ہمت کی کوتاہی
مایوسی اورترجیحات کے تعین سے گریز، پہل کاری اور عزم و حوصلے سے محرومی۔ سول سروس اور سیاست کا فرسودہ ڈھانچہ، چنانچہ فلاکت اور محرومی۔
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوار چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے
جنرل باجوہ نے کہا کہ بحران میں سے قوم طاقتور بن کے ابھر سکتی ہے۔ ادھر ایوانِ وزیرِ اعظم نے بتایا کہ بعض شوگر مل مالکان نے حکومت کو دھمکانے کی کوشش کی۔ کئی بار اس کالم میں ذکر کیا کہ عمر فاروقِ اعظمؓ کے سنہری دور میں پانچ برس قحط کے تھے۔ یہ ابتلا نہیں، جو قوموں کو برباد کرتی ہے۔ ان کا ردّعمل اور طرزِ احساس ہوتاہے۔
افراد یا اقوام، زندگیوں میں آزمائش اترتی رہتی ہے۔ امتحان کے دن آتے ہیں تو ہر ایک کا اندازِ فکر مختلف ہوتاہے۔ ہر آدمی ہر حال میں آزمایا جائے گا۔ زردار اور بادشاہ تو کیا، پیغمبرﷺ بھی کوئی استثنیٰ نہیں۔ بدر و حنین آتے ہیں، شعبِ ابی طالب آتی ہے اور طائف کا دن بھی۔ جب پنڈلیوں سے رستا ہوا پیغمبرﷺ کا خون ایڑیوں میں جم گیا تھا۔ جب فرشتہ آسمان سے اترا کہ حکم صادر ہو تو بستی دو پہاڑو ں کے درمیان پیس دی جائے۔ ارشاد کیا: یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں مسلمان ہوں گی۔ امید ہی اثاثہ ہے۔
امت کا المیہ یہ نہیں کہ وہ پیچھے رہ گئی۔ المیہ یہ ہے کہ اس نے امید کھو دی۔ کرونا کی ویکسین ایجاد کرنے میں دنیا بھر کی قومیں سر توڑ جدوجہد کر رہی ہیں۔ تاریخ کے چوراہے پر اگر کوئی سویا پڑا ہے تو مسلمان۔ کہیں کہیں کچھ کوششیں ہیں، مثلاً ڈاکٹر عطا الرحمن کا ادارہ اور کچھ دوسرے لوگ۔ بل گیٹس نے پیغام دیا ہے کہ پندرہ کمپنیاں ویکسین کے لیے جتی ہیں۔ بے شک اربوں ڈالر ضائع ہو جائیں، علاج ڈھونڈ لیا جائے گا۔ مسلمانوں میں خوشحال بھی ہیں۔ عرب ہیں، ترک اور ملائیشیا۔ ویکسین کے لیے او آئی سی کی سطح پر ایک فنڈکیوں قائم نہیں کیا جاتا۔ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک بڑا عطیہ دے سکتے ہیں، کچھ نہ کچھ پاکستان بھی۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان یہ ہے کہ شوق میری سواری ہے۔ فرمایا: زندگی ایک سواری ہے۔ آدمی اس پر سوار نہ ہو تو وہ آدمی پر سوار ہو جاتی ہے۔ بہترین میزائل، ایٹم بم اور فوج ہم بنا سکتے ہیں تو ویکسین کیوں نہیں۔ بے وقت بارشوں سے گیہوں کی فصل مضمحل ہے۔ کپاس کی پیداوار آدھی رہ گئی اور چینی کی بڑھتی چلی گئی۔ یہ سات بلین ڈالر کا نقدنقصان ہے۔ کپاس کو ایک نئے، زیادہ ثمر خیز بیج کی ضرورت ہے۔ سالہا سال بیت گئے اور آغازِ کار ہی نہیں۔ اسی اثنا میں بھارت نے کپاس کی پیداوار دوگنی کر لی۔ کیا ان کی زمینیں ہم سے زیادہ زرخیز ہیں یا ان کے ذہن زیادہ کار آمد۔
انڈسٹری اور برآمدات کی فکر ہمیں لاحق رہتی ہے اور رہنی ہی چاہئیے لیکن کسان کا حال پوچھنے والا کوئی نہیں۔ بظاہر مٹی کا جائزہ لینے والی لیبارٹریاں قائم ہیں لیکن اکثریت استفادہ نہیں کرتی۔ کتنی ہی بار رونا رویا کہ اکثر زمینیں ناہموار ہیں، چنانچہ آدھا پانی ضائع۔ کرم کش ادویات مہنگی ہیں اور ملاوٹ والی۔ کھاد بروقت نہیں ملتی، گراں بھی ہے۔ کسانوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ کچھ زرعی کالج اور یونیورسٹیاں ضرور ہیں مگر کاشتکار سے کوئی رابطہ نہیں۔ ان کے لیے الگ سے کوئی چینل نہیں۔ وہ آڑھتی کے قیدی ہیں۔ کاشت کا وقت آئے تو کسان آڑھتی کے دروازے پر پہنچتا ہے۔ مہنگا بیج، کرم کش ادویات اور کھاد۔ وہ اس کے رحم و کرم پر ہے۔ مہنگے داموں بیچتا ہے۔ فصل کی قیمت کم اور وہ بھی اقساط میں۔ آج بھی اس کا حال وہی ہے، جو ایک صدی پہلے تھا
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
دنیا کی زرخیز ترین مٹی، دنیا کے بہترین پھل، گندم اور کپاس پیدا کرنے والا ملک اور چاروں طرف پھیلا ہوا افلاس۔ ہمیں اس پر شرم آنی چاہئیے۔ زرعی تحقیقات کے ادارے لاچار ہیں۔ بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں پر اٹھ جاتاہے، ریسرچ کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ چند برس پہلے اسلام آباد شہر سے متصل زرعی تحقیقاتی کونسل کی ہزاروں ایکڑ زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا خواب دیکھا گیا۔ چیخ و پکار نہ ہوتی تو حکمران یہ تماشہ بھی کر گزرتے۔ جاپان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ معدنی وسائل سے محروم ہے۔ اگر اس کی کوئی قوت ہے تو افرادی۔ سول اداروں کا ایک مضبوط اور مربوط نظام، چند عشروں میں ایک عظیم معیشت بن گیا۔
ڈاکٹرسڈل ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ برف باری اور طوفان کے باعث ٹرین دس منٹ لیٹ ہوگئی، جس میں وہ سوار تھے۔ ٹوکیو میں ریلوے کا عملہ قطاریں بنا کر کھڑا تھا۔ ہر مسافر سے معذرت کی اور کرائے کا ایک حصہ انہیں لوٹا دیا۔ عزم و ولولہ ہے، ترجیحات ہیں اور سول ادارے، جو قوم کو پستی سے نکال کر امید اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ تین، ساڑھے تین عشرے پہلے تک چین اور ملائیشیا کی فی کس آمدن پاکستان سے آدھی تھی۔ بھارت کی دو تہائی۔ اپنے نظام کی انہوں نے اصلاح کی اور قلانچیں بھرتے نکل گئے۔ ہم کیوں سوئے پڑے ہیں؟
اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ڈاکٹر ظفر الطاف زندہ تھے تو دکھ کے ساتھ زراعت کا ذکر کیاکرتے۔ ایک دن کہا: قدرتی کھاد کو ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو گندم کی پیداوار 65 من فی ایکڑ تک بڑھ سکتی ہے، جو اس وقت بیس من ہے۔ بغیر کھاد کی گندم عالمی منڈی میں دو گنا قیمت پا ئے گی۔ باتوں کے نہیں، وہ عمل کے دھنی تھے۔ سوات میں اچانک فوجی آپریشن ہوا تو لپک کر قیمتی نسلوں کے تمام جانور جمع کیے کہ بحران ٹلے تو یہ شعبہ محفوظ رہے۔
ہلّہ کے نام سے دودھ کی ایک کمپنی انہوں نے قائم کی تھی، جو ہسپتالوں، بڑی بیکریوں اور عام آدمی کو آدھی قیمت پر خالص دودھ فراہم کرتی۔ ملک بھر میں ایک جال بچھا دیا تھا۔ ہزاروں غریب خاندان اس نظام کی بدولت خوشحال ہوئے۔ ان کے بچوں نے تعلیم پائی اورسرفراز ہوئے۔ قصور کے ان دیہات کا اکثر ذکر کرتا ہوں، جہاں، چھوٹے کاشتکاروں کو غیر سودی قرضے دے کر آڑھتیوں سے گردنیں چھڑا دی گئیں۔ پیداوار میں 80 سے 120 فیصد اضافہ، گلیاں اجلی، مکان صاف اور تعلیم کی شرح سو فیصد۔ پورے ملک میں یہ تجربہ کیوں پھیلایا نہیں جا سکتا؟
قومیں مصائب کا شکار ہوتی ہیں تو یہی وہ وقت ہوتاہے، جب حکومتی رٹ قائم کر دی جائے اور ہجوم کو قوم میں ڈھال دیا جائے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے؟ کیا سپہ سالار اور وزیرِ اعظم نے کبھی غور کیا ہے؟ مایوسی اورترجیحات کے تعین سے گریز، پہل کاری اور عزم و حوصلے سے محرومی۔ سول سروس اور سیاست کا فرسودہ ڈھانچہ، چنانچہ فلاکت اور محرومی۔
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوار چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے