تقدیر
تاریخی تبدیلی کے راستے پر دنیا چل نکلی ہے۔ مغرب کیسی ہی کوشش کرے، اس تبدیلی کو روک نہیں سکتا۔ یہ تقدیر کا لکھا ہے اور تقدیر کو کون ٹال سکتاہے۔
ایک کے بعد امکان کا دوسرا دروازہ کھل رہا ہے۔ اب یہ پاکستانی قوم پر ہے کہ وہ جاگ اٹھے یاتاریخ کے چوراہے پہ پڑی سوتی رہے۔
افغانستان سے امریکہ کو نکلنا پڑا اور اس لیے نکلنا پڑا کہ ذلت آمیز شکست سے بچنے کے لیے پاکستان کی ضرورت آپڑی تھی۔ میجر عامر نے ٹھیک کہاکہ نائن الیون کے بعدپاکستان نے امریکہ سے جو سمجھوتہ کیا، وہ ذہنی پستی کا غماز تھا۔ باایں ہمہ قدرتِ کاملہ نے پاکستان کو ڈھانپ لیا۔ جنرل مشرف نے پہاڑ ایسی غلطی کی تھی۔ یہاں تک کہہ دیا تھا: پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے تزویراتی اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں۔ مگر ایک کے بعد دوسرے فوجی سربراہ نے طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پر دبا ؤ زیادہ بڑھتا تو امریکیوں سے وہ یہ کہتے: آپ ہم سے طالبان کے بارے میں معلومات چاہتے ہیں۔ ان سے رابطہ رکھے بغیر یہ کیونکر ممکن ہے؟
سلالہ کی چوکی پر حملہ ہوا تو سات ماہ تک افغانستان کے لیے امریکی سپلائی روکے رکھی۔ پاکستان دہشت گردی کی زد میں تھا۔ ہر ہفتے تین سے پانچ بڑے دھماکے ہوتے۔ امن اب ایک خواب تھا۔ کراچی میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم دندنا رہی تھی۔ قبائلی پٹی اور بلوچستان میں بھی صورتِ حال اتنی ہی خراب تھی۔ سوات میں بے گناہوں کو سرِ عام پھانسیاں دی جاتیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان نام تو ملّا عمر کا لیتی لیکن دراصل بھارت کے لیے کام کر رہی تھی۔
امریکیوں کو اصرار ہوتا کہ وزیرستان میں کارروائی کی جائے۔ جنرل کا جواب یہ ہوتا کہ موزوں وقت کا انتخاب پاکستان خود ہی کرسکتا ہے۔ بالاخر وہ وقت آپہنچا۔ بالاخر قبائلی علاقے پختون خوا میں ضم کر دیے گئے۔ اس حال میں کہ مخالفت کرنے پر پاکستان کے دو پشتون لیڈر وں کو کابل سے نقد داد مل رہی تھی۔ ایک صاحب کے تو ایرانی انٹیلی جنس سے مراسم بھی تھے۔ ایک مرحلے پر دو پشتون لیڈروں نے پختون خوا کو افغان علاقہ قرار دیا۔
ہیلری کلنٹن چیخ و پکار بہت کرتیں۔ جنرل کیانی دانا لوگوں سے مشورہ کرتے۔ انہیں بتایا گیا کہ ہیلری ایک جذباتی خاتون ہے۔ ملاقات شروع ہو تو دس پندرہ منٹ انہیں بولنے دیجیے۔ بھڑاس نکال چکیں تو اپنا موقف بیان کیجیے۔ گفتگو میں ایسا سلیقہ مند آدمی کم ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہیلری ہار گئیں اور آخر کار قبائلی پٹی کے لیے انہوں نے دو سو ملین ڈالر کی غیر مشروط امداد مہیا کی۔ اسی رقم سے سات سو کلومیٹر لمبی دوہری سڑک بنائی گئی۔ ہزاروں افراد کو روزگار ملا اور بعض قبائلی قصبوں کا فاصلہ دو گھنٹے کم ہو گیا۔
رعب جمانے کا کوئی موقع ہالبروک ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ جنرل کو مشورہ دیا گیا کہ ایک بار ملاقات سے معذرت کر لیں۔ واشنگٹن میں ایک میٹنگ کے بعد ہالبروک نے دوسری ملاقات کی خواہش کی تو معذرت کر لی گئی۔ اصرار بڑھا تو واشنگٹن کی بجائے نیو یارک میں ملے۔ سواگت کرنے ہالبروک فٹ پاتھ پہ کھڑا تھا۔ دماغ ٹھکانے آچکا تھا۔
سب سے زیادہ سخت گیر پیٹریاس تھا۔ وہ امریکی فلموں کے کاؤ بوائز کی طرح دھمکیاں دیتا۔ جنرل نے ایک نادر طریق اختیار کیا۔ خاموشی سے اس کی سنتے رہتے اور آخر میں یک طرفہ گفتگو اختتام کو پہنچتی تو جنرل فقط یہ کہتے: Sir I dont agree with you سبکدوشی کے بعد مائیکل ملن نے جنرل کے خلاف ایک توہین آمیز بیان جاری کیا۔ یہ ناکامی کا اعلان تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے واپسی کا فیصلہ کیا کہ سو بلین ڈالر سالانہ ضائع اور کامیابی کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ پاکستان نے اس شرط پہ تعاون کا وعدہ کیا کہ بھارت کا اب کوئی کردار نہ ہوگا؛چنانچہ افغانستان سے بوریا بستر برہمن سمیٹ رہا ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
ایران سے خوشخبری اچانک آئی۔ تہران کو امریکہ نے لقمہ تر سمجھ لیا تھا۔ برسوں کی ریاضت سے ایٹمی پروگرام پر ہونے والا سمجھوتہ یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ یہ امریکی تاریخ کی عظیم ترین غلطیوں میں سے ایک تھی۔ چین آگے بڑھا اور اس نے ایران میں چار سو بلین ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی۔ امریکی اب ہاتھ مل رہے ہیں۔ عربوں سے کہا ہے کہ امارات سے ممبئی تک زیرِ بحر دو ہزار کلومیٹر لمبی ریل بچھائیں۔ ابتدائی تیاریوں کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ ثانیاً اس کی تکمیل بیس پچیس برس سے پہلے ممکن نہ ہوگی۔ لازم نہیں کہ تب تک یہی لوگ اقتدار میں رہیں۔ کشمیر میں ہولناک مظالم اور بھارتی مسلمانوں سے پرلے درجے کی بدسلوکی پر عالمِ عرب میں ردّعمل بڑھتا جائے گا۔ عوامی احساسات آخر کار ثمر بار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کمیونزم کے خلاف روس اور چین میں۔ جہاں کمیونسٹ پارٹیوں کے منصب داروں نے اپنی جنتیں آباد کر رکھی تھیں۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن تھی۔
پسپائی ایک ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے والے ہٹتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک کے بعد عرب اسرائیل کی دوسری شرط مانیں گے تو وہ معاملات میں دخیل ہوتا جائے گا۔
شام کا بحران ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل اور عربوں کو ترکیہ سے بھڑا دیا جائے۔ ساز و سامان کتنا ہی کیوں نہ ہو، ان سب کی مسلح افواج مل کر بھی ترکیہ کو آسانی سے ہرا نہیں سکتیں۔ ترک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ عالمِ اسلام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوں گی۔ چین اس صورتِ حال پر خاموش نہیں رہے گا۔ ادھر پاکستان کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوگا کہ اعلانیہ نہیں تو خاموشی کے ساتھ ترکوں سے تعاون کرے۔
برسبیلِ تذکرہ 1980ء کے عشرے میں ترکیہ ایٹم بم بنانے کا آرزومند تھا۔ ایک سے زیادہ بار ترک وفود پاکستان آئے۔ ضیاء الحق ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتے۔ جانتے تھے کہ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔ اگر یہ دروازہ کھولا تو خطرات بہت بڑھ جائیں گے۔ ان کے لیے ضیافتیں تو بہت شاندار ہوتیں لیکن وعدہ فردا پہ ٹرخا دیا جاتا۔
چین امریکی مخاصمت دونوں ملکوں کو سفارتی اور اقتصادی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حال ہی میں وزیرِ خارجہ پومپیو نے ایک ایسی تقریر کی، جس کا لہجہ نہایت جارحانہ تھا۔ مغرب چینی معیشت کو زخم لگا سکتا ہے لیکن خود اسے بھی نقصان پہنچے گا۔ عربوں کو کمزور پا کر اسرائیل نے اپنی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ حجاز مقدس کا رخ کیا توپاکستان اور ترکیہ کے لیے اقدام کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ پورے کا پورا عالم اسلام ان کی پشت پر کھڑا ہوگا۔ اسرائیل عربوں سے جیت سکتا ہے لیکن ترک اور پاکستانی افواج سے نہیں۔
تازہ ترین یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے چار ماہ سے بھارتی سفیر کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ چین اور پاکستان سے مراسم بہتر ہو رہے ہیں۔ تاریخی تبدیلی کے راستے پر دنیا چل نکلی ہے۔ مغرب کیسی ہی کوشش کرے، اس تبدیلی کو روک نہیں سکتا۔ یہ تقدیر کا لکھا ہے اور تقدیر کو کون ٹال سکتاہے۔