نیا انتفادہ
فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کے نتیجے میں غزہ کی گنجان ساحلی پٹی پر درجنوں بم اور خودکار اسلحے سے مسلسل شیلنگ کی گئی۔ یہ دائیں بازو کے شدت پسند یہودیوں کی پولیس کی حمایت میں مسجد اقصیٰ میں داخلے کا ردعمل تھا۔ سیکڑوں فلسطینی اس دوران شہید ہوئے، جن میں 70بچے بھی شامل ہیں۔ ان کے گھروں کا ملبہ ان کی قبر بن گیا۔ اب تک دس اسرائیلیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
الجزیرہ، ایسوسی ایٹ پریس اور دیگر میڈیا تنظیموں کی دفاتر پر مشتمل بلند و بالا عمارت اسرائیلی حملے میں ڈھے گئی۔ یہ عمارت، Reporters without Borders کا بھی مرکز تھی، جس کے جنرل سیکریٹری Christophe Deloireنے اسے ایک جنگی جرائم قرار دیا۔ البتہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس حملے کو جائزٹھہرانے پر مصر ہیں، کیوں کہ بقول ان کے اس عمارت میں حماس کا دفتر تھا۔
گزشتہ اتوار اقوام متحدہ کی ایمرجنسی میٹنگ کی مسلسل تیسری نشست تھی، جس میں مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس معاملے پر گہری تشویش ظاہر کرنے والی قرار داد کو بھی تینوں بار امریکا نے ویٹو کیا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے پچیس سینیٹرز کی ظاہر کردہ گہری تشویش اور جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود صدر بائیڈن سابق صدر ٹرمپ کی راہ پر چلتے ہوئے اسرائیلی پالیسی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا مقصد یہودی آباد کاروں کے حق میں عربوں کی مسلسل بے دخلی شامل ہے۔ اور اس کا نتیجے مقبوضہ علاقے میں عربوں کے قتل عام کی صورت سامنے آرہا ہے۔
ایک ایسے شخص کے طور پرجو امریکی اقدار کا قدردان ہو، جن کی تعلیم نوجوانی میں ایک شفیق راہبہ نے دی ہوں، میرے نزدیک صورت حال غیرمنصفانہ اور غیرمتوازن ہے۔ آدمی صرف یہ امید رکھ سکتا ہے کہ بائیڈن کی عوام کے سامنے خاموشی کا مقصد نیتن یاہو سے نجی مکالمے میں سخت روی برقرار رکھنا ہے۔
سن1948 میں شروع ہونے والا اسرائیل فلسطین تنازع، جس میں ہزاروں فلسطینی اپنے گھر، آبائی علاقوں اور زندگیوں سے محروم ہوئے، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی کمیونٹی کی کوشش کے باوجود حل طلب ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اسرائیلی ہٹ دھرمی ہے، جو عرب آبادی سے سمجھوتا کرنے کے بجائے اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چھ سے دس ملین فلسطینی مختلف ممالک میں پناہ لے چکے ہیں، مگر اکثریت اب بھی آنکھوں میں آزاد وطن کا خواب لیے اپنی زمین پر مقیم ہے۔
کبھی ایسا لگتا تھا کہ معاملات پرسکون ہوگئے ہیں اور امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ مسئلہ از خود حل ہوجائے گا۔ اس مقصد اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی حمایت میں اضافے کے لیے صدر ٹرمپ کے یہودی داماد، Jared Kushner نے عرب دنیا کے شاہی خاندانوں سے اپنے تجارتی روابط میں اضافہ کیا۔
پہلے مرحلے میں Abraham Accords نامی معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا، بلکہ فوراً ہی سفارتی تعلقات قائم کر لیے، جنھیں عالمی میڈیا میں خاصی توجہ ملی۔ بہ ظاہر یہ فلسطینیوں اور ان کے مقاصد کو بالائے طاق رکھنے کا علامتی اقدام تھا، اس سے ایک بڑی غلط فہمی نے جنم لیا اور مشرقی یروشلم کے اسرائیلی آباد کاروں کی الشیخ جراح کے تاریخی علاقے میں فلسطینیوں کے گھروں پر قبضے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ قبضہ کاروں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کا سہارا لیا، جو عمومی طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق حکومت اور آباد کاروں کے موقف کی حمایت کرتی ہے۔
البتہ وقت کی کسوٹی پر اسرائیل متحدہ عرب امارات معاہدہ(Abraham Accords) امریکی حکام اور Kushner کی امیدوں جتنا کھرا نہیں اترا۔ ایک جانب جہاں عرب کے شاہی خاندان اپنے مفادات کے لیے اسرائیل سے معاہدہ کرنے کو تیار تھے، عام عربوں کے جذبات یکسر مختلف تھے۔ عام تصور کے برعکس سعودی عرب، جو فلسطین کے حقوق کا دیرینہ حامی ہے، اسرائیل کو قبول کرنے کے دباؤ کا شکار نہیں ہوا۔
ترکی نے بہت پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی، مگر بعد ازاں اسرائیلی پالیسی کی وجہ سے اِسے ناممکن قرار دے دیا۔ فلسطین سے ہمارا تعلقات یک طرفہ ہیں۔ اگرچہ ہم نے ہر مرحلے پر فلسطینیوں کی حمایت کی، مگرانھوں نے کبھی کشمیر کے موقف پر ہمارا ساتھ نہیں دیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی حمایت کی وجہ سے اسرائیل کسی سمجھوتے کا خواہاں نہیں۔ ادھر Abraham Accordsجیسے معاہدوں کے باعث اس کی مداخلت بڑھ رہی ہے۔ نیتن یاہو نے اِس تنازع کو اعتدال پر لانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا، بلکہ غزہ سے متعلق سخت زبان استعمال کی۔ اسی وجہ سے اسرائیل میں پرامن رہنے والے عربوں نے بھی احتجاج کا علم بلند کیا۔ بہ ظاہر یوں لگتا تھا کہ عربوں اور عالم اسلام نے فلسطینیوں کو الگ تھلگ کر دیا ہے، مگر سڑکوں پر بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج اور اب او آئی سی کے ردعمل نے ثابت کر دیا کہ یہ اندازہ غلط تھا۔
وائٹ ہاؤس میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مسرت کی تجدید اب مشکل ہے۔ گو یہ تنازع نیتن یاہو کے لیے ایک چیلنج ہے، البتہ یہ انھیں وزارت اعظمیٰ کے حصول اور کرپشن کے چارجز سے فرار میں مدد کرسکتا ہے، جیسے کہ حالیہ انتخابات کے بعد وہ مخلوط حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے تھے۔
عربوں اور فلسطینیوں سے تعلقات بہتر بنانا اسرائیل کے اپنے مفاد میں ہے، جن کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے، اپنے آبا کی زمین پر رہنے کے بنیادی حق کو تسلیم کیا جائے۔ ساتھ ہی فلسطینیوں کو امن کے لیے اسرائیل سے متعلق معروضی حقائق کو سمجھنا ہوگا۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی ماہر، کراچی کونسل آف فارن افیئرز کے چیئرمین (KCFR) اور قائد اعظم ہاؤس میوزیم کے بورڈ آف مینجمنٹ کے وائس چیئرمین ہیں۔)