Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Haroon Ur Rasheed
  3. Kaar e Musalsal

Kaar e Musalsal

کارِ مسلسل

پوچھا کہ کیا عبادت سے اور تسبیحات سے آدمی بدل جاتا ہے۔ فرمایا: بلکہ غورو فکر سے، توجہات اور کوشش سے۔ فریب ہائے نفس کے ادراک سے اور یہ کار مسلسل ہے۔

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ جس میں ہم

ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

اشفاق احمد خان نے فیض احمد فیضؔ کو جب صوفی قرار دیا تو ان کی مراد کیا تھی؟ کچھ بھی نہیں۔ شاعر اور ادیب، الفاظ کے استعمال میں طبعاً سخی ہوتے ہیں۔ صوفی نہیں، فیضؔ ایک رند تھے۔ اردو شاعری کے آسمان پر جگمگاتا ماہتاب۔

خود اشفاق احمد بھی خوب لکھتے بلکہ کبھی تو سحر انگیز، بلا کا حافظہ رکھنے اور ابلاغ کرنے والے۔ لفظ ان کے ہاتھ میں موم کی طرح پگھل جاتے۔ اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور حنیف رامے ایک بزرگ کے ہاں جایا کرتے۔ اشفاق احمد نے ان کا ذکر بارہا کیا۔ سادہ سے آدمی تھے، نیک طینت، خوش اطوار، عبادت گزار۔ ایک رومان پسند جو زمین کی بجائے، اپنی مسرت آسمان میں تلاش کرتا ہے۔ وہ، جسے نیک آدمی کہا جاتا ہے۔ خالق کی طرف متوجہ اور مخلوق سے محبت کرنے والا درویش۔

عارف ایک اور آدمی ہوتا ہے۔ کتاب یہ کہتی ہے: وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ صاحبانِ سکر میں نہیں، وہ اہلِ صحو میں ہوتا ہے۔ فرمایا: درجات علم کے ساتھ ہیں۔ فرمایا: عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے افضل ہے۔

بنیاد حسن نِیّت پہ ہوتی ہے۔ اشفاق احمد خان نے عارف سے پوچھا: کیا میں صوفی بن سکتا ہوں؟ جواب یہ تھا: اس عمر میں، اتنی بڑی انا کے ساتھ؟ مناسب عمر میں، ایک حتمی فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے۔"پھر میں کیا بن سکتا ہوں؟"۔ انہوں نے پوچھا۔ کہا: ایک اچھّے مسلمان!

تو کیا ایک صوفی، اس کے سوا ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر؟ دنیا سے کنارہ کش؟ جی نہیں، تنہا، مگر مخلوقِ خدا کے درمیان۔ شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق۔ جنیدِ بغداد ؒ کا ارشاد یہ ہے: دنیا کو دل کے دروازے پر بٹھا رکھا ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہو، ہاتھ بڑھا کے لے لیتے ہیں، دل میں داخل ہونے کی اسے اجازت نہیں۔

بندگان خدا سے وہ الگ نہیں ہو سکتا۔ تاریخ اسلام کے عظیم ترین عارفوں میں سے ایک امام شاذلیؒ نے طنزاً کہا تھا:"صوفی"بازار نہیں جاتا، وہ سوچتا ہے، لوگ کہیں گے، درویش بازار میں گھوم رہا ہے۔ بیوی کو ساتھ لے کر نہیں چلتا۔ وہ سوچتا ہے کہ لوگ کہیں گے، اس کے توبیوی، بچے ہیں۔

پچیس برس پہلے، مکّہ مکرمہ میں، پہلی بار، جب ایک درویش سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا "دست بکار، دل بہ یار۔" ہاتھ کار ِدنیا میں مصروف اور دل پروردگار کے ساتھ۔ زمین پر ہی وہ بستا ہے۔ مولانا روم کو بانسری کی لے میں دوست کی آواز سنائی دی تھی۔ صوفی دوسروں کی طرح کھاتا پیتا، رہتا سہتا ہے۔ زندگی کو مگر بلندی سے دیکھتا ہے۔ مجدّد کی تعریف یہ کی گئی: ماضی کو سمجھتا ہو' حال کو منوّر کرے اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جائے۔ ممتاز مفتی نے عارف سے کہا: اللہ کی گود میں ہم بیٹھے تھے، آپ نے ہمیں فرشِ خاک پہ لا بٹھایا۔ درویش یہی کرتا ہے۔ فرشِ خاک پہ خود بیٹھتا ہے، پھر دوسروں کو بٹھاتا ہے۔

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

سواں ندی کے پتھر سے کہا گیا: کیسے گول مٹول ہو۔ اس نے کہا: ٹھوکریں بھی تو بہت کھائی ہیں۔ فرق یہی ہے۔ بے جان پتھر حالات کے حوالے مگر اللہ کا بندہ، اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔ اپنے آپ کو وہ خود سنوارتا ہے۔ ہر ممکن رعایت دوسروں کو دے سکتاہے، خود کو کبھی نہیں۔ ملّا اور صوفی کا فرق یہی ہے۔ اپنے سوا، ملّا ساری دنیا کی اصلاح کا آرزو مند ہوتا ہے۔ اسی للک میں وہ جیتا اور اسی للک میں دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس نجیب، سفید ریش عالم کو میں نے دیکھا، 75 برس کی عمر میں، آنکھوں میں گزرے زمانوں کی دھول۔ حیرت سے میں نے سوچا: عمر بھر کی کمائی کیا بس اتنی ہی؟ ماندگی ہی ماندگی، Depression۔

صوفی کا دامن لبریز ہے۔ وہ بانٹتا ہے اور بانٹتا رہتا ہے۔ اس کا خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کا نہیں، یہ پروردگار کا خزانہ ہے، اپنا اس کا کچھ بھی نہیں؟ وہ جانتا ہے کہ ذاتی وصف، نہ کوئی ذاتی کارنامہ، سبھی کچھ مالک کی عطا۔ آخر شب جاگتا ہے لیکن ذکر تک نہیں کرتا۔ اس کا باطن، اس کے ظاہر سے بہتر ہوتا ہے، ریاکاری سے پاک۔

قلندر جزو دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

حقیقت یہ ہے کہ ملّا تو لغت ہائے حجازی سے بھی آشنا نہیں۔ وہ ایک چھوٹی سی دنیا میں جیتا ہے۔ ایک مدرسہ، ایک مکتب فکراور تقلید۔ قوتِ فکر کو اوائل عمر ہی میں اس کے اساتذہ سلا دیتے ہیں۔

اس قدر پڑھے لکھے لوگ، ڈاکٹر، انجینئر، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے استاد، مصنف اور مفّکر، سالہا سال اتنی سادہ سی بات کیوں نہ سمجھ سکے کہ مساجد، مزارات اور مارکیٹوں میں بے گناہوں کے چیتھڑے اڑانے والوں کا کوئی رشتہ رحمۃ اللعالمینؐ سے ہو نہیں سکتا۔ قدیم چینیوں کی طرح، جو اپنی خواتین کو خوش قدم رکھنے کے لیے ان کے پاؤں میں لوہے کے جوتے پہنایا کرتے، مولوی صاحبان سروں کو پہناتے ہیں۔ تازہ ہوا کے ایک جھونکے سے بھی خوف زدہ۔ قدیم قبائلی زمانوں میں وہ جیتے ہیں۔ بندگانِ خدا سے بھی، ان کا مطالبہ یہی رہتا ہے مگر اللہ کے بندے گزرے ہوئے کل میں کیسے جی سکتے ہیں؟

سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی

فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی

سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے کہا تھا: جس سنت کو اہلِ فسق اختیار کر لیں، اس کا ترک، اس کے اختیار سے بہتر ہے۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ جو تصوف پابندِ شریعت نہیں، وہ زندیق تو پیدا کر سکتا ہے، مگر صدیق نہیں۔

مولوی صاحب کہتے ہیں: اللہ سے ڈرو۔ صوفی نے کہا: میں تو بالکل نہیں ڈرتا، اس سے محبت کرتا ہوں۔ خوف تو تھانیدار کا مار ڈالے، اللہ کے خوف میں آدمی کیونکر جیتا رہے گا۔"کمال کرتے ہیں آپ، یہ تو قرآن کریم میں لکھا ہے؟ " کہا: بالکل نہیں، کتاب میں رقم یہ ہے "من خافَ مقامَ ربّہ" جو اپنے رب کے سامنے، کھڑا ہونے کے تصور سے چوکنّا رہا۔ اس مہربان رب سے خوف زدہ کیوں ہوا جائے، جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: برا خیال آئے تو وہ چونک اٹھتے ہیں۔

ایک ردھم اور ہم آہنگی شخصیت میں پیدا ہونی چاہیے۔ رفتہ رفتہ، بتدریج۔ کہا: آدمی میں اتنا ہی اضطراب ہوتا ہے جتنا کہ فطرت کے تقاضوں سے وہ دور ہو اور اتنا ہی اطمینان، جتنا اس سے مطابقت۔ کہا: زندگی اتنی تیز رفتار ہرگز نہیں، جتنی کہ دکھائی دیتی ہے۔ اصلاً وہ ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ انسانی جبلتیں کبھی نہیں بدلتیں اور ان کا اندازِ تعامل بھی۔

پوچھا کہ کیا عبادت سے اور تسبیحات سے آدمی بدل جاتا ہے۔ فرمایا: بلکہ غورو فکر سے اور توجہات سے۔ فریب ہائے نفس کے ادراک سے اور یہ کار مسلسل ہے۔

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ جس میں ہم

ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

پسِ تحریر: برادرم منصور آفاق کو داد اس ناچیز نے فقط مدحِ سرکارؐ پہ دی تھی اور اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ نظم ہو یا نثر، نعت میں واقعی ان کا دل دھڑکتا اور ذہن جگمگااٹھتا ہے۔ رہا سیاسی تجزیہ تو وہ انہی کا تجزیہ ہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Chingari Bujhti Nahi

By Gul Bakhshalvi