجلی کی طلب پوری کر رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں نرخ بھی کم کریں گے اور فالتو بجلی ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت کو برآمد کی جائے گی۔
1999ء میں شور مچا کہ بھارت کو 500 میگا واٹ بجلی درکار ہے اور پاکستان ہمسایہ ملک کی یہ ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ واپڈا کا ایک اعلیٰ سطح وفد چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) ذوالفقار علی کی سربراہی میں بھارت گیا اور بے نیل و مرام واپس آ گیا۔ ہم نے کئی دوستوں کی موجودگی میں جنرل صاحب سے دورہ بھارت کا حال پوچھا تو بتایا کہ بھارتی حکام نے پہلے تو یہ شرط منوائی کہ پاکستان سے مشرقی پنجاب کے مطلوبہ مقام تک ٹرانسمیشن لائن ہم اپنے خرچ پر بچھائیں گے۔ حفاظتی انتظامات ہماری ذمہ داری ہوگی، لائن لاسز کا بوجھ بھی ہم اٹھائیں گے۔ پھر نرخوں پر بحث شروع ہوئی تو ہم نے آٹھ سینٹ فی یونٹ کی ڈیمانڈ کی جو پیداواری اور ترسیلی لاگت کے مساوی نرخ تھے۔
بھارتی حکام نے کہا ہم تو دو سینٹ فی یونٹ سے ایک پائی زیادہ نہیں دے سکتے کہ اس سے زیادہ مہنگی بجلی خرید کر ہم اپنے عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ساڑھے چھ سینٹ فی یونٹ تو ہماری پیدواری لاگت ہے ہم دو سینٹ کے نرخ پر آپ کو کیسے دے دیں تو ٹکا سا جواب ملا کہ یہ آپ کا سردرد ہے اگر آپ کے عوام اتنی مہنگی بجلی خریدنے پر آمادہ ہیں اور معترض نہیں تو آپ جانیں اور آپ کے عوام۔ ہمارے عوام تو ایک ایک پائی کا حساب مانگتے اور بات بات پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ہمیں یہ سودامنظور نہیں چنانچہ ہم اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔
1994ء سے مہنگی بجلی پیدا کرنے اور بیچنے کا سفر 2023ء میں عوامی احتجاج اور ہنگامہ آرائی تک آ پہنچا ہے۔ جب لوٹ مار کی یہ وارداتیں سرعام ہورہی تھیں، حکمرانوں اور ان کے درباریوں کے اثاثے اربوں سے کھربوں میں بدل رہے تھے۔ بیرون ملک ان کی جائیدادیں بھی سب کے علم میں تھیں اور بینک اکائونٹس بھی۔ تب کسی نے آسمان سر پر اٹھایا نہ سڑکوں پر نکلا، الٹا "میرے گائوں میں بجلی آئی ہے، ہر گھر میں اُجالا لائی ہے" کے نعرے لگا رہے تھے، بل کسی کو یاد نہ تھے۔ بیشتر لٹیروں کا دفاع کرتے رہے اب پانی سر سے گزر گیا تو ہنگامہ برپا ہے مگر وہ بھی واپڈا کے خلاف، 1994ء سے 2017ء تک مہنگے کارخانوں کی منظوری دینے اور اربوں ڈالر کی کمیشن وصول کرنے والوں کے خلاف نہیں۔
نگران حکومت تین دن تک اجلاس کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر عوام کو ریلیف نہیں دے سکتی۔ لیکن 1994ء سے 2017ء تک مہنگے پاور پراجیکٹس کی منظوری دے کراندرون و بیرون ملک اپنے بینک اکائونٹس، جائیدادوں میں اضافہ کرنے والے سول و خاکی حکمرانوں، بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کی باز پرس، انہیں الٹا لٹکا کر ان کے پیٹ سے قومی خزانے اور عوام کی دولت نکلوانے کے لیے بھی آئی ایم ایف کی اجازت درکار ہے؟ ہرگز نہیں۔ مگر یہ کام کون کرے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں، سب کے سب۔