’یہود مخالفت ‘ کے الزامات، تاریخی حقائق کیا ہیں؟
غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں سے متعلق سی این این کی اینکربیانا گولوڈیگا کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسرائیل اپنے تعلقات کے باوجود میڈیا میں جنگ ہار رہا ہے۔
اس پر اینکر نے سوال کیا کہ تعلقات، سے ان کی کیا مراد ہے جس پر شاہ محمود نے کہا کہ اسرائیلی بہت با رسوخ لوگ ہیں اور "میرا مطلب ہے کہ وہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔" اس پر سی این این کی اینکر نے شاہ محمود کے تبصرے کو یہودمخالف یا اینٹی سیمیٹک قرار دیا۔
فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازع پر کسی بھی دلیل کو بے معنی کرنے کا آسان ترین طریقہ یہی ہے کہ اسے اینٹی سیمیٹک، یا یہود مخالف قرار دے دیا جائے۔ اس الزام نے کئی سیاسی رہنماؤں کا مستقبل تاریک کردیا۔ جرمنی فاشزم اور ہولوکاسٹ کی تاریخ رکھتا ہے اس لیے وہاں کوئی اس حوالے سے غیر ذمے دارانہ بیان دے جائے اسے اپنی پارٹی، پارلیمنٹ یا دیگر فورمز پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔
برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن اور بین الاقوامی سطح پر کئی دیگر رہنماؤں کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل پر تنقید یا مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع پر ہونے والی بحث میں کسی بھی دلیل پر یہود مخالفت کا لیبل چسپاں کرکے اسے بے وقعت کردیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس خطے کے مسائل کے حل میں بھی رکاوٹ بن گیا ہے۔ ایک اعتبار سے اس رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہودیوں نے جرمنی اور یورپ میں جن ہولناک اور سفاکانہ مظالم کا سامنا کیا اس نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے کا جواز فراہم کردیا ہو۔
نسلی اعتبار سے انسانوں کی درجہ بندی مغربی یورپ کی روشن خیالی کی پیداوار ہے۔ اس کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔ یہ دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا تناظر تھا جس میں نسل انسانی کو ان کی مختلف جسمانی خصوصیات سے منسلک کرکے درجہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان جسمانی خواص کے لیے فینوٹپیکل، کی اصطلاح استعمال کی گئی۔
مثلاً، جب جان اسٹیورٹ مل اپنے کسی مضمون میں جمہوریت میں مساوی حقوق کے تصور کی بات کرتے ہیں تو اُن کے ذہن میں برطانوی سلطنت کی نوآبادیات میں بسنے والے سیاہ فام یا گندمی افراد کا تصور تک نہیں ہوتا۔ آج تک یورپ نوآبادیاتی دور اور سفید فام آدمی کے بوجھ، کے تصور کے تحت اس مسئلے سے نکل نہیں پایا۔ جدید سائنس کے نزدیک نسل ایک سماجی ساخت اور شناخت ہے جس کا تعین کسی سماج کے اپنے اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے۔ کسی گروہ میں جزوئی طور پر جسمانی و ظاہری یکسانیت پر اس کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
"سیمیٹک" یا سامی لفظ کا خاص نسلی اور ثقافتی گروہ کے لیے استعمال انیسویں اور بیسیویں صدی میں عام ہوا۔ علمی حلقوں سے نکل کر یہ اصطلاح فسطائی نظریے کا حصہ بن گئی۔ سامی، سے یہ غلط تاثر ملتا ہے کہ اس میں سامی مخالف ہونے سے مراد اس گروہ میں شامل سبھی گروہوں کی مخالفت مراد ہے کیوں کہ اس میں عرب اور آرامی بھی شامل ہیں۔
جرمنی میں 1879تک "جیودن ہیس" یا یہود سے نفرت کی اصطلاح عام تھی۔ آج یہ رسمی طور پر، یہ تصور اب وجود نہیں رکھتا کیوں کہ اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو کے مطابق رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی قسم کے نسلی امتیاز کی گنجائش نہیں۔ سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ جینیاتی طور پر "پاک نسلیں " وجود نہیں رکھتیں اور تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ تمام انسان ایک ہی جنیاتی دائرے میں آتے ہیں۔ اس لیے بیسویں صدی کے بعد سامی اور غیر سامی اقوام کی بحث ختم ہوگئی ہیں۔
سامی زبانیں افریقی ایشیائی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس کا آغاز مشرق وسطی سے ہوا تھا۔ دنیا میں 33کروڑ افراد یہ زبانیں بولتے ہیں۔ اس درجہ بندی میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان عربی ہے جسے سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد 30کروڑ ہے۔ پچاس لاکھ کے لگ بھگ یہودی عبرانی بولتے ہیں۔ یہ بھی ایک سامی زبان ہے۔
اینٹی سمیٹزیم یہود کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناانصافی ہے۔ عام طور پر اسے نسلی منافرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک اور نفرت انگیزی کے تناظر میں اس اصطلاح کو دیکھا جاتا ہے۔
یہودیوں کے ساتھ 1096میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران رائنلینڈ، بلیک ڈیتھ کے دنوں میں 1391میں ہسپانوی یہودیوں کا قتل عام اور 1492میں اسپین سے ان کی بے دخلی، 1648سے 1657تک یوکرین میں جاری رہنے والا کوساک قتلِ عام، روسی سلطنت میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں فرانس میں یہودیوں کی نسل کُشی اور یہود کے ساتھ امتیازی سلوک سمیت کئی دیگر اہم واقعات پیش آچکے ہیں۔ سوویت دورمیں بھی یہود مخالف پالیسیاں اختیار کی گئیں اور جرمنی و یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کا قتل عام ہوا۔ حالیہ تاریخ میں عرب اور مسلمان ممالک سے یہودیوں کی بے دخلی کے واقعات بھی پیش آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود سے یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ لیکن کیا یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ان مظالم کو نسل پرستی کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ صدیوں سے یہودیوں کی شناخت ان کا مذہب ہے نسل نہیں۔ انھوں نے اپنی نسلی پہچان بعد میں اختیار کی۔ اسلام اور مسیحیت دونوں کے نزدیک پوری دنیا ان کی مخاطب ہے۔ اس لیے ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور یہودیت ان سے قدیم مذہب ہے لہٰذا اس کے ساتھ بھی ان مذاہب کے ماننے والوں کی مخاصمت پیدا ہوئی۔
یہود اور عرب دونوں ہی جزیرہ نمائے عرب میں بستے تھے اور صرف ان کا مذہب ہی ان کے درمیان خطِ امتیاز تھا۔ ابتدا میں کئی لوگ یہودیت چھوڑ کر مسلمان ہوئے بالکل اسی طرح ابتدائی دور کے اکثر مسیحی پہلے یہودی تھے۔ لیوپولڈ ویس پولینڈ سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے اور آج انھیں دنیا محمد اسد کے نام سے جانتی ہے۔
یہود مخالف جذبات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس رویے کا نسلی، ثقافتی یا مذہبی بنیاد پر کوئی جواز نہیں پایا جاتا۔ یہ سینہ بہ سینہ چلی آتی روایات ہیں۔ تمام یہودیوں کو لالچی، خود غرض یا فریبی بنا کر پیش کرنا درست نہیں کہ یہ خامیاں تو دنیا کے ہر طبقے میں ہوتی ہیں۔
اس تاریخی پس منظر کے ساتھ ہم اپنے اصل موضوعِ بحث کی طرف پلٹتے ہیں کہ آیا شاہ محمود قریشی کے بیان کو سامی یا یہود مخالف قرار دینا درست تھا؟ تو اس کا جواب ہے کہ ایسا کسی طور بھی درست نہیں۔ بھلا صہیونیت کی مخالفت کو یہودیوں کی مخالفت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فور فارن ریلیشنز کے چیئرمین ہیں)