ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
سونے والوں کو جگایا جا سکتا ہے، جاگنے والوں کو نہیں۔ اپوزیشن یا حکومت، اکثر لیڈروں کا عالم یہ ہے کہ سوچتے کم بولتے بہت ہیں۔ ان لوگوں کا انجام کیا ہو گا؟ بانیان پاکستان کے بعد تاریخ پر ایک نگاہ کافی ہے کہ کب کب، کون کون، کس طرح رسوا ہوا۔ کس طرح دلدل میں اترا، کیسے تماشا بنا، چراغ سب کے بجھے، ہوا کسی کی نہیں۔
پچاس لاکھ مکان اور ایک کروڑ نوکریاں ابھی کل کی بات ہے۔ 200بلین ڈالر اور سمندر پار سے ڈالروں کے انبار بھی۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ برادرم غلام سرور خان نے ساری دنیا کو چیخ چیخ کر بتایا کہ ہمارے پائلٹوں کے لائسنس جھوٹے ہیں۔ بچی کھچی پی آئی اے کو مکمل تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ اسناد کی توثیق کی جاتی اور ادارے کو گنتی کے نوسر بازوں سے نجات دلا دی جاتی۔ یہی نسخہ پی ٹی وی میں کارآمد ہو گا جہاں فریب کار بھرے ہیں، ہاں مگر یہ کام عرق ریزی اور تحمل کا طالب ہے اور تحمل ہمارے لیڈروں میں کہاں؟ چاہیے تھا کہ سبق سیکھتے۔ اب بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ فرمایا کہ بیتے عشروں کے سارے فرمانروا واجب القتل ہیں، واجب القتل۔ کاش کہ ایک لمحہ رک کر سوچتے تو یاد آتا کہ خود بھی انہی کے حاشیہ بردار تھے۔
ازل سے ایک قانون چلا آتا ہے ابد تک رہے گا کہ مجرموں پر حکم لگانے کے لئے عدل کا ایک نظام استوار کیا جاتا ہے۔ بلند بانگ دعوئوں کے باوجود پولیس وہی، پٹوار وہی، قانون وہی، ایف بی آر وہی۔ انقلاب کے سب دعوے طاق نسیاں پر۔ اب یہ رہنمائوں کے ادراک، احساس میں بھی نہیں۔
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لی
ہم ٹی وی کے ٹاک شو دیکھنے اور اخبار پڑھنے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ سرمو کوئی تغیر نہیں، نام ونشاں تک نہیں۔
وزیر اعظم نے فرمایا کہ ہر قیمت پر نواز شریف کو واپس لایا جائے گا، فواد چودھری نے فوراً ہی کہا :ہم اسحق ڈار کو بھی نہ لا سکے، وزیر اعظم کیا کابینہ کی مذمت بھی کی کہ جانے کی اجازت ہی کیوں دی۔
ادھر لیگی لیڈر کی علالت کے سوال پر سرکار دربار میں ایک مباحثہ پورے زور و شور سے جاری۔ فواد صاحب کا کہنا ہے کہ خون کے نمونوں میں کیمیکل ڈال کر نتائج بدلے گئے۔ محترمہ یاسمین راشد نے جواب دیا کہ وزیر صاحب ڈاکٹر نہیں لہٰذا جانتے ہی نہیں۔ فوراً جواب دیتے ہیں :وزیر صحت کو کیا خبر۔ وہ زچہ بچہ کی ماہر ہیں۔ ارے بھائی گائنا کالوجسٹ بھی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے انجینئر نہیں۔ مزید فرمایا کہ زیر زمین فریب کاری کی دنیا کے رازوں کو صرف وکیل ہی جانتے اور گرہ کھول سکتے ہیں۔
دم بھر کو رکو بھائی، جعلسازی اگر ہوئی تو تکنیک کاروں کی سطح پر۔ اور اس کا کھوج لگانا کسی جہاندیدہ پولیس افسر کا کام۔ ایک سے ایک اچھا تفتیش کار موجود ہے۔ حتیٰ کہ عالمگیر شہرت رکھنے والے سبکدوش پولیس افسر، وزیر اعظم جنہیں خوب جانتے ہیں۔ ریاضت چاہیے اور باتیں بنانے والے ریاضت کیوں کریں۔
داد کے سب سے مستحق شہزاد اکبر ہیں۔ محکمہ زراعت کو ذمے دار ٹھہرایا اور پھر کانپتے ہوئے سجدۂ سہو کیا۔ جذبات کی رو مستقل غالب ہے اور ہیجان کا ایک عالم۔ ڈاکٹر فیصل اور طاہر شمسی سے فواد چودھری زیادہ تو بہرحال جانتے نہیں۔ فتوے جاری کرنا سیاست کاروں کا کام نہیں۔ یوں ڈھنگ کا کوئی عالم دین بھی اس سرعت سے فتویٰ نہیں دیا کرتا۔ پورے انہماک سے سیاق و سباق دیکھنا ہوتا ہے۔ قلم اور زبان سے نکلا ہوا لفظ واپس نہیں آ سکتا۔ اب تو بولتی تصویر گواہ رہتی ہے۔ عواقب و نتائج کی نہیں تو اپنے اعتبار اور ساکھ ہی کا کچھ خیال ہو۔
میں ہوں وحشت میں گم میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
شہباز فرمایا کرتے! دو سال میں، ایک سال میں، چھ ماہ میں، بجلی کا نظام درست نہ کر دوں تو میرا نام بدل دینا۔ لاہور، لاڑکانہ اور کراچی کی سڑکوں پر زرداری کو اگر نہ گھسیٹوں تو میں شہباز شریف نہیں۔ اورنج لائن ٹرین کے نام پر لوہے اور سیمنٹ کا ایک ہمالہ چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ سر پکڑے نئی حکومت بیٹھی ہے چلائیں تو بارہ ارب روپے سالانہ زر اعانت، پڑی رہے تو دو تین سو ارب برباد۔ زرداری صاحب سے بعد میں وہ معافی مانگتے رہے، شرمندگی کی ہر چند ایک رمق تک نہ تھی، کس مٹی کے بنے ہیں؟ روسٹرم پر مکے مار مار کر اعلان کیا کرتے، ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست چھوڑ دوں۔ لوٹ مار ثابت ہو چکی، خاندان کے ایک ایک پاکباز کی۔ اربوں روپے ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے، تیسرے سے چوتھے کھاتے میں منتقل ہوتے رہے۔ اب قوم کی گردن پر مسلط رہنے کا جواز؟ جاپانی شرفاء خودکشی کر لیا کرتے ہیں الٹا یہ اپنے کارنامے گنواتے ہیں۔ راتوں کی تاریکی میں ادھر وردی پوشوں سے لجاجت سے پر سرگوشیاں، دن کے اجالے میں حریف کو للکار۔ جواب میں زبان حال سے کپتان یہ کہتا ہے:
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار، تو چھلنی میں چھاج
1990ء کی دہائی میں ایسا ہی طوفان بدتمیزی تھا۔ پورا عشرہ ہی ضائع ہو گیا۔ آج پھر ملک تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے، عرب ناراض، امریکہ ناخوش، حلیف ممالک حیران، دہشت گردی پہ تلا ہوا بھارت۔ کشمیر میں قتل عام۔ عالم عرب میں اسرائیل کی یلغار۔ مجال ہے کہ زرداری یا شریف خانوادے کو رتی برابر پروا ہو، ڈھنگ کا ایک بیان تک نہیں۔ فکر ہے تو سمندر پار کے دوستوں کی، آقائوں کی، جائیدادوں کی، مال و دولت کی۔ اور خان صاحب کو بھی کیا فکر۔ اعلان یہ فرمایا تھا کہ کشمیر کے وہ سفیر ہیں۔ مقتل کے مناظر سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے اس سفیر نے کیا کیا؟ وزارت خارجہ اور سفارت کاروں نے کیا کیا؟ خود اسٹیبلشمنٹ نے کیا کیا؟ امید بھری نظروں سے ادھر ادھر سب جھانکتے ہیں کہ کشکول میں تھوڑی سی سرپرستی کوئی ڈال دے، چھتری سے سایہ کر دے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
قوم ہے کہ گہری نیند سوئی پڑی۔ میڈیا ہے کہ ہر شام بے دریغ جھوٹ بولنے والوں کی میزبانی فرماتا ہے۔ زندہ قوموں ہی کو زندہ لیڈر ملتے ہیں۔ ، تقدیر کا ماتم کرنے والوں کو نہیں۔ سونے والوں کو جگایا جا سکتا ہے، جاگنے والوں کو نہیں۔ اپوزیشن یا حکومت، اکثر لیڈروں کا عالم یہ ہے کہ سوچتے کم بولتے بہت ہیں۔