ہمت مرداں، مدد خدا
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ذاتی حیثیت میں متوازن شخصیت ہیں، مرنجاں مرنج، اور ملنسار مگر پارلیمنٹ ہائوس سے تحریک انصاف کے دس ارکان کی گرفتاری نے انہیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایوان کا تقدس پامال کرنے والے نقاب پوشوں کی گرفتاری کا حکم دیں تو عہدہ و منصب اور پارٹی سے وفاداری خطرے میں اور پردہ پوشی کریں تو عزت و وقار پیوند خاک۔ ان کی موجودہ ذہنی کیفیت کی عکاسی اس انگریزی محاورے سے ہوتی ہے۔
Between the devil and the deep sea
تبھی سردار ایاز صادق نے جمعرات کے سیشن میں حال دل یوں بیان کیا "پارلیمنٹ حملہ، ارکان اسمبلی کے اغوا میں میرے ملوث ہونے کا کہاجا رہا ہے، مجھے سوچنا پڑے گا کہ مجھے رہنا ہے یا جانا ہے" سردار ایاز صادق کو مشکل میں اپوزیشن نے تو خیر ڈالاہی تھا، مگر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور آئی جی اسلام آباد ناصر رضوی نے اپوزیشن سے کہیں زیادہ ان کی شخصیت اور کردار کو داغدار کیا۔
ایوان میں جب ایاز صادق نے نقاب پوشوں کی آمد، بجلی کی بندش، ارکان اسمبلی کی گھٹیا انداز میں گرفتاری اور سپریم ادارے کے تقدس کی پامالی سے لاعلمی ظاہر کی تو خواجہ آصف نے اسے سنگجانی کے جلسے اور علی امین گنڈا پور کی تقریر کا ردعمل قرار دے کرپارلیمنٹ ہائوس پر حملے اور گرفتاری کا جواز پیش کیا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث وزیر دفاع کے اس بیان کو حکومتی نقطہ نظر سمجھا گیا اور ایاز صادق کی لاعلمی کو حیلہ جوئی پر محمول کیا گیا۔ رہی سہی کسر آئی جی اسلام آباد نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ سب کچھ رولز آف بزنس کے مطابق ہوا اور تاثر یہ دیا کہ سپیکر قومی اسمبلی آن بورڈ تھے۔ سپیکرنے جن ارکان کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا ان کا بھی آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ لے کر پولیس نے باور کرایا کہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے، سپیکرکے احکامات جائیں بھاڑ میں۔
سردار ایاز صادق نے ایوان کی اٹھارہ رکنی کمیٹی بنا کر اپنا فرض منصبی بجا لانے کی کوشش کی اور بیرسٹر گوہر سے لے کر محمود خاں اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے لے کر خورشید شاہ تک نے اس اقدام کو سراہا تو خواجہ آصف نے کمیٹی سے واک آئوٹ کر دیا اور ایوان میں کھڑے ہو کر کمیٹی کی تشکیل کو اپوزیشن کی ناز برداری قرار دیا۔ ایاز صادق اب اس مخمصے کا شکار ہیں کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ انہیں دال میں کالا نظر آتا ہے کہ کہیں نقاب پوشوں کے شب خون، اپوزیشن ارکان کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے علاوہ واقعہ کی پردہ پوشی کے پیچھے بھی ان کے اپنے ساتھیوں یا ان کی اپنی حکومت کا ہاتھ تو نہیں؟ جس کا مقصد اپوزیشن اور قومی ادارے میں مزید غلط فہمیاں پیدا کرنا اور سپیکر کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
سپیکرنے پچھلے تین چار روز میں کوئی سخت اور ایوان کے کسٹوڈین کے شایان شان قدم نہیں اٹھایا۔ مولانا فضل الرحمن کے خیال میں تو انہیں تین چار دن تک ایوان کی تالہ بندی کرکے اپنا ری ایکشن دینا چاہیے تھا مگر وہ تو پولیس کی طرف سے احکامات نہ ماننے اور ارکان اسمبلی کے جسمانی ریمانڈ پر علامتی احتجاج کرتے ہوئے ایک دن سیشن کی صدارت نہ کرنے کا اعلان کرکے اظہار ناراضی بھی نہیں کر پائے، اس کے باوجود خواجہ آصف کمیٹی کے کام میں روڑے اٹکا کر سپیکر کی ساکھ مزید مجروح کر رہے ہیں، تو وہ اکیلے نہیں ؎
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
برسوں قبل مخدوم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے سپیکر تھے اور مسلم لیگ(ن) اپوزیشن بنچوں پر براجمان، مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے گرفتار ارکان شیخ رشید احمد، حاجی محمد بوٹا اور شیخ طاہر رشید کو رول 90کے تحت ایوان میں بلانے کے لئے اپوزیشن نے سپیکر کو درخواست دی، جسے قبول کرتے ہوئے سید یوسف رضا گیلانی نے وزیر داخلہ میجر جنرل(ر) نصیر اللہ بابر، وزیر قانون سید اقبال حیدر اور حکمران جماعت کے چیف وہپ سید خورشید شاہ کی مشاورت سے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا۔ اس پروڈکشن آرڈر کو حکمران جماعت کے بعض نادان دوستوں نے اپوزیشن کی کامیابی قرار دے کر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو باور کرایا کہ سپیکرکے فیصلے پر عملدرآمد سے حکومت کی کمزوری ظاہر ہوگی۔
شادی کی ایک تقریب میں اس وقت کے گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین نے سپیکر گیلانی پر واضح کیا کہ ان کے پروڈکشن آرڈرپر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ قصہ کوتاہ جب حکومت اور وزیر اعظم نے اپوزیشن ارکان کو اجلاس میں لانے اور پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد سے انکار کیا تو سپیکرنے ملاقات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو استعفے کی پیشکش کر دی اور یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ 1993ء کی اسمبلی کی تحلیل کے بعد بے نظیر بھٹو نے اعتراف کیا کہ سپیکر کا فیصلہ درست تھا، اس نے اپنے منصب کی لاج رکھی جبکہ گورنر پنجاب انہیں سپیکرکے خلاف اکساتے رہے۔ چودھری الطاف حسین کا کردار ان دنوں کون ادا کر رہا ہے؟ ایاز صادق خوب جانتے ہوں گے۔
سید یوسف رضا گیلانی کو ایک اور آزمائش سے اس وقت گزرنا پڑا جب صدر فاروق لغاری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران مسلم لیگی اپوزیشن ارکان نے ہلڑ بازی کی اور حکومت، مسلم لیگ کے ہلڑ بازی کرنے والے ارکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا چاہتی تھی مگر سپیکرنے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کر دیا۔
جب اس وقت کے اٹارنی جنرل قاضی جمیل نے تحکمانہ انداز میں اصرار کیا تو انہوں نے اٹارنی جنرل کو اپنے کمرے سے نکال دیا اور وزیر اعظم کو پیغام دیا کہ جب تک وزیر اعظم اٹارنی جنرل کے طرز عمل پر خود معذرت نہیں کریں گی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت نہیں کروں گا، گیلانی صاحب نے یہ دونوں واقعات اپنی کتاب "چاہ یوسف سے صدا" میں تفصیل سے بیان کئے ہیں، اگرچہ بے نظیر حکومت کے معاملہ فہم وزیر دفاع آفتاب شعبان میرانی نے موقع پر سپیکر سے معذرت کی مگر پھر بھی گیلانی صاحب نے بیس دن تک اجلاس کی صدارت نہیں کی، حکومت نے ڈپٹی سپیکر ظفر علی شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی انکار کر دیا۔
بیس روز بعد حکومت کو احساس ہوگیاکہ سپیکر کو نہ تو ڈکٹیٹ کیا جا سکتا ہے اور نہ ارکان اسمبلی کی آزادی اظہار رائے کو کسی قانون کے تحت سلب کرنا ممکن، حکومت کی طرف سے ایوان میں نوابزادہ نصراللہ خاں نے معذرت کی اور یہ پیچیدہ مسئلہ حل ہوگیا۔
سردار ایاز صادق جہاں دیدہ گرم وسرد چشیدہ سیاستدان ہیں۔ 2014-15ء میں جب وہ تحریک انصاف اور حکومت کے مابین تنازعہ سلجھانے اور پی ٹی آئی ارکان کو ایوان میں واپس لانے کے لئے کوشاں تھے تو خواجہ صاحب اس وقت بھی جلتی پر تیل چھڑکنے اور جھگڑالو خواتین کی طرح "کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے" جیسے جملے کسنے میں مشغول تھے۔ اب بھی یہ فرض کمال مہارت سے انجام دے رہے ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ ملک کے سب سے سپریم ادارے پر نقاب پوشوں کے شب خون کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا تو پھر کسر صرف دوران سیشن ایوان کے اندر داخل ہو کر ارکان اسمبلی اور بوقت ضرورت سپیکر کو گرفتار کرنے کی رہ جائے گی۔
سپیکر چاہیں تو یوسف رضا گیلانی کی طرح وزیر اعظم کو باور کرا سکتے ہیں کہ جب تک ایوان کا تقدس پامال کرنے والے افراد گرفتار نہیں ہوتے وہ اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے اور مسئلہ حل نہ ہوا توکوئلوں کی دلالی میں ہاتھ منہ کالا کرانے کے بجائے وہ باعزت طریقے سے گھر جانا پسند کریں گے۔ یوسف رضا گیلانی نے سٹینڈ لیا، بالآخر حکومت اور ان کی وزیر اعظم نے بھی موقف کو سراہا اور چند برس بعد انہیں وزارت عظمیٰ کا منصب نصیب ہوا۔ ایاز صادق بھی آگے بڑھیں، ہمت کریں اور ایوان کی عزت و تقدیس کے لئے ڈٹ جائیں۔ ہمت مرداں مدد خدا۔
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
(منیر نیازی)