ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے
نظریات اور اصولوں کی نہیں، یہ اقتدار کی جنگ ہے، ہر چیز جس میں جائز ہوتی ہے۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ گنڈا پور، بلاول بھٹو اور سب سے بڑھ کر مریم نواز دھڑلے سے غلط بیانی کرتی رہیں۔ علی امین تو یہاں تک کہہ گزرے کہ جتنے ووٹ پی ٹی آئی کے زیادہ ہوں گے، اتنے ہزار کروڑ روپے خان صاحب زیادہ عطا فرمائیں گے۔ گویا چنگیز خان کا خزانہ ہے اور فاتح کی مرضی پہ منحصر۔
کل تک عمران خان کی حکومت بہت مضبوط دکھائی دیتی تھی مگر اب یہ کہنا مشکل ہے کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ آئی جی سندھ کے باب میں جس حماقت کا ارتکاب ہوا، تحریکِ انصاف شاید اس کی واحد ذمہ دارنہیں۔ اس پر کی جانے والی تفتیش ادھوری ہے۔ یہ بات قرینِ قیاس نہیں کہ درمیانے درجے کے سرکاری افسرمشتعل ہو کر از خود کوئی فیصلہ کریں۔ ڈسپلن کی پابندی ان کی گھٹی میں ہوتی ہے۔ وردی والے خوب جانتے ہیں کہ ہر حال میں احکام کی بجا آوری لازم ہوتی ہے۔ کاکول کی تربیت اور فرائض کے مہ و سال میں یہ رویہ اور بھی پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
آئی جی مشتاق مہر کبھی مصلحت سے بھی کام لیتے ہوں گے کہ سرکاری ملازم ہیں لیکن وہ ایک دیانت دار اور ثقہ آدمی ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ سندھ حکومت بھی ان سے خوش نہیں۔ اس لیے کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے دو ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر انہی دنوں، ان کے حکم پر چھاپے مارے گئے۔ الزام لگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر یہ قدم انہوں نے اٹھایا ہے۔ قتل کے ایک مقدمے میں ان ارکانِ اسمبلی پر ملزموں کو پناہ دینے کا الزام تھا۔
مزارِ قائدِ اعظم پر کیپٹن صفدر نے پرلے درجے کی بدذوقی کا مظاہرہ ضرور کیا تھا۔ آئی جی کا موقف مگر یہ تھا کہ قانون کی کوئی بڑی خلاف ورزی نہیں ہوئی کہ گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ سندھ پولیس کو اس پر مجبور کیا گیا اور اس میں پی ٹی آئی کراچی کے لیڈروں کا عمل دخل بہت ہے۔ گورنر سندھ کی بات الگ، اسد عمر سوجھ بوجھ کے آدمی ہیں لیکن بعض اوقات بہت بے لچک رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ جیسے پی آئی اے کی نجکاری اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملات۔ پچاس ارب روپے سالانہ ضائع کرنے والی پی آئی اے سے جان چھڑانے کے اب بھی وہ قائل نہیں ہو سکے۔
خواجہ سعد رفیق سچ کہتے ہیں، کوئی بھی پارٹی جمہوری تشکیل نہیں رکھتی۔ پی ٹی آئی تو ایک ہجوم ہے، ایک فین کلب۔ پنجابی محاورے کے مطابق یہ مینڈکوں کی پنسیری (پانچ سیر) ہے، جو کسی پیمانے میں سما نہیں سکتی۔
گیلپ سروے کہتا ہے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔ علاقے کی سیاست پہ نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ آسانی سے وہ جیت جاتی لیکن اوّل تو تاخیر سے میدان میں اتری۔ ثانیاً ٹکٹوں کی تقسیم میں اسی بھدے پن کا مظاہر ہ کیا، جو اس کی روایت ہے۔ کلاسیکل مثال 2013ء میں شیخو پورہ کے ٹکٹ تھے، جو ایک بار عطا کر کے واپس لے لیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد حیثیت سے انہوں نے الیکشن لڑا اور پارٹی امیدواروں سے زیادہ ووٹ لیے۔ 2012ء کے موسمِ بہار تک ہر سروے میں اندازہ یہ تھا کہ 90سیٹیں عمران خان جیت سکتے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں حماقت درحماقت کا ایسا ارتکاب ہوا کہ 34باقی رہ گئیں۔ 90سیٹیں جیت لیتی تو مسلم لیگ بھی آس پاس ہی ہوتی اور فیصلہ حلیف کرتے۔ انتخابی حلقوں کے باب میں اعداد و شمار اور معلومات (Data)تھیں ہی نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ سارا وقت پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا گیا۔ الیکشن بھی ایسے کہ بے دریغ جن میں دھاندلی ہوئی۔ الیکشن کمشنر جسٹس وجیہ الدین نے ملزموں کی نشاندہی کر دی تھی۔ کوڑا کرکٹ قالین کے نیچے دبانے کی کوشش ہوئی۔ جج صاحب مانے نہیں ؛چنانچہ معتوب ہوئے۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے، جنہیں تحریکِ انصاف کا ضمیر کہا جا سکتا۔ دوسرے احسن رشید تھے، ایک فرشتہ صفت آدمی، حلف کے دن جنہیں خان صاحب نے خراجِ تحسین پیش کیا۔ جاننے والے مگر جانتے ہیں کہ آخری دنوں میں خان صاحب ان سے خوش نہ تھے۔ اس کے باوجود کہ کینسر ہسپتال، تمام قدرتی آفات اور پارٹی کے لیے بے پناہ مالی ایثار انہوں نے کیا۔ افتادگانِ خاک کے دردمند تھے۔ بات بھی نرمی اور خوش خلقی سے کرتے لیکن خان صاحب کو ان کے مشورے ناگوارہوتے۔ ایک بار میرے سامنے ان کے باب میں نہایت ہی سخت الفاظ کہے۔ ایسے کہ نقل نہیں کیے جا سکتے۔
خان صاحب لیڈرشپ کا ایک بہت ہی سطحی تصور رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں تنہا لیڈر ہی راستے کا تعین کرتاہے؛چنانچہ الیکشن سے پہلے بار بار انہوں نے کہا: لیڈر اگر سچا ہو تو قافلہ منزل سے ہمکنار ہو سکتاہے۔ زعم اور کبر نہیں تو کم از کم یہ پرلے درجے کی سادہ لوحی ضرور ہے۔
اسی بنا پر اتنے بڑے بڑے دعوے انہوں نے کیے تھے۔ مردم شناسی نام کو نہیں۔ سیاست اور معیشت کی پیچیدگیوں کا ادراک نہیں رکھتے کہ ذہنی ریاضت کے قائل ہی نہیں۔ اسی لیے یو ٹرن لینے اور جواز تراشنے پڑتے ہیں۔ اسی لیے ڈھنگ کے لوگ انہیں چھوڑ گئے۔ وہ خوش گمان، جو یہ سمجھتے تھے کہ شوکت خانم اور نمل کالج کی طرح سول اداروں میں بھی وہ میرٹ کا خیال رکھیں گے۔ اب تو خیر انہیں خود پر قابو ہی نہیں۔ پختون خوا پولیس بگڑ کر برباد ہو چکی۔ اس کا آئی جی پچھلے دنوں دوستوں کے پاس فریاد کرتا رہا۔ خان صاحب مگر سنتے ہی نہیں۔ اسی لیے خسرو بختیار، ندیم بابر، زلفی بخاری، اعظم خان، عمران اسمٰعیل اور شہزاد اکبر ایسے لوگ، پالیسیوں کی تشکیل پر اثر انداز ہوتے اور پیہم پیچیدگیوں کی فصل بوتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے گیلپ کا سروے تشنہ ہے۔ حلقہ وارہونا چاہئیے تھا۔ اگرچہ نون لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے، ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی اعدادو شمار میں ہیرا پھیری نہیں کرتے۔
بروقت الیکشن کی تیاری شروع نہ کی۔ روٹھ کر پی ٹی آئی کے کئی لیڈر آزاد امیدوار ہو گئے ورنہ اکثریت سہل ہوتی۔ کہتے وہ یہ ہیں کہ جیت کر اپنی سیٹ خان صاحب کے قدموں میں ڈال دیں گے۔ وہی دعویٰ، 2002ء میں جو شیخ رشید کیا کرتے۔ سب سے بڑی پارٹی بن گئی تو گلگت بلتستان کے آزاد امیدوار پی ٹی آئی کا ضرورساتھ دیں گے۔ وحدت المسلمین ان کی حلیف ہے اور دو سیٹیں وہ جیت سکتی ہے۔ آزاد امیدوار شامل کر کے حکومت بنانا ان کے لیے ممکن ہوگا۔ اگر پیپلزپارٹی 6، نو ن لیگ 4اور جمعیت علماء ِ اسلام ایک سیٹ جیت گئی تو آزاد امیدوار کس کے ساتھ جائیں گے؟ خیال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپوزیشن کی حکومت پہ کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ وہ اپنی ساکھ بہتر بنانے کی آرزومند ہے۔
نظریات اور اصولوں کی نہیں، یہ اقتدار کی جنگ ہے، ہر چیز جس میں جائز ہوتی ہے۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ گنڈا پور، بلاول بھٹو اور سب سے بڑھ کر مریم نواز دھڑلے سے غلط بیانی کرتی رہیں۔ علی امین تو یہاں تک کہہ گزرے کہ جتنے ووٹ پی ٹی آئی کے زیادہ ہوں گے، اتنے ہزار کروڑ روپے خان صاحب زیادہ عطا فرمائیں گے۔ گویا چنگیز خان کا خزانہ ہے اور فاتح کی مرضی پہ منحصر۔