Saturday, 11 January 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Fauj Aur Smuggling

Fauj Aur Smuggling

فوج اور سمگلنگ

وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بجا طور پرکریڈٹ لیتے ہیں کہ انہوں نے چینی کی سمگلنگ روک دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب چینی سرپلس بھی ہے اورایکسپورٹ ہو کر پچاس کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ بھی دے رہی ہے جبکہ پہلے یہ صرف بحران دیتی تھی۔ ایک سیاسی رہنما کی غلط فہم و فراست کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اینٹی فوج بیانیے کی وجہ سے الزام لگا یاجاتا ہے کہ سرحدوں پر فوج ہوتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ فوج کی ملی بھگت کے بغیر سمگلنگ ہوجائے۔ جو لوگ نہ تفصیلات سے آگاہ ہیں اور نہ ہی جوابی بیانیے سے، وہ اس پروپیگنڈے سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔

میں اعداد و شمار میں بعد میں جاؤں گا، پہلے ایک جٹکی، دلیل کے مقابلے میں ویسی ہی دلیل پیش کروں گا کہ اگر فوج یا نیم فوجی ادارے ہی سمگلنگ میں ملوث ہیں تو وہ صرف افغانستان یا ایران کے سرحدی علاقوں میں سمگلنگ کیوں کرواتے ہیں، یہی ادارے اور ان کے افسر انڈیا اور چین کی ساتھ ملنے والی سرحدوں پر بھی ہیں تو وہاں سے مال کیوں نہیں بناتے؟ مان لیجئے ہزاروں ایسے آئٹمز ہیں جو ایران یا افغانستان کی بجائے انڈیا اور چین سے سمگل ہوکر یہاں کی مارکیٹ میں بڑا پرافٹ دے سکتے ہیں۔

چلیں، کچھ اعداد وشمار دیکھیں، پاکستان کا مجموعی بارڈرتقریبا7303 کلومیٹر طویل ہے، افغانستان کے ساتھ2640 کلومیٹر جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتاہے، ایران پاکستان بارڈر 959 کلومیٹر، چین پاکستان بارڈر 559کلومیٹر اور انڈیا کے ساتھ 3190 کلومیٹر یعنی یہ سب سے طویل۔ پہلے ہم افغانستان کی بات کر لیتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے سرحدی اضلاع میں رہنے والے صدیوں سے سامان کی نقل و حمل میں مصروف ہیں بلکہ یہ کہیں کہ ان علاقوں کے آدھے زیادہ خاندان اسی کاروبار سے وابستہ ہیں، سو وہ اسے سمگلنگ نہیں تجارت کہتے ہیں۔ وہ اسے بند کرنے یا اس پر سختی کے ہرگز حامی نہیں اور یہاں وہ ایک جائز مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ریاست اس تجارت، کو بند کرتی ہے تو وہ شہریوں کومتبادل روزگار دے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اسلام آباد، لاہور یا کراچی میں اس سمگلنگ کو بند کرنے پر پاکستان کی حکومت اور فوج کو سراہتی ہیں انہی کے نچلی تنظیمیں کوئٹہ یا پشاور میں اس کی مخالفت کرتی ہیں مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ افغان ٹریڈ ہماری معیشت کے کئی سو ارب ڈالر کھا جاتی ہے اور اب یہ قابل قبول نہیں ہے۔

میرا موضوع یہ ہے کہ پاک فوج کو اس پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اوراصل بات یہ ہے کہ اس سمگلنگ کے ساتھ جرائم کی دنیا جڑی ہوئی ہے اور اس جرائم کی اس دنیا کو اسی سمگلنگ سے ہر روز کئی سو ارب روپوں کی کمائی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سمگلنگ ختم کرنے کے خلاف ہزاروں لوگوں کے ایسے دھرنوں کے خرچے اٹھا لئے جاتے ہیں جو کئی کئی ماہ تک چلتے ہیں، اسی مقامی طور پر جائز اور ضروریتجارت، کے ساتھ دہشت گردوں کی بھی نقل وحمل ہوجاتی ہے جو ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید کرکے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔

پروپیگنڈے پر مت جائیں بلکہ سوچیں کہ سرحدوں پر موجود ادارے ہی سمگلنگ کے واحد اور بااختیار پلیئر ہوتے تو وہ صرف افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر سمگلنگ کیوں کرواتے، وہ انڈیا اور چین کی سرحدوں پر بھی اس کو جاری رکھتے۔ اب آپ کہیں گے کہ انڈیا ا ور چین کی بارڈر پر موجود سیکورٹی فورسز اس کی اجازت نہیں دیں گی تو یہی میرا مقدمہ ہے کہ یہ سمگلنگ کبھی ایک طرف کی اجازت سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ایک طرف کی پابندی سے روکی جاسکتی ہے۔

پاکستان کی فوج اور حکومت اس وقت پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس سمگلنگ کو روک دیا جائے لیکن افغانستان کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے بلکہ پاکستان کی پانچ، چھ چوکیوں کے بعد ایک افغان چوکی ہے اور وہ بھی مکمل چوکنی اور فعال نہیں۔ افغانستان کے ساتھ اڑھائی ہزار سے کچھ زیادہ کلومیٹروں کی سرحد بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ یوں ہے کہ کسی جگہ پر ایک سرحدی نگرانوں کے پاس پچاس، ساٹھ کلومیٹر کا علاقہ ہے اور بیشتر پہاڑی، جس پر ہر وقت پٹرولنگ یا نظر رکھنا ممکن ہی نہیں۔ یوں علاقائی لوگوں کو ایف سی اور رینجرز وغیرہ کی موجودگی کے باوجود بیچ میں ایسے راستے مل جاتے ہیں کہ وہ سرحد پار کرجاتے ہیں۔

شائد آپ کو میری اس دلیل کے بعد بات پوری طرح سمجھ آئے کہ امریکا کو میکسیکوکی سرحد کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔ امریکا وہ ملک ہے جو کہتا ہے کہ دنیا میں کہیں سوئی بھی گرے تواس کی ٹیکنالوجی کی نظر سے چھپی نہیں رہ سکتی مگر اس کے باوجود صدر ٹرمپ کو اپنے پچھلے دور میں وہاں دیوار تعمیر کرنا پڑی اور اب بھی وہ اسی معاملے پر چیخ رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، ہماری فوج پروفیشنل بھی ہے اور ٹیلنٹڈ بھی اور اس نے امریکی فوج سے بڑھ کے یہاں پر نتائج دئیے ہیں۔

میں نے معاملے کا ایک پہلو بیان کیا کہ افغانستان سے سمگلنگ کو وہاں کے لوگ معمول کی تجارت سمجھتے ہیں اورجنہیں روکا جائے ان کے پاس متبادل روزگار ہونا چاہئے۔ دوسرا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم پاکستان کے ان اضلاع کی طرف دیکھتے ہیں جہاں پر ایرانی ڈیزل اور پٹرول آتا ہے تو ہمیں دیکھناپڑے گا کہ یہ پٹرول اور ڈیزل استعمال کہاں ہوتا ہے۔ بہت سارے علاقے وہ ہیں جہاں پی ایس او سمیت ہمارے پٹرولیم مصنوعات کے قومی اداروں کی رسائی ہی نہیں ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سخت سردی میں زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے جنریٹر چلانا ضروری ہے اور اس کے لئے ڈیزل۔

سمگلنگ روکی جا رہی ہے اور پہلے جو ایرانی ڈیزل ساٹھ، ستر روپے لیٹر مل جاتا تھا اب وہ طلب و رسد کے اصول کے وجہ سے دو سو روپے لیٹر سے او پر جا چکا ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ جب تک ان دور دراز علاقوں میں میں تیل کی سپلائی کا تسلی بخش نظام نہ ہوسمگلنگ کو روکنا اس علاقے کوموت کے حوالے کرنے کے مترادف ہوگا یعنی سمگلنگ روکنے کے حل کے ساتھ کئی دوسرے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے اور سب سے بڑا اور خوفناک معاملہ یہ ہے کہ سمگلنگ کے ساتھ سیاست اور دہشت گردی کا ٹرائینگل ہے جو سب ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ وہ گرہیں جو ہم نے یا شائد قدرت نے صدیوں میں لگائی ہیں اور اب انہیں کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ حالات کی گرد پڑنے کے بعد بہت سخت ہوچکی ہیں۔

سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھوں کی لگائی ہوئی کئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف نے عشروں (یا صدیوں) سے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ سمگلروں کے ساتھ ساتھ پراپرٹی مافیا اوراس کے ایجنٹوں کی بھی آرمی چیف تک رسائی ختم ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بگڑے معاملات یوں درست ہوتے جا رہے ہیں جیسے ان کے پاس جادو کی چھڑی ہو۔

Check Also

Shopper

By Rao Manzar Hayat