کچھ علاج اس کا بھی
وزیر اعظم سے التجا ہی کی جا سکتی ہے کہ اپنی ذات اور ذاتی ترجیحات کے خول سے باہر نکلیں۔ براہ کرم بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش بھی کیجیے:
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
اسلام آباد کے افق سے آنے والی اکثر اطلاعات یہ ہیں کہ جناب وزیر اعظم نے بالآخر تن کر کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آنے والے مہ و روز اپوزیشن کے لئے بھاری ہوں گے۔ شریف اور زرداری خاندان کے علاوہ بھی نام لے لے کر گنوائے جا رہے ہیں کہ کس کس پہ عتاب نازل ہونے والا ہے۔ ایسے میں میر صاحب یاد آتے ہیں کہ
کن نیندوں محوِ خواب ہے اے چشمِ گریہ ناب
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
روشنیوں کا شہر ڈوب گیا۔ ایک نہیں کئی بار۔ سرجانی ٹائون سے 80فیصد لوگ ہجرت کر گئے۔ کئی علاقوں میں لوگ چھتوں پر پناہ گزین ہیں۔ اس بات کی ذرا سی رعایت کی جا سکتی ہے کہ ابر اب کے برسا ہی بہت ہے۔ مگر یہ بھی ہے کہ محکمہ موسمیات نے پہلے سے اعلان کر رکھا تھا۔ سندھ حکومت نے پرواہ ہی نہ کی۔
امید کا آنگن فرسودہ وعدوں کی چھتیں کمزور بہت
اور اس پر ہجر کے موسم میں برسی ہے گھٹا گھنگور بہت
بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ الزام تراشی کی بجائے عذاب کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ دلائل تراشنے میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے سعید غنی کا فرمان یہ ہے:کچھ بھی تو نہیں۔ بڑی شاہراہیں صاف کر دی گئی ہیں باقی بھی ہو جائیں گی۔ صبر سے کام لو بھائی۔ شرمیلا فاروقی کا ارشاد یہ ہے: مرکز نے کراچی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ حالات کے رحم و کرم پر؟ شتابی سے فوجی دستے مدد کو پہنچے ہیں، جانیں بچا رہے ہیں۔ محفوظ مقامات پر خاندانوں کو منتقل کر رہے ہیں۔ ہاں!یہ ضرور ہے کہ وزیر اعظم کو خود کراچی جانا چاہیے۔ اس لئے کہ دو کروڑ پاکستانی ابتلا کا شکار ہیں۔ اس لئے بھی کہ کراچی چھوٹا پاکستان ہے۔ معاشی طور پر ملک کا دل و دماغ۔ تیس چالیس برس میں کن کن کڑے امتحانوں سے یہ لوگ گزرے ہیں۔ بوری بند لاشیں، قتل عام، فساد ہی فساد۔ ایم کیو ایم والے روتے بہت ہیں۔ آخری پریس کانفرنس میں وسیم اختر آبدیدہ ہو گئے۔ کاغذ اٹھا کر پھینک دیے۔ ان خطوط کا انبار جو صدر، وزیر اعظم، سپہ سالار، گورنر اور وزیر اعلیٰ کو لکھے گئے۔ مگر وہ بھول گئے کہ 1995ء میں قاتلوں کا گھیرا تنگ کرنے والے 200پولیس افسروں میں سے ایک ایک کو قتل کیا جا رہا تھا۔ میڈیا کو یرغمال بنا رکھا تھا تو وہ سب قاتل الطاف حسین کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہی الطاف حسین، جو اب بھی باز نہیں آئے۔ سندھ اور بلوچستان کے انتہا پسندوں سے اتحاد قائم کر رہے ہیں۔ غیر ملکیوں کا تحفظ اور تائید اب بھی انہیں حاصل ہے۔
کاش کہ کراچی کے مکینوں نے کچھ ادراک کیا ہوتا۔ اس شخص سے نجات پانے کی فکر کرتے۔ بالکل برعکس، انہوں نے خودکودوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ عالم یہ تھا کہ
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
شہر کی بربادی میں ایم کیو ایم کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ لیکن اب پیپلز پارٹی کا، کہ بلا شرکت غیر، اقتدار اس کے ہاتھ میں ہے۔ پہلے سے انتظام کیا ہوتا تو ایسی تباہی بہرحال نہ ہوتی؛اگرچہ نقصان پھر بھی ہوتا کہ عناصر فطرت پہ کسی کا بس نہیں چلتا۔
بجلیاں ہیں، زلزلے ہیں، قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
بہ ایں ہمہ مرکزی حکومت کو اس سے زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی، جیسی اور جتنی کہ اس نے کی۔ کراچی شہر کی اکثریت نے اعتماد کا اظہار اب کی بار تحریک انصاف پر کیا ہے۔ عمران خان توجہ دیتے تو کچھ اور بھی سازو سامان بہم پہنچتا۔ اس دیار کے مکین، دوسرے خطے کی ابتلا، تھر کے قحط اور کشمیر کے زلزلے میں سب سے زیادہ ایثار کرتے ہیں، تو خود اپنے گھر کے لئے کیوں نہ کرتے۔ معلوم سبھی کو تھا کہ طوفان اٹھنے والا ہے۔ کسی ایک نے بھی کمر نہ باندھی۔ پانی سر سے گزر گیا تو بھی اندمال سے زیادہ خطابت پہ توجہ مرکوز رکھی۔ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح، کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا۔ لے دے کر ایک فوج ہے، جس نے حق ادا کرنے کی کوشش کی، اس سے بھی بڑھ کے کرنی چاہیے۔ بحریہ کی اعانت بھی حاصل کی جائے۔
ایک دن میں نہیں۔ عذاب برسوں بلکہ عشروں کی غفلت کا ثمر ہے۔ وہ قیامتیں جو گزر گئیں، تھیں امانتیں کئی سال کی۔ کراچی بھارت کا ہدف تھا۔ پاکستان کا قلب۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے آخری دنوں اور پھر سول حکومتوں کے ابتدائی برسوں میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ، بھارت سے کراچی منتقل ہوئے۔ وہ دبئی کا ویزہ لگواتے، کراچی میں عارضی قیام، ٹرانزٹ Transitکا، اور پھر یہیں جم جاتے۔ جب تک میجر عامر نے سراغ لگایا بہت دیر ہو چکی تھی۔ جانچ پڑتال اس کے باوجود کی جا سکتی تھی۔ خطرہ کم ہو جاتا مگر سب کے سب لمبی تان کر سوئے رہے۔ افغانستان، برما اور بنگال کے مہاجرین، اس کے سوا ہیں۔ اوّل اوّل عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ کوائف کا جائزہ لے کر شہریت دے دی جائے گی۔ چودھری شجاعت نے بہت پہلے توجہ دلائی تھی۔ شہریت نہیں تو کم از کم شناخت کی دستاویزات ہی جاری کی جاتیں۔ ان کی مگر کسی نے سنی نہیں۔ سیاست روایتی ہے مگر اس نوع کے معاملات میں رائے ان کی صائب ہوتی ہے۔ باقاعدہ شہری اگر بنائے جائیں اور ظاہر ہے کہ سوچ سمجھ کر، تو بتدریج دستاویزی معیشت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ شہریوں کی حیثیت سے کچھ نہ کچھ احساس ذمہ داری بھی ہو گا۔
کتنی ہی اقوام بھیانک امتحانوں سے گزری ہیں۔ عالمگیر جنگ کی تباہیاں۔ مشرقی جرمنی اور پولینڈ ایسے ممالک پر سفاک روس کا قبضہ۔ کوریا کی تباہی، کمیونزم میں چین کا افلاس، ہر مرض کا مگر علاج ہوتا ہے۔ عزم مسلسل اور منصوبہ بندی سے۔ ایک دوسرے پر چیخنے چلانے اور گریہ کرنے سے زخم مندمل نہیں ہوتے۔
بدقسمتی سے وزیر اعظم کو ایک ہی فکر لاحق ہے، اپوزیشن کا انسداد۔ یہی کہ کرپشن بہت ہوئی۔ پاکستانی عوام کی زندگی میں لیکن کچھ اور غم بھی ہیں۔ شکر کی قیمت سو روپے کلو سے زیادہ ہو گئی۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج نے کہا کہ روٹی بیس روپے تک بکنے لگی۔ رشوت کا وہی دور دورہ ہے۔ مراعات کے باوجود کاروباری طبقہ سرمایہ کاری کو مائل نہیں۔ اسرائیل، افغانستان اور سی پیک کے حوالے سے بین الاقوامی دبائو اس کے سوا ہے۔
وزیر اعظم سے التجا ہی کی جا سکتی ہے کہ اپنی ذات اور ذاتی ترجیحات کے خول سے باہر نکلیں۔ براہ کرم بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش بھی کیجیے:
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں