طرزِ فکر
قدرت حادثات برپا کرتی ہے کہ اپنی غلطیوں کا آدمی ادراک کرے۔ پھر بھی کوئی سیکھنے اور سمجھنے سے انکار کر دے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ طرزِ احساس میں لچک کا فقدان خطرناک ہوتاہے، بہت خطرناک۔ لیڈر ہمارے بگڑ گئے اور اس کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم ان کے اندھے پیروکار۔ جس معاشرے کے رہنما احتساب کے خوف سے بے نیاز ہوں بلکہ دیوتا ؤں کی طرح پجتے ہوں، اپنی اصلاح کیوں کریں گے۔ معاشرے کا مزاج صدیوں میں ڈھلتا ہے اور آسانی سے بدلتا نہیں۔
تہہ در تہہ یہ سرپرستی کا معاشرہ ہے۔ ہر لمحہ سفارش اور سائبان کا متمنی۔ کچھ لوگوں کو ہم غیر معمولی سمجھ لیتے ہیں۔ ان سے سرزد ہر خطا کی تاویل کر لی جاتی ہے۔ پاکستان میں تو یہ بھی ہوا کہ سیاسی پارٹیوں نے میڈیا سیل تشکیل دیے جو ہر اس شخص پہ چڑھ دوڑے، اختلاف کی جس نے جسارت کی۔ اختلاف غلط ہو سکتاہے لیکن جواب دلیل سے دیا جاتاہے، مغلظات سے نہیں۔ عہدِ آئندہ کا مورخ ان میڈیا سیلوں کو نظر انداز نہیں کرے گااور یہ لیڈروں کے فردِ جرم میں نمایاں ہوگی۔
پی ٹی آئی کے ہمدرد ایک شائستہ اخبار نویس نے، رنج سے شکایت کی کہ اگر کبھی تنقید کی جسارت کرے تو گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ، اصلاح کی قوت کھو دے گا۔ اس کارِ خیر کے لوگ روزِ جزا سے گویا بے نیاز ہیں۔ یکسر وہ بھول گئے کہ ایک رو ز انہیں مالک کے حضور پیش ہونا ہے۔ ایک تو اندھے مقلد ہیں، جتھہ دار اور دوسرے تنخواہ دار۔ رزق کے لیے جو لوگ انسانوں کے محتاج ہو گئے، آدمیت کی رمق ان میں کہاں رہے گی۔ اہمیت اصول کی ہوتی ہے، فرد کی نہیں۔ ہمیشہ یاد دلایا جاتاہے اور ہمیشہ بھلا دیا جاتا ہے کہ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
قائدِ اعظم کے سوا کون ہے، اقتدار کی مسند سے جو آبرومندانہ اٹھا۔ کچھ مارے گئے، کچھ جلاوطن ہوئے لیکن مجال ہے کہ کسی نے سبق سیکھا ہو۔ مذہبی یا لبرل لیڈر، سبھی کا وطیرہ ایک۔ پارٹیاں خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے۔ ایسے ایسے دلائل تراشے جاتے ہیں کہ عقل و خرد اور شرم و حیا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا:
ڈوبتی شام کی پھٹکار ہو مجھ پر میں اگر
چڑھتے سورج سے کبھی ہاتھ ملانا چاہوں
اس پاک سرزمین میں لیکن روش یہی ہے اور نتیجہ واضح۔
آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ایک کے بعد دوسرا لیڈر ناکام و نامراد۔ دھیرے دھیرے وہ ڈوب جاتا ہے لیکن تدبر کی توفیق کم ہی ہوتی ہے۔ پٹے ہوئے پامال راستوں پہ ہم چلتے چلے جاتے ہیں۔ پھر حیرت سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے زوال کا سبب کیا ہے۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں اور اصولوں سے انحراف بلکہ بے وفائی اور شخصیت پرستی۔ سول ادارے تباہ ہو چکے اور تعمیرِ نو کی فکر کسی کو نہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کورونا کا ایک مریض چند ہزار رشوت دے کر ہوائی اڈے سے نکل گیا اورایک پورے علاقے کو مصیبت میں مبتلا کر ڈالا۔ ایک مشہور خاندان کی خاتون سمندر پار سے کورونا اٹھا کر لائی اور تقریبات برپا کرکے بانٹتی رہی۔
کہا جاتاہے کہ تعلیم کا فقدان بنیادی مسئلہ ہے۔ بالکل ٹھیک لیکن خود پڑھے لکھے، بارسوخ اور مالدار طبقات کا حال کیا ہے؟ لاہور کے بعد کراچی سے خبر آئی ہے کہ ڈیفنس کے بہترین علاقوں میں مرض زیادہ تیزی سے پھیلا۔ یہ وہ لوگ ہیں، تفریح اور نشاط جن کا طرزِ زندگی ہے۔ جن کی بیگمات زیوروں سے لدی پھندی رہتی ہیں۔ بڑے بڑے گھر اور چمکتی دمکتی گاڑیاں۔ خریداری اور تفریح کے لیے جو لندن اور دبئی کا رخ کرتے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت مسلّم، کوئی احمق ہی اس سے انکار کرے گا۔ سب سے اہم مگر ماحول ہوتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی کسی معاشرے میں اگر بے حسی غالب آجائے، احساس، ادراک اور شعور نہ رہے تو پڑھے لکھے لوگ بھی زد میں آجاتے ہیں۔ ادنیٰ روّیے پروان چڑھتے اور پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ ہم تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی ایک قوم ہیں۔
دوسروں کو چھوڑیے، ملائیشیا اور ترکیہ ہمارے سامنے بدل گئے۔ رقبہ اور آبادی کم ہے لیکن فی کس آمدن چین سے بھی زیادہ۔ عالمی طاقتوں میں ان کا شمار نہیں لیکن جہالت، غربت اور پسماندگی کو انہوں نے شکست دے دی۔ جدید ادارے تعمیر کیے۔ ترکیہ میں پانچ سو پولیس افسر پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اسلام قدامت پسندی نہیں، جس میں ہمارے ملّا نے ہمیں مبتلا کر رکھا ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے احکام ہر زمانے کے لیے ہیں۔ بنیادی شرعی اور اخلاقی اصول کبھی نہیں بدلتے مگر نئے زمانوں اور نئے مسائل میں ان کے اطلاق کا قرینہ بدل جاتاہے۔ اسی میں ہم ناکام ہیں، شعور و ادراک سے تہی۔
ہمارے دونوں عظیم معلم قائدِ اعظم اور اقبال ؔکسی سے کم مسلمان نہ تھے۔ جھوٹ تو کیا کبھی مبالغہ بھی نہ کرنے والے متوکل قائدِ اعظم میں اولیا کی سی شان پائی جاتی ہے۔ ہمارا مذہبی طبقہ مگر انہیں سمجھ نہ سکا۔ بیسویں صدی کا علمی مجدد اگر کوئی ہے تو اقبالؔ۔ مسلم بر صغیر کے طرزِ احساس کو اس نے بدل ڈالامگر افسوس، طرزِ عمل کو نہیں۔ مایوسی کو دھو ڈالا، حریت کا ولولہ بیدار کر دیا۔ مغرب کے باطن میں چھپی تاریکیاں واشگاف کر دیں اور اس کے تضادات بھی۔
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرِ شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
کیسی عجیب قوم ہے کہ ان عظیم رہنماؤں کو سموچا نگل گئی۔ کشمیر، وسطی ایشیا، افغانستان اور ایران نے اقبال ؔسے زیادہ فیض پایا۔ انقلاب کے ہنگام ایرانیوں سے پوچھا جاتا کہ ایسے عظیم شاعر انہوں نے پیدا کیے، پھر اقبالؔ کا پرچم وہ کیوں تھامے ہیں۔ ان کا جواب یہ ہوتا کہ ایک بیمار معاشرے کو نجات دلانے میں گل و بلبل کے شاعر کس کام کے۔ کیسی خوفناک جسارت ہے کہ قائدِ اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دراں حالیکہ نصف صدی کی تگ و تاز میں ایک بار بھی یہ لفظ انہوں نے استعمال نہیں کیا۔ قائدِ اعظم نہیں، نہرو سیکولرازم کے پرچم بردار تھے۔
عمر بھر اقبال ہمیں ملّا سے خبردار کرتا رہا۔ اس کی منجمد سوچ اور قدامت پسندی سے۔ بات کو دہرانا پڑتا ہے۔ تفتان اور ہوائی اڈوں کے بے حس عملے کے علاوہ تبلیغی جماعت کرونا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب بنی۔ منع کرنے کے باوجود اجتماع انہوں نے منعقد کیا اور اجتماع کے بعد تبلیغی کارکن ملک بھر میں پھیلا دیے۔ توجیح اب یہ ہے کہ معاملے کی سنگینی واضح نہیں تھی۔ بالکل واضح تھی۔ وہ ضد پہ اڑے رہے۔ یہی ضد ہمارے مذہبی طبقے کی متاع ہے۔
قدرت حادثات برپا کرتی ہے کہ اپنی غلطیوں کا آدمی ادراک کرے۔ پھر بھی کوئی سیکھنے اور سمجھنے سے انکار کر دے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ طرزِ احساس میں لچک کا فقدان خطرناک ہوتاہے، بہت خطرناک۔