پاکستان کی اَن کہی کہانی
دنیا افغانستان پر طالبان کے قبضے کے نتائج و اثرات سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بہر کیف پاکستان کی اَن کہی کہانی یہ نہیں کہ دنیا پاکستان کی قربانیاں سراہنے میں ناکام رہی۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھارت اور افغانستان کی فریب دہی کی شکار ہو گئی۔ ان دونوں نے دھوکے اور فریب سے افغانستان پر ایک ایسی قسمت مَنڈھ دی جس کا حیرت خیز نتیجہ طالبان کے ناگزیر قبضے کی صورت نکلا۔ کئی عالمی تجزیہ کار یہ غیر حقیقت پسندانہ اور یک طرف تجزیہ کر رہے ہیں کہ طالبان تنظیم پاکستان کے زیرِ اثر ہے۔ بھارت بیس سال میں افغانستان کے بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل کی ترقی پر تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے دعووں کے ذریعے ہر ایک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن یہ تو دانستہ چھپائے ہوئے دوسرے مقاصد پورا کرنے کی غرض سے چلی گئی چال تھی۔ اصل میں یہ ہوا کہ ان سرمایہ کاریوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے پورے افغانستان میں قو نصل خانے قائم کیے جن کا مقصد تحریکِ طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کے ذریعے پاکستان میں "ریورس سٹریٹیجک ڈیپتھ" کی سازش کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ہدف پاکستان کے تاج کا ہیرا سی پیک تھا۔ اس سازش پر عمل کے دوران پاکستان میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں میں سکول کے ایک سو بتیس معصوم طلبا سمیت ہزاروں پاکستانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کے باوجود دنیا نے پلک تک نہیں جھپکی۔
پاکستان پر الزام دھراگیا کہ وہ طالبان کو وجود میں لایا ہے لیکن دنیا نے یہ سوال اٹھانا گوارا نہیں کیا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر پاکستان، ٹی ٹی پی کی شقاوت و بے رحمی کا شکار کیوں رہا۔ اس دوران اشرف غنی اور افغان اشرافیہ پر مشتمل ان کا ہم نوا ٹولہ فریب کاری سے افغانستان پر حکومت کرتا رہا۔ پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے بھرپور انداز میں واضح کیا ہے کہ اشرف غنی نے بد انتظامی، اختیارات کے غلط استعمال، آئین کی خلاف ورزی، حد سے زیادہ اقربا پروری، سیاسی اور قومی تفرقہ پھیلانے، ریاستی اداروں کو ارادتاً سیاسی رنگ میں رنگنے، سازشیں گھڑنے، امن کی کوششیں متواتر ناکام بنانے اور دھوکے فریب سے اپنے اقتدار کو طول دے کر ری پبلک کو اپنے آپ تک محدود کر ڈالا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کی کٹھ پتلی کے طور سے اشرف غنی کو صرف اپنا اقتدار مضبوط کرنے سے دل چسپی تھی جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ پاکستان کی سارے فریقوں کی شمولیت سے افغان امن عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ہمیشہ سنگین رکاوٹیں کیوں کھڑی کی گئیں۔ پاکستان کی عسکری اور غیر عسکری قیادت کی افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے مل جل کر عمل کرنے کی لا تعداد کوششوں کے باوجود یہ سب کیا گیا۔ دنیا نے یہ پوچھنا کبھی گوارا نہیں کیا کہ محض پچہتر ہزار طالبان تیکنیکی طور سے انتہائی جدید امریکی ہتھیاروں سے لیس تین لاکھ فوجیوں پر مشتمل مضبوط افغان نیشنل آرمی کی طرف سے کسی مزاحمت کے بغیر پورے افغانستان پر قبضہ کرنے میں کس طرح کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں ایک بار پھر پاکستان پر الزام دھر دیا گیا کہ اس نے طالبان کو تربیت دی تھی۔ کابل کا طالبان کے قبضے میں چلے جانا طالبان کے ساتھ پاکستان کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ یہ سکرپٹ بھارت نے لکھا ہے اور افغانستان اور خطے کے لیے امریکا کے رویے نے اس کا سانچا ڈھالا ہے۔
پْر تشدد اور انتہائی درجے کا انتشار پھیلانے کی سوشل میڈیا کی استعداد کی یرغمال دنیا میں پاکستان عشروں پر محیط اپنی خوابیدگی کے نتائج بھگت رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ (جی ڈبلیو او ٹی) کے ابتدائی دنوں ہی سے پاکستان نے، جو اس جنگ میں ہچکچاہٹ سے شریک ہوا تھا، دفاعی انداز اپنائے رکھا اور امریکا کے مؤقف کی تائید و حمایت پر قانع رہا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے تراسی ہزار جانیں گنوائیں جب کہ اسے قریباً ایک سو چھبیس ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
افغانستان کے تباہ کن واقعات نے وقت گزرنے کے بعد اپنی کہانی دنیا کو سنانے کا بڑا ہی مشکل کام پاکستان پر ڈال دیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں قتلِ عام کے بارے میں مچائے جانے والے ہلڑ نے پاکستان کو طالبان کے ساتھ بڑی سخت گرہ سے باندھ دیا ہے۔ یہ گرہ کھولنے کی غرض سے پاکستان کے پالیسی سازوں کو اک ذرا ٹھہرنا اور دوبارہ غور و فکر کرنا ہو گا۔ افغانستان کی مدد کرنے کے جوش میں اپنی کاوشوں کا اعتراف عالمی سطح پر حاصل کیے بغیر اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ پاکستان دنیا کو اپنے لیے نرم گوشہبنانے پر آمادہ کر پائے گا۔
اب جب کہ چین اور روس افغانستان میں امریکا کا چھوڑا خلا پْر کرنے سے گہری دل چسپی رکھتے ہیں تو پاکستان کے لیے بہترین عمل یہ ہو گا کہ وہ ان دو بڑی طاقتوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مل کر سارے فریقوں پر مشتمل ایک ایسی حکومت کے قیام کے لیے کام کرنا جاری رکھے جس میں سارے بڑے نسلی گروپوں کی نمائندگی ہو اور جسے بین الاقوامی برادری تسلیم کر لے۔ آج پاکستان کو ولن بنا کر پیش کیا جانا بھارت اور دوسرے دشمنوں کی کوششوں کے علاوہ اس کی اپنی خوابیدگی کا بھی نتیجہ ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ مستقبل میں طاقت کی عالمی راہ داریوں میں اس کی کاوشیں تسلیم کی جائیں تو اسے اپنی "قیمت" حاصل کرنا اور اپنے آپ کو کم قیمت پر کبھی نہ بیچنا لازماً سیکھنا ہو گا۔ دنیا کسی کی اچھی نیت اور ارادے کے باوجود اسے اپنی ساکھ بحال کرنے کا دوسراموقع نہیں دیا کرتی۔