Saturday, 11 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Jadeediat K Shehar Mein Qadeem Sabaq

Jadeediat K Shehar Mein Qadeem Sabaq

جدیدیت کے شہر میں قدیم سبق

لاس اینجلس، خوابوں کا شہر، جو اپنے چمکتے دمکتے ویلاز، مہنگی عمارات اور ہالی وڈ کی روشنیوں کے لیے جانا جاتا ہے، آج دھوئیں اور راکھ میں لپٹا ہوا ہے۔ ایک قیامت خیز آگ نے وہ سب کچھ نگل لیا جسے دنیا محفوظ ترین سمجھتی تھی۔ بڑے بڑے گھر، جن کی قیمتیں کروڑوں ڈالروں سے شروع ہوتی ہیں، لمحوں میں خاک میں بدل گئے۔ شاید یہ لمحہ انسانوں کے لیے یہ یاد دلانے کا ہے کہ زمین پر کوئی چیز ہمیشہ کے لیے محفوظ نہیں، چاہے وہ کتنی ہی شاندار اور مضبوط کیوں نہ ہو۔

تصور کریں، وہی امیر ترین لوگ جو خود کو دنیا کے تخت پر بیٹھا بادشاہ سمجھتے ہیں، آج اپنی دولت، جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود بے بس ہیں۔ وہ گھر، جو ہالی وڈ کی فلموں میں خوابوں کی دنیا کے طور پر دکھائے جاتے تھے، اب انہی فلموں کے ڈراؤنے مناظر کا حصہ بن چکے ہیں۔ آگ، جسے انسان قابو کرنے کے لیے ہزاروں سالوں سے جدوجہد کر رہا ہے، آج بھی اپنے قدیم جلال کے ساتھ انسان کو یہ سبق دے رہی ہے کہ قدرت کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔

لاس اینجلس کی یہ آگ صرف ایک آفت نہیں، بلکہ ایک عکاسی ہے اس حقیقت کی کہ ہم انسان اپنی طاقت اور علم پر کتنا غرور کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری عمارات، ہمارے وسائل اور ہماری ٹیکنالوجی ہمیں ہر چیز سے بچا سکتے ہیں، لیکن قدرت کے ایک جھٹکے سے یہ سب کچھ مٹی میں مل سکتا ہے۔ شاید یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔ کیا ہم نے اپنی زندگی کے بنیادی اصول بھلا دیے ہیں؟

یہ وہی علاقے ہیں جہاں دنیا کے سب سے مہنگے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس موجود ہیں۔ جہاں ہر اینٹ کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں ہے۔ لیکن آج ان ہی اینٹوں کے ڈھیر پر وہ لوگ کھڑے ہیں جنہیں اپنے بینک اکاؤنٹس پر ناز تھا۔ آگ نے سب کچھ نگل لیا۔ آج کوئی یہ پوچھے کہ "ڈالرز سے بھرا بینک اکاؤنٹ اس وقت کیا کام آیا؟" تو شاید کوئی جواب نہ ہو۔

ہالی وڈ، جہاں دنیا کی مہنگی ترین فلمیں بنتی ہیں، جہاں خواب تخلیق کیے جاتے ہیں اور جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے، وہ بھی اس آگ کے سامنے بے بس ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن فلموں میں ہم سپر ہیروز کو دنیا بچاتے دیکھتے ہیں، آج ان کے تخلیق کار خود اپنی دنیا کو بچانے میں ناکام ہیں۔ کیا یہ طنز نہیں کہ وہی ہالی وڈ، جو ہر چیز پر قابو پانے کے خواب دکھاتا ہے، آج آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے؟

یہ آفت صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ سوال ہے۔ ہم اپنی ترقی پر اتنا غرور کیوں کرتے ہیں؟ ہماری جدیدیت، ہمارے وسائل اور ہماری ٹیکنالوجی، کیا یہ سب کچھ قدرت کے مقابلے میں کچھ بھی ہے؟ ہم اپنی عمارتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں لگے ہیں، لیکن کیا ہم نے اپنی روح کو بھی اتنا مضبوط بنایا ہے کہ ان آزمائشوں کا سامنا کر سکیں؟

لاس اینجلس کی آگ نے یہ بھی دکھایا کہ جدید دنیا کا خواب کتنا نازک ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ رہتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ان کا محل سب سے محفوظ ہے۔ لیکن آج ان کے گھر راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ وہی گھر، جو کبھی شان و شوکت کی علامت تھے، اب بربادی کی علامت بن گئے ہیں۔

قدرتی آفات ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے آتی ہیں کہ ہم کتنے چھوٹے ہیں، کتنے کمزور۔ ہم اپنی ترقی پر نازاں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک ان بنیادی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں جو صدیوں سے ہمارے ساتھ ہیں۔ آگ، پانی، ہوا، زمین یہ وہ عناصر ہیں جو ہم سے ہزاروں سال پہلے بھی طاقتور تھے اور آج بھی ہیں۔

لاس اینجلس کے اس سانحے سے دنیا کو سبق لینا چاہیے۔ یہ صرف امریکہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔ انسان اپنی ترقی پر جتنا مرضی غرور کرے، قدرت ہمیشہ ایک قدم آگے رہے گی۔ یہ آگ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کے سب سے اہم اصول وہی ہیں جو ہمارے بزرگ ہمیں سکھاتے آئے ہیں۔۔ عاجزی، سادگی اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی۔

دنیا کے دوسرے ممالک کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم قدرتی آفات کے لیے تیار ہیں؟ ہم اپنی عمارتوں کو اونچا تو بنا رہے ہیں، لیکن کیا ہم نے اپنی زمین کو محفوظ بنانے کی بھی کوئی کوشش کی ہے؟ کیا ہم نے ماحولیات کی تباہی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے؟ شاید نہیں۔

لاس اینجلس کی آگ نے دنیا کو ایک لمحہ دیا ہے رکنے کا، سوچنے کا۔ یہ لمحہ یاد دلانے کا ہے کہ دولت، جدیدیت اور ٹیکنالوجی کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ اہم وہ اصول ہیں جن پر زندگی کی بنیاد ہے۔ ہم جتنا چاہیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، قدرت کے سامنے ہمیشہ چھوٹے رہیں گے۔

شاید یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں اپنی ترقی کو قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا، تو شاید اگلی بار کوئی اور شہر اس طرح راکھ میں بدل جائے اور تب بھی ہم یہی سوال کریں گے: "ہم اپنی جدیدیت پر اتنا ناز کیوں کرتے تھے؟"

Check Also

Insan Ki Soch Jamid Nahi Hoti

By Mojahid Mirza