عداوت
عدمِ استحکام پیدا کرنے اور بے سمتی سے قومی توانائی برباد کرنے والا یہ باہمی عداوت کا ثمر ہے اور تنہا اپوزیشن ہی قصوروار نہیں۔ اللہ جانے حقیقت پسندی، اعتدال اور صداقت کا راستہ ہم کب اختیار کریں گے۔ جانے کب!
بل گیٹس کہتے ہیں کہ کرونا وائرس سے زیادہ خطرہ ماحول کی تباہی سے ہے۔ موضوع ایسا ہے کہ ہمارے ہاں اس پر زیادہ بحث نہیں ہوتی۔ صورتِ حال وگرنہ سنگین بہت ہے۔ پاکستان ان دس ملکوں میں شامل ہے جن کے بارے میں اندیشہ سب سے زیادہ ہے۔
معلوم نہیں، اب صورتِ حال کیا ہے کہ ملک میں ادارے نہایت تیزی سے زوال کا شکار ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے تک ہمارا ماحولیات کا نظام دنیا کے آٹھ بہترین اداروں میں سے ایک تھا۔ اتفاق سے اس کے سربراہ حفیظ صاحب سے ملاقات رہی۔ مرحوم فاروق گیلانی کے طفیل، جن کا دسترخوان اور دوستی کا حلقہ وسیع تھا، یہ تعلقات رفتہ رفتہ رفاقت میں بدل گئے۔ مارگلہ کے دامن میں، ان کا دفتر بلندی پر واقع ہے۔ ایک دلکش نظارہ اور سربراہ کے لیے خوبصورت مکان۔ سادہ اطوار مگر اپنے فن کے ماہر حفیظ صاحب نے ایک بار اپنی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ کئی دوسری پیشکشیں مسترد کر کے انہوں نے اس لیے توسیع قبول کر لی کہ وہ اس گھر میں شاد ہیں۔ چاروں طرف پھیلا ہوا سبزہ اور ان گنت اشجار۔
پس منظر میں مارگلہ کی بلندیاں۔ ہوائیں جن سے ٹکراکر معمول سے زیادہ بارشیں برساتی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اڑھائی تین ہزار برس پہلے بھی یہ برصغیر کا اہم ترین علاقہ تھا۔ بیس پچیس میل پرے ٹیکسلا، جسے تب تکسلا کہا جاتا۔ سکندرِ اعظم نے اسی کا رخ کیا تھا۔ ہن لشکر یہیں آئے تھے، جہاں بدھوں نے جنگ نہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور اسّی ہزار بھکشوؤں نے اپنی گردنیں تلواروں کے سامنے جھکا دیں۔
صدر فاروق لغاری کو پختون خوا کے کسی علاقے کا دورہ کرنا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ فلاں وقت وہاں تند ہوا اٹھے گی۔ فاروق لغاری مزاجاً محتاط تھے مگر نجانے کیا سوجھی کہ چل پڑے۔ ٹھیک اسی وقت آندھی اٹھی۔
2005ء کا زلزلہ آیا تو حفیظ صاحب سڑک پر تھے۔ انہوں نے عمارات کو لرزتے اور درختوں کوجھومتے پایا۔ بیس منٹ میں ایوانِ وزیرِ اعظم، ایوانِ صدر، جی ایچ کیو، کابینہ ڈویژن اور وزرائے اعلیٰ کو مطلع کردیا۔ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم نے بعد ازاں وزیرِ اعظم شوکت عزیز سے شکایت کی کہ بروقت اطلاع نہ دی گئی۔ جنابِ حفیظ کو ساتھ لے کر شوکت عزیز کراچی پہنچے۔ خبر پہنچانے کا دستاویزی ثبوت محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر کی جیب میں تھا۔
تین چار برس بعد وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف سے پوچھا کہ کیا محکمہ موسمیات انہیں باخبر رکھتاہے۔ انکار میں سرہلایا اور گفتگو کا موضوع بدل دیا۔ اندازہ ہوا کہ سرکاری دفاتر کے درمیان رابطے کا نظام کس قدر کمزور اور سطحی ہے، چنانچہ فیصلہ سازی بھی۔
افراد ہوں یا اقوام، سنگینی اور خرابی مسائل نہیں، آدمی کے طرزِ عمل میں ہوتی ہے۔ آدمی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا مگر ساتھ فہم و شعور بخش دیا۔ وہ دانش او ربصیرت سے کام لے گا تو درپیش المیوں سے نمٹ لے گا۔ اگر فطرت کے قریب تر رہے گا تو آسودہ، ورنہ پیچ در پیچ اضطراب کے سلسلوں میں۔
ایک عشرہ ہونے کو آیا، حفیظ صاحب نے جب بتایا تھا کہ 70برس میں پاکستانی گلیشیر پگھل جائیں گے۔ ان عظیم الشان پہاڑی سلسلوں پہ جمی برف کے تودے جو لاکھوں سال میں تعمیر ہوئے۔ درجہء حرارت بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کا نہری نظام دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ اس کی موجودہ مالیت پانچ سات سو بلین ڈالر سے کم نہیں ہوگی۔ ہم مگر پانی ضائع کرنے والی قوم ہیں۔ ربع صدی پہلے تک گندم کے کھیتوں کو مطلوبہ مقدار سے کہیں زیادہ پانی دیا جاتا۔ آبادی اور زیرِ کاشت رقبہ بڑھتا گیا تو یہ مقدار کم ہونے لگی۔ تب یہ انکشاف ہوا کہ کتنا پانی صدیوں ہم رائیگاں کرتے رہے۔
ایوب خاں کے عہد میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا۔ کہا جاتاہے کہ ایوب خاں نے ہمارے دریا بیچ دیے۔ ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایوب خاں کے عہد میں ملک کمزور نہیں تھا۔ خاص طور پر بین الاقوامی تائید کے حوالے سے۔ غیر جانبداری کے نام پر بھارت سوویت یونین کا حلیف تھا؛چنانچہ دسمبر 1979ء میں سرخ سپاہ نے افغانستان پہ یلغار کی تو چند ماہ بعد برسرِ اقتدار آنے والی کانگرسی حکومت نے سوویت یونین کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ جب کہ اوّل 122اور پھر 124اقوام پاکستان کی پشت پہ کھڑی تھیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ راوی، بیاس اور ستلج کے پانی سے محرومی نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے۔
بھارت کو ڈیم تعمیر کرنے سے ہم روک نہیں سکتے۔ خود ہم پانی کے بند بنا نہ سکے، جو ہماری اہم ترین ضروریات میں سے ایک تھے۔ تربیلا اور منگلا، دو بڑے ڈیم ایوب خان کے دور میں بنے۔ پھر عدمِ استحکام کے اس سلسلے کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ سیاستدانوں کی ساری توانائی اقتدار کی کشمکش میں کھپ جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی محض اس بنا پر مخالفت کی گئی کہ اس کی رائلٹی پنجاب کو ملے گی۔ سندھ، بلوچستان اور پختون خوا کی قوم پرست پارٹیوں نے طوفان اٹھا ئے رکھا۔ تاثر یہ دیا گیا کہ کالا باغ ڈیم بنا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ یہ سفید جھوٹ تھا۔ اس لیے کہ ڈیم میں پانی ذخیر ہ ہونے سے سیلاب کا خطرہ کم بلکہ ختم ہوتاہے، بڑھتا نہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سندھ کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ یہ بھی صریح غلط بیانی تھی۔ اس لیے کہ جب پانی زیادہ ہوگا توسب صوبوں کا حصہ بڑھے گا، کم نہیں ہوگا۔
پختون خوا سے تعلق رکھنے والے واپڈا کے ماہرِ فن، نجیب اور دیانت وامانت کے لیے شہرت رکھنے والے چئیرمین شمس الملک ایک ایک دروازے پر دستک دیتے رہے۔ ماہرین کی آرا اور نقشوں کی مدد سے ہر ایک کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے تمام صوبوں کو فائدہ پہنچے گا۔ ایسے ہی ایک موقعے پر عبد الولی خاں نے جھلا کر کہا: آپ کے تمام دلائل اگر درست ہوں، تب بھی ہم کالا باغ ڈیم کی مخالفت کریں گے۔
خدا خدا کر کے بھاشا ڈیم کی بنیاد رکھی گئی ہے اور شجر کاری کے اس سلسلے کا آغاز ہوا ہے جو بارشوں میں بیس فیصد اضافے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سیاستدانوں کا مگر وہی کھیل ہے۔ عالمی ادارے تسلیم کرتے ہیں مگر ہمارے لیڈر مانتے ہی نہیں کہ پختون خوا میں بڑے پیمانے پر درخت لگائے گئے۔ دس ارب اور بھی لگا دیے جائیں، تب بھی وہ مان کر نہیں دیں گے۔ عدمِ استحکام پیدا کرنے اور بے سمتی سے قومی توانائی برباد کرنے والا یہ باہمی عداوت کا ثمر ہے اور تنہا اپوزیشن ہی قصوروار نہیں۔ اللہ جانے حقیقت پسندی، اعتدال اور صداقت کا راستہ ہم کب اختیار کریں گے۔ جانے کب!