لئے پھرتا ہے دریا ہم کو!
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ مدتوں سے سوئے پڑے ہیں۔ جاگتے ہیں تو باہم الجھتے ہیں اور الجھتے ہی رہتے ہیں۔ قائدِ اعظم اور اقبال ؔ جیسے عدیم النظیر لیڈروں کو سموچا نگل گئے۔ اقبالؔ جس نے کہا تھا
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
دوطرح کے طرزِ عمل ہیں۔ آدمی زندگی بسر کرتاہے اسے زندگی بسر کر دیتی ہے۔ جوشؔ نے کہاتھا: جینا نہیں، وہ جینے کی نقل ہے۔
آسٹریلیا کی نرس Bronnie wareکی کتاب Five top regrets of dyingمیں مرنے والوں کے محسوسات بیان کیے گئے ہیں۔ جب سوال کیا جاتا تو ان میں سے اکثر تاسف کا اظہار کرتے:کاش انہوں نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے ہوتے۔ ، خود کو معاشرے کے دباؤاور رسم و رواج کی نذر نہ کر دیتے۔ ہمہ وقت یہ خیال رکھنے کی بجائے کہ ماحول کا تقاضا کیا ہے، اردگرد کے لوگ کیا چاہتے ہیں، وہ اپنے ضمیر اور قوتِ فیصلہ کو بروئے کار لاتے۔ اپنی ترجیحات خود طے کرتے۔ زندگی کی ساری بشاشت اور سب امکانات انہوں نے وقت اور زمانے کی نذر کر دیے۔
مہاتیر محمد نے کشمیر پر ایک بار پھر نعرہء مستانہ بلند کیا ہے۔ بھارت کے سفاک اور متعصب حکمرانوں کے لیے انہوں نے بدمعاش کا لفظ استعمال کیا، پاکستانی لیڈر بھی جس کی جرات اور جسارت نہیں کرتے۔ مہاتیر نے کہا:بھارت بدمعاشی چھوڑدے اور ایک مہذب ملک کی طرح سامنے آئے۔ کپتان نے شکریہ ادا کیا ہے لیکن یہ امکان کم ہے کہ ہم مہاتیر کے راستے پر چلیں۔ ریاضت، مشقت اور منصوبہ بندی سے اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوں۔ جب مہاتیر نے اقتدار سنبھالاتو ملائیشیا غریب ملکوں میں سے ایک تھا۔ ربڑ اور پام آئل کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ غلامی کے مہ وسال اور ایک منقسم قوم۔ دولت چینیوں کے پاس تھی، جیسا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھ میں۔ عام آدمی افلاس میں سسک رہا تھا اور اس کے لیے کوئی نوید نہ تھی۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مہاتیر محمد سے عمران خاں کی ملاقات ایک عالمی کانفرنس میں ہوئی۔ اسی زمانے میں بزرگ مدبر نے کہا تھا: ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر عمران جیسا کوئی حکمران ہو۔ جیسے پرسوں فرانسیسی صدر میکروں نے کہا کہ تباہ حال لبنان کی مدد کے لیے وہ تیار ہیں مگر بدعنوان لوگوں کو نہیں دیں گے۔ آٹھ نو برس پہلے سعودیوں نے جنرل کیانی سے کہا تھا کہ ایک بلین ڈالر وہ پاکستان کو دینے پر آمادہ ہیں۔ اپنی نگرانی میں خرچ کریں۔ جنرل نے معذرت کر لی۔ انہی دنوں اسی شرط پر قبائلی علاقے کے لیے ہیلری کلنٹن نے دو سو ملین ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ ان کی بات جنرل نے مان لی مگر ایک شرط کے ساتھ: منصوبہ پختون خوا کی حکومت بنائے گی۔ ایک مشیر اور نگران کا کردار ادا کروں گا۔ پھر ایک نادر تجویز انہیں سوجھی۔ سات سو کلومیٹر لمبی سڑک کے مزدوروں کو دوگنی اجرت دی جائے گی۔ عرض کیا، اس میں کیا مصلحت ہے؟ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں انہوں نے کہا: ڈیڑھ دو سال میں ایک مستقل مزاج مزدور اتنا روپیہ جمع کر لے گا کہ چاہے تو چھوٹا موٹا کاروبار کر سکے۔ اب خیال آتا ہے کہ غور و فکر کرنے والے پرعزم لوگ ہی دنیا کو بدلتے ہیں۔ حالات کے بہاؤمیں بہنے والے نہیں، احمد مشتاق نے کہا تھا
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
قبائلی نفسیات کو جنرل جانتا تھا۔ جانتا تھا کہ صدیوں کی غربت اور جبر کے مارے یہ لوگ کفایت شعار اور سخت جان ہوتے ہیں لیکن زندگی موقع دے تو اٹھ کھڑے ہوتے اور جت جاتے ہیں۔ اس موضوع پر شاید ہی ڈھنگ کا کبھی کچھ لکھا گیا ہو کہ عام پاکستانیوں میں سے ہمارے پشتون بھائی، سب سے بڑی تعداد میں افلاس میں سے نکلے ہیں۔
کامیابی کا یہی ایک راستہ ہے۔ برسبیلِ تذکرہ سوشل میڈیا پر جنرل کیانی کے خلاف مہم ایک بار پھر تیز و تند ہے۔ ایک دو ارب سے بڑھتے بڑھتے آسٹریلیا میں، ان کے "ملکیتی جزیرے"کی قیمت 1600ارب روپے ہو چکی۔ پہلی بار یہ خبر 2014ء کے اوائل میں چھپی تھی۔ یہ کہ آسٹریلیا جاتے ہوئے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر انہیں روک دیا گیا۔ جنرل راحیل شریف کو اس ناچیز نے پیغام بھیجا کہ ازراہِ کرم وہ تردید کریں۔ آسٹریلیا کا قصد تو دور کی بات ہے، جنرل نے ویزے کی درخواست تک نہیں دی تھی۔ وہاں ان کا کچھ نہیں رکھا۔ ان کے بھائی کاروبار میں ضرور تھے۔ ممکن ہے، کچھ اونچ نیچ بھی ہوئی ہو مگر جنرل کا قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک موثر عدالتی نظام ہوتا تو دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو گیا ہوتا۔ عدالتی نظام کی مگر کس کو فکر ہے۔ نعرے بازی ہے اور فقط نعرے بازی۔
اقتدار کی ہولناک جنگ کے علاوہ سیاستدان جس میں الجھے رہتے ہیں، پانچ ادارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ سول سروس، پولیس، پٹوار، ناقص عدالتی نظام اور سب سے بڑھ کر ایف بی آر۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا: کم از کم پانچ سو ارب روپے ایف بی آر والے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ رشوت میں پانچ سات سو ارب وصول کرنے والے ٹیکس دہندگان کو تین چار ہزار ارب روپے کی رعایت دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ ہزاروں ارب کے کرنسی نوٹ چھاپے جاتے ہیں لیکن ایف بی آر پہ ہاتھ ڈالنے کی جرات کسی میں نہیں۔ کسی کو سول سروس، پولیس، عدلیہ اور پٹوار کو سدھارنے کی فکر نہیں۔ ان عظیم لیڈروں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں، فدائین جن پہ قربان ہوتے ہیں۔ ایک ذرا سی تنقید ان پر کی جائے تو دشنام کا طوفان اٹھتا ہے۔
پندرہ برس ہوتے ہیں، عمران خاں ملائیشیا میں مہاتیر محمد سے ملے۔ پھر انہیں اسلام آباد مدعو کیا۔ اپنی خوبصورت رہائش گاہ پر مہاتیر نے عمران خاں سے کہا: ترقی صرف صنعت کاری سے ممکن ہے۔ بولے: ہم نے الیکٹرانکس کے پرزے جوڑنے (assembling) سے آغاز کیا تھا۔ پھر دو عشرے پر پھیلی معاشی ارتقا کی تفصیل بیان کی۔ عمران خاں نے کہا "اور ایک اچھا عدالتی نظام؟ " انہوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا: ہاں ظاہر ہے، عدالتی نظام بھی۔
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ مدتوں سے سوئے پڑے ہیں۔ جاگتے ہیں تو باہم الجھتے ہیں اور الجھتے ہی رہتے ہیں۔ قائدِ اعظم اور اقبالؔ جیسے عدیم النظیر لیڈروں کو سموچا نگل گئے۔ اقبالؔ جس نے کہا تھا
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو