کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
ایک سے بڑھ کر ایک شیطانی، ہیجانی اور ہذیانی چکر زور و شور سے جاری ہے اور ان اعصاب شکن حالات میں بھی میرے ہم عصر اہل قلم کا ہی حوصلہ ہے کہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اندازے، تخمینے، تبصرے، تجزیے، امیدیں اور امید کی کرنیں دیکھ کر ڈوبتا ہوا ٹائی ٹینک یاد آتا ہے جس کے میوزیشنز آخری لمحہ تک پوری استقامت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے رہے ورنہ کیا یہ واقعی جمہوریت ہے جو مسلسل خود سے انتقام لینے پر تلی ہے اور جس کی زبان میں زہر اور ذہن میں انگارے دہک رہے ہیں۔ ایسے آلودہ ترین ماحول میں یکسوئی معجزہ ہے جو مجھے میسر نہیں، ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ خیالوں کا۔
پوچھا بزرگو! سچ کیا ہے؟ فرمایا "جو جھوٹ نہیں صرف وہی سچ ہے اور ہر دھوکہ منڈی میں اجناس سے لے کر تاجروں، خریداروں اور منظروں تک سب کچھ جھوٹ ہے۔ دریا میں فقط ریت ہے پانی تو نہیں ہے""جہاں تمہارا سر جائے گا وہیں تمہارے قدم بھی جائیں گے""عرض کیا "اجازت چاہتا ہوں "فرمایا "تمہارا قیام بھی تمہارے سفر جیسا اذیت ناک ہی ہوگا"سچ ہے کہ سکھ کا درارو مدار اس پر ہوتا ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لئے تم نے دکھ کتنے سہے ہیں لیکن کبھی کبھار اس قسم کے معتبر کلّیے بھی مکمل طور پر ناکام ہو جاتے ہیں اور زندگی بھر تو کیا کئی کئی نسلوں پر محیط سفر کے بعد بھی منزل نصیب نہیں ہوتی تو مسافر اسی بات پر قائل ہو جاتے ہیں کہ دراصل سفر ہی ان کی منزل ہے لیکن بہت اچھا ہو یا بہت برا، اس نے ہمیشہ کے لئے موجود اور قائم نہیں رہنا ہوتا کہ ثبات صرف تغیر کی ہی تقدیر میں لکھا ہے۔
غریب کی زندگی کتنی عجیب کہ جو دیانت دار ہے وہ تجربہ کار نہیں اور جو تجربہ کار ہے وہ دیانت دار نہیں۔ مناسب اجرت کی امید محنت کو میٹھا کردیتی ہے لیکن اس اصول کا اطلاق بیگار کیمپوں اور غلاموں کی منڈیوں میں نہیں ہوتا اور غلاموں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جن سے "کچھ کرنے" کا ہی نہیں، "کچھ بھی نہ کرنے" کا اختیار تک چھین لیا جاتا ہے اور وہ اس آزادی کا جشن بھی مناتے ہیں، اس پر بھنگڑے بھی ڈالتے ہیں اور ایسا کرتے وقت اتنا بھی نہیں سوچتے کہ "بھنگڑا" بھنگ سے شروع ہو کر بھوک ننگ پر ختم ہوتا ہے۔ بے سُرے سوالوں کے سُریلے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ ابدی نیند سو جاتے ہیں لیکن کسی قبر کے کتبے پر یہ سچ لکھا دکھائی نہیں دیتا، سو جاگتے ہوئے لوگ ابدی نیند سونے والوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور کبھی کہیں نہیں پہنچ پاتے۔ تب انہیں ایک عجیب سزا سنا دی جاتی ہے کہ تمہیں قائدین کی شکل میں ایسے گلاب عطا کئے جائیں گے جنہیں، نہ تم قبروں پر چڑھا سکو گے، نہ سہرے میں سجا سکو گے، نہ کسی کے بالوں میں لگا سکو گے کیونکہ یہ دیکھنے میں اصلی گلابوں سے زیادہ خوبصورت ہونے کے باوجود بے جان، بے روح، بے رنگ اور بے خوشبو نقلی گلاب ہوں گے۔
میں نے کہا "بابا! یہ کیسا پانی ہے؟" بولے "بیٹا! تیرا حلق تو تر کر دے گا، تری پیاس کبھی نہیں بجھے گی"عرض کیا، "یہ کیسا اناج ہے؟"بولے "بیٹا! جس دھرتی پر ہمہ وقت ظلم زیادتی کا راج ہو وہاں ایسا اناج ہی اگتا ہے" پوچھا "کیسا؟" فرمایا "جس سے پیٹ بھر بھی جائے تو بھوک ختم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے"۔ پھر عرض کیا، "اور میرا یہ مہنگا برانڈڈ لباس؟" فرمایا "خوب ہے، بہت خوب ہے لیکن ستر پوش ہرگز نہیں۔ بابا! آخری سوال کا سوال ہے""پوچھ سفلے! پوچھ""برکت اور نحوست میں کیا فرق ہے؟"فرمایا، "کردار اور کرتوتوں کا" اور "اب جا، جا کے ووٹ کو عزت اور خود کو بے عزتی دے، میں سونا چاہتا ہوں "قومیں اور قبیلے اپنے عروج نہیں زوال سے پہچانے جاتے ہیں کہ یہی دراصل ان کا اصل تعارف ہوتا ہے کیونکہ زوال کے بعد کبھی کسی کو دوبارہ کمال حاصل کرتے نہیں دیکھا اور اصل تعارف وہی ہوتا ہے جو مستقل تعارف ہو۔ اور وہ ہوا ہی کیا ہے جو شعلے کو بھڑکا نہ سکےاور وہ ہوا ہی کیا ہے جو شعلے کو بجھا نہ سکےآنسوئوں سے بڑھ کر مرہم کوئی نہیں لیکن اگر آنسو ہی خشک ہو جائیں تو لوگ کہاں جائیں؟
کارخانۂ قدرت میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی استعمال ہے۔ یہاں تک کہ مردارخور گدھ، مکھی، مچھر بھی بہت کارآمد ہیں لیکن مجھ جیسے کودن کو آج تک اپنے قائدین کی ترکیب استعمال سجھائی نہیں دی، ان کا کیا فائدہ ہے؟ کاسمیٹک سرجری خاصا مہنگا کام ہے لیکن یہی کام آپ مسکراہٹ سے بھی لے سکتے ہیں بشرطیکہ مسکرانا حرام قرار نہ دے دیا گیا ہو۔ خدا جانے کس احمق نے کہا تھا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے کیونکہ یہاں تو عشروں سے ہر بار جھوٹ ہی ریس (RACE) جیت جاتا ہے۔ جسم کا مقدس ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ آپ کے دماغ کو اٹھائے پھرے اور دماغ چند تولے "مغز" کا نام نہیں کہ وہ تو ہر جاندار میں ہوتا ہے دماغ صرف وہ ہے جو سوچے اور سوچتا رہے۔