ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
مسلم ریاستوں کے خوفزدہ، اقتدار پرست اور شراب و شباب کے رسیا حکمرانوں اور دانشوروں کی بات اور ہے ورنہ حماس کے بے مایہ مگر جری نوجوانوں نے اسرائیل کی اساطیری انٹیلی جنس اور افسانوی دفاعی قوت و طاقت کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ برس ہا برس تک یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ امریکہ نے اسرائیل کو دنیا کی نادر و نایاب ڈیفنس شیلڈ فراہم کی ہے کہ حملہ آور کے ہر میزائل، راکٹ اور گولے کو صہیونی سرزمین میں داخل ہونے سے قبل ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور موساد کی سراغ رسانی کا معیار سی آئی اے اور اس سطح کی دیگر خفیہ ایجنسیوں کے مساوی ہے، مگرجمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب اسرائیل پر حماس کے گوریلوں نے حملہ کیا تو یروشلم و تل ابیب کو اس وقت پتہ چلا جب اس کے درجنوں اعلیٰ فوجی افسر و اہلکار فلسطینی گوریلوں کے ہاتھوں قید ہو چکے تھے اور کئی علاقوں پر حماس کا قبضہ تھا۔
نیتن یاہو امریکہ سے فوجی مدد مانگ رہے ہیں اور امریکہ کے اتحادی اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاظت کے لئے ہر ممکن امداد کے لئے تیار ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ بندی کی روسی اور حماس کی مذمت کی امریکی قرار داد منظور کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اور اسرائیل نے بارہ گھنٹے میں غزہ پر مکمل قبضہ کرکے فلسطینیوں کی مکمل بے دخلی کا جو اعلان کیا تھا وہ تاحال تشنۂ تکمیل ہے جبکہ فلسطینی عوام کو اب تک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کہ مسلم ممالک کے مرعوب و جاہ پسند، اقتدار پرست حکمران زبانی جمع خرچ میں مشغول ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر اسرائیل کے قیام کے لئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ نے کوششوں کا آغاز کیا تو عالم اسلام میں دو مستقبل بین اور دور اندیش رہنمائوں نے اس سازشی منصوبے کو جسے بعدازاں اعلان بالفور کا نام دیا گیا حقیقی معنوں میں سمجھا اور عالم اسلام کے علاوہ یورپ کو خبردار کیا کہ ارض فلسطین پر ایک صیہونی ریاست کے قیام سے شرق اوسط بارود کا ڈھیر بنے گا اور عالمی امن کا حصول کبھی ممکن نہیں ہو پائے گا۔ یہودیوں کے یروشلم اور فلسطین پر مذہبی، قانونی استحقاق کی بحث چھڑی اور اس میں برطانیہ و فرانس پیش پیش تھے اور دلیل یہودیوں کی صدیوں قبل حکمرانی اور قیام کی دی گئی تو علامہ اقبالؒ نے تین اشعار میں مسکت و مدلل جواب دیا ؎
رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت
پُر ہے میٔ گلر نگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا
20جولائی 1937ء میں مس فرقوہ الرسن کے نام خط میں علامہ اقبال نے واضح کیا کہ "ہمیں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطین انگلستان کی ملکیت نہیں نہ ہی فلسطین یہودیوں کا ملک ہے جسے انہوں نے اپنی مرضی ومنشا سے عربوں کے قبضہ میں آنے سے بہت پہلے ترک کر دیا تھا، نہ یہ صہیونیت کوئی مذہبی تحریک ہے، صہیونیت کو ایک مذہبی تحریک کے طور پر محض اس لئے تخلیق نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کو ایک وطن عطا کر دیا جائے بلکہ اس لئے بنایا گیا کہ برطانوی سامراج کو بحیرہ روم کے کنارے کے قریب ایک وطن دیا جائے۔ "
قائد اعظم نے رائٹرز نیوز ایجنسی کے نامہ نگار ڈنکن ہوپر کے سوال کے جواب میں 25اکتوبر 1947ء میں واضح کیا کہ "اقوام متحدہ میں ہمارے وفد کے قائد سرظفراللہ خان نے فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت کر دی ہے اور مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیا جائے گا بصورت دیگر نہ صرف عربوں اور ان کے حاکموں کے درمیان، جو تقسیم کے منصوبے کو نافذ کریں گے، ایسا زبردست فساد اور تنازعہ رونما ہوگا جس کی نظیر نہیں مل سکے گی۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوگا کہ وہ اپنی پوری حمائت عربوں (فلسطینیوں) کے لئے وقف کر دے"۔
علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم کے صائب مشورے پر برطانوی سامراج نے کان دھرا نہ امریکہ اور یورپ نے، فلسطین کی ارض مقدس پر اسرائیل نام کی ناجائز ریاست کا جھنڈا گاڑ دیا گیا اور یہ ناسور آج تک عالم عرب و عالم اسلام کے جسد ملّی میں نت نئے امراض کو جنم دے رہا ہے۔ سب سے خطرناک اور تباہ کن "وہن "ہے یعنی زندگی سے پیار اور موت سے فرار" کا موذی مرض۔ مخبر صادق ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا "ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مسلمانوں پر ان کے دشمن اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جس طرح شہد کے پیالے پر مکھیاں یلغار کرتی ہیں"صحابہ کرام نے عرض کی "یا رسول اللہﷺ کیا ہم تعداد میں اس قدر قلیل ہوں گے کہ دشمن ہم پر آسانی سے چڑھ دوڑیں گے" آپ نے فرمایا نہیں، تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ گنتی کرنا آسان نہیں رہے گا" "اس کے باوجود ہمارا یہ حال ہوگا مگر کیوں؟"شمع رسالتﷺ کے پروانوں نے پھر پوچھنے کی جسارت کی۔
آپ نے فرمایا "وہن" کی وجہ سے زندگی سے پیار، موت سے فرار کی عادت تمہیں اس حالت تک پہنچا دے گی"خوف اور کمزوری کی اس اندرونی بیماری نے مادی وسائل، جدید ہتھیاروں اور تربیت یافتہ افواج سے لیس قریباً پانچ درجن مسلم ریاستوں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اُمہ کو بھیڑوں کا ریوڑ بنا دیا ہے جس کی نہ تو کوئی جہت ہے نہ منزل اور نہ کوئی اعلیٰ نظریہ اور ارفعٰ مقصد حیات۔
اگر پانچ درجن عرب و غیر عرب مسلم ممالک کے عوام پھونک بھی ماریں تو کھجور کی گٹھلی کے برابر یہودی ریاست اسرائیل اڑ کر ہوا میں تحلیل ہو جائے۔ وہ امریکہ نہیں جس کی سائنس و ٹیکنالوجی کی ہیبت اور جنگی مشینری کی وسعت نے عربوں اور مسلمانوں کو مرعوب کر رکھا ہے، وہ اسرائیل ہے جسے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب چند سو فلسطینی جنگجوئوں نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا، دفاعی طاقت اور انٹیلی جنس دونوں کا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے مگر اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے باوجود حزب اللہ کے سوا کسی نے بھی عملاً حماس سے اظہار یکجہتی نہیں کیا۔
1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو سب سے زیادہ جشن کشمیر اور فلسطین میں منایا گیا۔ آج مگر سعودی عرب، پاکستان ترکی اور دیگر مسلم ممالک پر سکتہ طاری ہے۔ چبا چبا کر بیانات جاری کئے جا رہے ہیں کہ باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ ابھی تک او آئی سی کا اجلاس تک بلانے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، شائد اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر قبضے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ عالم اسلام کی بے حس، خوفزدہ اور ناعاقبت اندیش قیادت سے فلسطینی عوام اس کے سوا کیا عرض کر سکتے ہیں ؎
اجی شکریہ! آپ کی رہبری کا
ہمیں آپ نے دن میں تارے دکھائے
کِھلے ہیں مگر کوئی خوشبو نہیں
تیری بے رخی نے عجب گل کھلائے
خون شہیداں مگر کبھی ماضی میں رائیگاں گیا ہے نہ اب جائیگا، جذبہ جہاد سے سرشار حماس نے تنگ آمد بجنگ آمدکے مصداق اسرائیل کو للکارا ہے۔ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے اور یہود کی رگ جاں جدید معاشی نظام کے آہنی شکنجے میں ہے، جسے یوکرین جنگ کے بعد شرق اوسط کا بحران مزید کمزور و ناتواں کریگا۔ شائد یہ عالمی معاشی بحران ہی صہیونی ریاست اور اس کے سرپرستوں کا دماغ ٹھکانے لگا دے، دنیا باُمید قائم۔