سوالات
اس سوال کا جواب اپوزیشن نے دے دیا کہ اس کی منزل کیا ہے۔ بہت سے سوالات مگر پیدا بھی کردیے۔ ان پر بات ہوتی رہے گی۔
اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں، سب سے زیادہ تعجب خیز بات کیا تھی۔ یہ کہ مولانا فضل الرحمن کی تقریر پیپلز پارٹی نے براہ راست نشر نہ ہونے دی؟ کیا یہ کہ میاں محمد شہباز شریف کو اپنے اصل موقف کے برعکس بات کرنا پڑی۔ اداکاری کرنا پڑی؟
ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے، اس ناچیز کو ملال اور تعجب اس پر ہوا کہ کشمیر میں قتل عام اور بھارتی مسلمانوں کے باب میں شقاوت قلبی کا ذکر تک کسی رہنما نے فرمایا نہیں۔ اس طرح کہ جیسے کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی حکومت کو "سقوط کشمیر" کا ذمہ دار قرار دیا۔ اندازہ اگر درست ہے تو یہ مولانا کی تراشی ہوئی اصطلاح ہے۔ مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ کہ عمران حکومت کی کشمیر پالیسی درست نہیں۔ انہی کی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی بھی۔ کشمیر میں بھارت کے بے رحمانہ اور سفاک اقدامات کے خلاف مسلسل جو واویلا انہیں کرنا چاہیے تھا، اس کا حق وہ ادا نہ کر سکے۔ اپوزیشن نے مگر کیا کیا؟ سیاسی پارٹیوں کی حیثیت سے ہر سطح پر جو کردار وہ ادا کر سکتی تھیں، اس کا عشیر عشیر بھی کرنے کی کوشش کی؟ ۔ رہے مولانا فضل الرحمن تو ان کا موقف ریکارڈ پر موجود ہے کہ کشمیرمیں مزاحمت کو جہاد وہ مانتے ہی نہیں۔ دلیل انہوں نے کوئی نہ دی۔ فقط یہ فرمایا کہ جہاد افغانستان میں ہو رہا ہے، کشمیر میں نہیں۔ ان کے ارشاد سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے حریت پسند، ان کے مکتب فکر سے وابستہ ہیں؟ چنانچہ معتبر اور حق بجانب۔ کشمیری چونکہ دوسرے نقطہ ہائے نظر کے لوگ ہیں؟ چنانچہ راندہ درگاہ۔
فوراً بعد 2008ء کے الیکشن ہوئے اور یاللعجب وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنا دیے گئے۔ اول آصف علی زرداری اور پھر نواز شریف کی حکومت میں دس برس تک مولانا اس کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ اس حیثیت میں جو کارہائے نمایاں انہوں نے انجام دیے، ان پر روشنی ڈالنے کی شاید کوئی ضرورت نہیں۔ خود جناب زرداری اور محترم نواز شریف کو بھی جہاد کشمیر سے جو شغف تھا، وہ خوب آشکار ہے۔
زرداری صاحب نے ارشاد کیا تھا: عمر فاروق اور محبوبہ مفتی، کشمیر میں مستقبل کے لیڈر ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اس سے بھی ایک قدم آگے چلے گئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی مرتکب بھارتی قیادت سے ذاتی مراسم استوار کئے۔ حتیٰ کہ اپنے ہاں شادی کی ایک تقریب میں نریندر مودی کے ساتھ اجیت دوول کا بھی خیر مقدم کیا۔ اس دن کی تقریب میں میاں صاحب سمیت، شریف خاندان کے تمام مرد بھارتی پگڑیاں پہنے تھے۔ ان راجستھانی پگڑیوں کے ساتھ، مودی اور ان کے ساتھیوں کا انہوں نے خیر مقدم کیا۔ تقریب کے شرکاء میں سے ایک نے مجھے بتایا:جاتی امرا کے محل میں میں داخل ہوا تو مجھے لگا کہ یہ کرایے کے کوئی فنکار ہیں، مسرت کی تقریبات میں جو بلائے کیے جاتے ہیں۔ بھارتی پگڑیاں پہنے، شریف خاندان کے دلاوروں کی تصاویر محفوظ ہیں۔ فرمائش پرڈھونڈ کر شائع کی جا سکتی ہیں۔ میاں صاحب کے ترجیحی منصوبوں میں سے ایک یہ تھا کہ کابل سے پرے، لوہے کے خزانوں تک ریلوے لائن بچھا دی جائے۔ یہ لوہا پاکستان میں برتا جائے اور بھارتی سٹیل کنگ متل کو بھی فراہم کیا جائے۔ پاک فوج کے وہ جنرل دو برس پہلے سبکدوش ہو چکے جو اس منصوبے کے مجھ سے زیادہ آشنا ہیں۔ پاک فوج کے انجینئروں نے اس پروگرام میں 80عدد خامیوں کی نشاندہی کی۔ وزیر اعظم کی نگرانی میں، جس کے خدوخال مرتب ہوئے تھے۔ جنرل صاحب کے بقول فوجی وفد کی میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ بولے:
"اصل بات یہ ہے کہ آپ یہ کام کرنا ہی نہیں چاہتے" جواب ملا: جی ہاں، آپ بالکل ٹھیک سمجھے۔ بھارت کے لیے اربوں روپے ہم کیوں ضائع کریں۔ یہ نریندر مودی کے جشنِ تاجپوشی کا موقع تھا۔ قصاب مودی نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو فون کیا توفوراً ہی شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اعلان مگر یہ کیا کہ مشورے کے بعد فیصلہ کریں گے۔ ان سے کہا گیا کہ دہلی تشریف لے جانے کا کوئی فائدہ ملک کو نہیں۔ اگر وہ فیصلہ کر چکے تو دیر تک قیام نہ فرمائیں۔ اسی روز لوٹ آئیں۔
دو دن عالی جناب ہندوستان میں تشریف فرما رہے۔ سٹیل کنگ متل کے ہاں تو صاحبزادے کے ساتھ خود تشریف لے گئے۔ میڈیا کی پاک دشمن شخصیات سمیت کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ قاعدے کے مطابق ہائی کمیشن کو اطلاع دینا تھی۔ اس قانون کو میاں صاحب نے تکلف قرار دے کر گریز کیا۔ بھارتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے میاں صاحب کے ملاقاتیوں میں سے ایک کچھ دن بعد اسلام آباد پہنچے۔ پیمرا کے چئیرمین رشید چوہدری کو شرفِ ملاقات بخشا۔ کمال بے تکلفی سے فرمایا:پاکستان میں اپنا چینل میں شروع کرنا چاہتا ہوں۔ وزیرِ اعظم سے میری بات ہو چکی۔ ضروری کام جلد از جلد نمٹا دیجیے۔ رشید چوہدری ہکّا بکّا رہ گئے۔ کہا کہ اس طرح کے معاملات دو طرفہ ہوتے ہیں۔ قاعدے قانون کو دیکھنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ وزیرِ اعظم نے مجھے تو کوئی حکم دیا نہیں۔ کچھ دن بعد رشید چوہدری اپنے منصب سے الگ کر دیے گئے۔
جمہوریت کی بحالی اور شفاف الیکشن کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ زمانہ گزرا کہ ملک میں آزاد الیکشن نہیں ہوئے۔ ہر بار کسی نہ کسی فریق کو درپردہ یا کھلی حمایت حاصل رہی۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن کوئی تحریک برپا کرے تو حق بجانب ہوگی۔ اگر وہ اپنے حامیوں کو میدان میں اتار سکے۔ مہینوں اگر وہ ڈٹے رہیں تو تازہ الیکشن کے لیے فضا ہموار ہو سکتی ہے۔ کسی آزاد مبصر کو تحریک سے اختلاف نہ ہونا چاہئیے۔ کچھ تحفظات ضرور ہوں گے۔ بیمار معیشت میں پہلی بار صحت مندی کے آثار ہیں۔ ٹیکسٹائل اور کنسٹرکشن انڈسٹری میں۔ اس کا کیا ہو گا؟
کچھ سوالات مگر اور بھی ہیں۔ مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ انتخابی عمل سے الگ کیسے ہو سکتی ہے۔ پنجاب ہی نہیں، پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں امن و امان کی ضمانت کون دے گا۔ خاص طور پر سندھ، جہاں "را" کا نیٹ ورک اب بھی موثر ہے۔ جہاں سے قبضے اور بھتہ گیری سے چار کروڑ روپے ماہوار اب بھی الطاف حسین کو پہنچتے ہیں۔ بھارتی یا مغربی کارندے الطاف حسین کو، جو سولہ ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ برطانوی نظامِ عدل اس کے باب میں بے بس ہے اور سب جانتے ہیں کہ کیوں بے بس ہے۔
اس سوال کا جواب اپوزیشن نے دے دیا کہ اس کی منزل کیا ہے۔ بہت سے سوالات مگر پیدا بھی کردیے۔ ان پر بات ہوتی رہے گی۔