Saturday, 11 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Lodhran Ki Lawaris Library

Lodhran Ki Lawaris Library

لودھراں کی لاوارث لائبریری

بہت سے لوگوں کے لیے یہ بہت حیران کن ہوگا کہ لودھراں میں آنے والے چند سرکاری عہدیداران جنہوں نے فنون لطیفہ کے لیے خاطر خواہ کام کیا ان میں ضلع بننے سے قبل اسسٹنٹ کمشنر حامد نواز شیخ کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے 1987 سے 1990 کے درمیان متعدد ادبی کانفرنسز منعقد کروائیں۔

سب سے پہلے عالمی محفل مشاعرہ منعقد کروائی گئی جس میں بھارت سے بھی مرد و خواتین شعراء کرام نے شرکت کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سیرت کانفرنس منعقد کروائی جس میں نعتیہ مقابلے کروائے گئے۔ حامد نواز خود بھی اچھے نثر نگار تھے اور انہوں نے لودھراں میں انشائیہ کانفرنس بھی منعقد کروائی جس میں بڑے بڑے نام شامل تھے جس کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر یونس بٹ نے سب سے آخر میں انشائیہ پڑھا تھا۔

اس کے علاوہ محفل موسیقی بھی منعقد کروائی تھی۔ جس میں مہدی حسن نے بھی کلام سنایا تھا۔

یہ تمام محافل سول کلب میں منعقد کی گئی تھیں جس میں ہر خاص و عام نے بغیر ممبرشپ کے شرکت کی تھی۔

اس کے علاوہ اسسٹنٹ کمشنر حافظ جنید اقبال کا نام بھی قابل ذکر ہے جنہوں نے دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ کچہری کے ساتھ ریلوے سٹیشن روڈ پر مسجد تعمیر کروائی تھی جس میں آج بھی لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔

اب آتے ہیں لودھراں کی موجودہ مفلوک الحال لائبریری کی طرف جو پہلے مین روڈ پر ہوتی تھی لیکن پھر اس کی عمدہ موقعے کی جگہ کو دیکھتے ہوئے اس کی جگہ پر مارکیٹ بنا دی گئی اور اسے سول کلب کے پاس علامہ اقبال لائبریری کا نام دے کر منتقل کردیا گیا۔

ضلع بننے کے بعد ڈپٹی کمشنر ثاقب عطیل اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خالد قریشی نے یو ایس ایڈ کی طرف سے پروموشن آف ریڈنگ کلچر کے تحت آٹھ سے دس لاکھ کی مالی امداد لائبریری کو لے کر دی۔ جس سے لائبریری میں فرنیچر، ائیر کنڈیشنرز اور کمپیوٹر رکھا گیا تاکہ لائبریری کی کتب کی فہرست کمپیوٹرائزڈ ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تین سو کتب بھی لائبریری کو دی گئیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ضلعی لائبریری کو پورے ضلع میں مشہور ہونا چاہیے تھا لیکن پھر بدقسمتی سے دوسرا دور علم و ادب دشمن لوگوں کا شروع ہوا جنہوں نے ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کے نام سے موسوم لائبریری کو بمع ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے امراء کی "عیاش گاہ جمخانہ" کے لیے اور "اپنا پیٹ بھرنے" کے لیے منہدم کرکے کرائے کی عمارات میں دفن کردیا۔ اس کا حال دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ اس لائبریری کا حال ہے جس کے لیے یو ایس ایڈ نے لاکھوں روپے کا جدید سامان دیا تھا لیکن اب اس کی خالی الماریاں اپنی زبوں حالی کی داستان سنا رہی ہیں کیونکہ کتب الماریوں کی بجائے میز پر رکھ دی گئی ہیں اور جو چند الماریوں میں موجود ہیں انہیں بس ٹھونسا گیا ہے۔ یہ لائبریری انتظامیہ اور ملازمین کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ سالہاسال سے موجود اس لائبریری میں اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی آپ کو کتب کی فہرست تو چھوڑیے اس میں آنے جانے والے طلباء اور کتابوں کو جاری کرنے کا ریکارڈ نہیں ملے گا۔ یہاں تک کہ اب آپ کو کمپیوٹر اور ائیر کنڈیشنرز بھی نظر نہیں آئیں گے۔ واضح رہے کہ کمپیوٹر میں کتب کی فہرست ڈالنے کے لیے پانچ دس سال نہیں صرف چند دن چاہیے لیکن یہ کام کون کرے؟

دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے لیکن ادھر ابھی بھی ریکارڈز کے لیے متروک رجسٹر استعمال ہورہے ہیں۔

نورتن جو جمخانہ بناکر لودھراں کو لاہور کے برابر لانے کے دعوےٰ کررہے ہیں کبھی وہ لاہور میں موجود بانی پاکستان کے نام سے موسوم قائداعظم لائبریری کو جاکر دیکھیں اور ایک نظر قومی شاعر کے نام سے موسوم علامہ اقبال لائبریری لودھراں کا حال دیکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ علم دوست اور علم دشمن اقدامات میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن "شرم تم کو مگر نہیں آتی" کے مصداق ان بے حسوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

غرضیکہ لودھراں میں علم و ادب کو ہر ممکن ختم کرنے کے کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس علاقے میں کبھی شعور نہ آسکے اور انتظامیہ دونوں ہاتھوں سے پیسے کما سکیں۔ ان تمام واقعات پر علاقے کی عوام کی خاموشی بھی اس چیز کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے تو دور کی بات بولنے کی بھی ہمت نہیں ہے۔

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

Check Also

Shopper

By Rao Manzar Hayat