احساسِ زیاں
اس معاشرے کا کیا ہوگا، جس میں اتنے بہت سے مفکر پیدا ہو گئے اور سارا وقت وہ واویلا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ زیاں تو ہوا ہی کرتا ہے، اگر احساسِ زیاں ہی جاتا رہے؟
چینی کا رونا تو تھا ہی، گندم کا اتنا بڑا سکینڈل سامنے آیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ چالیس لاکھ ٹن گیہوں خریدنے کے بعد عبدالعلیم خان وزیرِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جو کچھ بتایا، وہ حیران کن ہے۔ گندم کی خریداری اور تقسیم میں پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل مل سے بھی زیادہ خسارہ ہے۔ 1400روپے فی چالیس کلو کے حساب سے فلور ملوں کو فراہم کی جاتی ہے لیکن خود حکومت کو 2200روپے من پڑتی ہے۔ گنّے کے برعکس جو ٹرالیوں میں لاد کر شوگر مل کے دروازے پر لایا جاتاہے، جس کی رسید کے لیے کاشتکارمنتظر رہتے ہیں، گندم کی خریداری کھلیان میں ہوتی ہے۔ لطیفہ یہ کہ خلقِ خدا اس پہ شاد ہے اور نہ آٹا ملوں کے مالکان۔ اب کی بار تو کاشتکار بھی نہیں۔ تاثر یہ تھا کہ بے وقت کے موسموں اور ژالہ باری نے فصل کو نقصان پہنچایا۔ کچھ زیادہ سچائی اس میں نہیں۔ اس لیے کہ سندھ اور سرائیکی پٹی کا زیادہ حصہ محفوظ رہا۔ پیداوار میں کمی ہوئی بھی تو دو چار فیصد۔
اب کی بار کسانوں کو پندرہ سولہ سو روپے فی من کی پیشکش تھی۔ عبد العلیم خان کی قیادت میں فلور ملوں پہ سختی کی گئی۔ کہا گیا کہ حکومت جب تک خریداری مکمل نہ کر لے، تین دن سے زیادہ کا ذخیرہ وہ جمع نہیں کر سکتے۔ بعد ازاں یہ مدت بڑھا کر ایک ہفتہ کر دی گئی۔ بین الاضلاعی اور بین الصوبائی پابندیاں لگا کر افغان سمگلروں کا راستہ روک دیا گیا، چنانچہ مارکیٹ کا ماحول بدل گیا۔ گیہوں کی خریداری کے لیے پنجاب حکومت بینکوں سے قرض لیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسری صوبائی حکومتیں بھی۔ بڑھتے بڑھتے پنجاب کا گردشی قرضہ 550 ارب روپے ہو چکا۔ ہر سال 55 ارب روپے سود۔
کیا یہ مناسب نہیں کہ فلور ملوں اور چکیوں کو براہِ راست خریداری کی اجازت دے دی جائے۔ ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دس بارہ لاکھ ٹن کے ذخائر حکومت اپنے پاس رکھے، جس کی گنجائش 21لاکھ ٹن ہے۔ اب کی بار دو گنا خریداری ہوئی۔ کھلے آسمان تلے گندم ترپالوں سے ڈھکی پڑی ہے۔ مون سون کا موسم سر پہ کھڑا ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی یہ ہے کہ 28مئی سے چار دن تک ویسی ہی موسلا دھار بارشوں کا اندیشہ ہے، جیسی کہ ساون میں۔ ایسے میں یہ گندم کتنی محفوظ ہوگی؟
چینی کا سوال بھی اتنا ہی سنگین ہے۔ کھانے کے تیل کی طرح ہم پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ شکر کھانے والی قوم ہیں۔ دو نقصان دہ اشیا، صدیوں سے جو میدانوں میں بسنے والوں کے مزاج کا حصہ بن چکی ہیں۔ جن میں تبدیلی کے لیے ایک طویل تحریک کی ضرورت ہوگی۔ چینی کو سفید زہر کہا جاتاہے۔ آدمی کو کم ہی مٹھاس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چائے کی پیالی پہ پیالی لنڈھانے کی عادت ایسی پختہ ہے کہ آسانی سے چھوٹنے والی نہیں۔ یہی حال گھی کا ہے۔ مغرب میں اس کا اوسط ڈیڑھ کلو فی کس سالانہ ہے۔ پاکستان میں 17کلو۔
چینی پر بحث جاری رہے گی۔ 62روپے فی کلو سے 90روپے کیسے ہوگئی؟ ایک آدھ نہیں، تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ممتاز لوگ اس کارِ خیر میں ملوث ہیں۔ ضرورت سے زیادہ چینی وہ کیوں پیدا کرتے ہیں کہ بر آمد کی ضرورت پڑے اور اس پر حکومت سے زرِ اعانت وہ حاصل کرتے ہیں۔ سرکاری خزانے کو نچوڑنے والے اور بھی بہت ہیں۔ بجلی سمیت حکومتی اہتمام سے چلنے والے سرکاری ادارو ں کا خسارہ ایک ہزار ارب سالانہ تک جا پہنچا ہے۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس لعنت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے۔ حیرت انگیز ہے کہ کس طرح خم ٹھونک کر بعض سیاسی جماعتیں نجکاری کی مخالفت کرتی ہیں، جیسے معالج کو کسی زخمی کا علاج کرنے سے روک دے۔ پاکستانی معیشت کے پیکر پر سینکڑوں زخم ہیں اور اندمال کی پرواہ کسی کو نہیں۔
کپتان کی حکومت سے مطالبہ کیا جائے تو ان کے فدائین آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں: یہ پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ بجا ارشاد، بالکل بجا ارشاد مگر اصلاحِ احوال کی ابتدا تو ہونی چاہئیے۔ پچاس لاکھ مکانوں اور ایک کروڑ ملازمتوں کی طرح کیا یہ بھی محض ایک خواب ہی رہے گا۔ وہی خستہ پولیس، وہی بے کار عدلیہ، کچی دیواروں پہ برستی بارشوں کی طرح موسم کیا ایسا ہی بے رحم رہے گا۔
امید کا آنگن فرسودہ، وعدوں کی چھتیں کمزور بہت
اس پہ ابر کے موسم میں، برسی ہے گھٹا گھنگھور بہت
پاکستان کے علاوہ غیر ملکی جامعات میں پولیٹیکل سائنس پڑھانے والے ایک ممتاز استاد نے اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ یہ کہ شوگر کمشن کی رپورٹ سے متاثرہ فریق اور اپوزیشن اکٹھی ہو جائے تو حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ انتشار اور بدنظمی کا ایک اور عہد۔
حادثے رونما ہوتے ہیں، ادبار کے زمانے آتے ہیں۔ جنگیں ہوتی اور وبائیں پھیلتی ہیں۔ معاشرے ان وباؤں سے برباد نہیں ہوتے بلکہ امید کے کھو دینے سے۔ ہتھیار ڈال دینے اور خود کو حالات کے حوالے کر دینے سے۔ احمد مشتاق کا شعر ہے
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
کوئی المیہ رونما ہوتاہے تو پوری کی پوری قوم ہیجان کا شکار ہو جاتی ہے۔ پیہم اور مسلسل کچھ لوگ ہمیں بتا رہے ہیں کہ طیارے کی تباہی میں سارا قصور پائلٹ کا تھا۔ تحقیق کرنے والے ماہرین اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ پائلٹ نے ایک سے زیادہ غلطیاں کیں۔ آخری غلطی یہ کہ جہاز رن و ے پر اتار ہی لیا تھا تو ٹائر نہ کھلنے کے باوجود دوبارہ اڑان کی ضرورت نہیں تھی۔ پیٹ کے بل رینگتا ہوا جہاز تباہ ہو جاتا اور آخر کو ہوا ہی، مگر مسافروں کی زندگیاں بچنے کا امکان بہت ہوتا۔ دوسری طرف تحقیقات ایسے لوگوں کو سونپ دی گئی ہیں، جو نسبتاً نچلے عہدوں پہ براجمان ہیں۔ ایسے طاقتور لوگوں کے خلاف کارروائی کی سفارش وہ کیسے کر سکتے ہیں، جن کے سر پر تخت کا سایہ ہے۔ المیہ صرف یہ نہیں کہ سول ادارے، سیاسی جماعتیں اور حکمران طبقہ بگڑ گیا۔ اس سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ چیخ و پکار بہت ہے اور غور و فکر برائے نام۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ تباہی کا آغاز تب ہوتاہے، جب کوئی معاشرہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو دے۔ بٹ جائے اور اپنی ساری توانائی غیر ضروری مباحث میں جھونک دے۔
اس معاشرے کا کیا ہوگا، جس میں اتنے بہت سے مفکر پیدا ہو گئے اور سارا وقت وہ واویلا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ زیاں تو ہوا ہی کرتا ہے، اگر احساسِ زیاں ہی جاتا رہے؟