Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Mafahmat Ki Baaten Haqiqat Ya?

Mafahmat Ki Baaten Haqiqat Ya?

مفاہمت کی باتیں حقیقت یا؟

ملک جس انتشار و افراتفری کا شکا رہے اِس کا حل سیاسی مفاہمت ہے۔ اطمنان بخش امریہ ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی میں مزاکرات کی خبریں گردش کرنے لگے ہیں جس کا فی الحال دونوں طرف سے اعتراف نہیں کیا جارہا، لیکن ایسا ماحول بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جس سے سیاسی کشیدگی میں کمی آئے، جبکہ دونوں طرف کے جذباتی لوگوں کی پوری کوشش ہے کہ ایساماحول نہ بننے پائے جس کی بدولت مفاہمت کی باتیں حقیقت کا روپ دھار لیں۔

اِس لیے الزام تراشی اور طعنے دینے کاعمل زور و شور سے شروع کر رکھا ہے مگر سنجیدہ طبقے کی آرزو ہے کہ جب ملک کے مفاد کی بات ہو، معیشت کی بحالی کا عمل ہو یا پھر امن و امان یقینی بنانے کی کوششیں، تو حکومت اور اپوزیشن کو نتیجہ خیز مزاکرات سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر سیاسی منظرنامے پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے دونوں طرف سنجیدگی نہیں اسی بنا پر بات چیت کے لیے سازگار صورتحال نہیں بن پا رہی۔

دراصل حکومت اور اپوزیشن دونوں کا رویہ گزشتہ کئی ماہ سے بے لچک ہے جس کی سزا عوام اور اِدارے بُھگت رہے ہیں کیونکہ اپوزیشن کی توجہ حکومت کو زچ کرنے، جب کہ حکومت کی ساری توجہ اپنے دفاع پرہے جس سے عوامی مسائل کا حل حکومت کے لیے ثانوی ہوچکا ہے جبکہ اِداروں کی تضحیک اور ان پر الزام تراشی اپوزیشن کی اولیں ترجیح ہے جس کی تائید یا تحسین نہیں کی جا سکتی بہتر یہی ہے کہ جب ملک و قوم کی فلاح کی بات ہو تو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کیا جائے۔

یہ نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کو درپیش مسائل کا ادراک نہیں لیکن ایک دوسرے کو رگیدنے اور پچھاڑنے میں اِس حد تک مگن ہیں کہ اُنھیں کسی اور طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں جس سے سیاسی بحران بند گلی کی طرف جاتا محسوس ہونے لگا ہے۔ سانحہ نومئی اُچھال کر حکمران اِداروں کو پی ٹی آئی سے بدظن کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، اب تو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والا جتھہ ثابت کرنے کا بہانہ بھی ہاتھ لگ چکا ہے، اِس لیے اُن کی کوشش ہے کہ اپوزیشن سے اِداروں کا سلسلہ جنبانی بحال نہ ہو۔

اپنے مقصد میں شاید اُنھیں کامیابی نہ ہوتی مگر سوشل میڈیا پر گولی چلنے جیسی زہریلی باتوں سے پیداشدہ تحفظات سے اُن کے موقف کو تقویت ملی ہے اور ایسا تاثر قوی تر ہوا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان دونوں ہی ملکی سلامتی کے ضامن اِداروں کے خلاف ہیں۔ یہ تاثر شرفِ قبولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اگرمفاہمت کی طرف آنا ہے تو یہ منفی تاثرختم کرنا ہوگا۔

ملکی صورتحال کے تناظر میں مفاہمت کی باتیں کرنا جتنا آسان ہے عملی طور پر ویسا نہیں جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مقتدرہ کے اعتماد کی بنا پر حکومت کا خیال ہے کہ اُسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ماضی شاہد ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی تبدیلی طاقتور حلقوں کے تعاون کے بغیر کبھی نہیں آئی، مگر حکومتی امورکے لیے عوامی اعتماد بھی ضروری ہے۔ نیز ایسی منصوبہ بندی بھی لازم ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات کم ہوں جو انتشار و افراتفری کے ماحول میں ممکن نہیں۔

اگر آج مقتدرہ سہولت کاری چھوڑ دے تو شاید ہی موجودہ ریاستی نظام برقرار رہ سکے۔ علاوہ ازیں حکومت نے اگر سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا رکھا ہے تو اپویشن نے بھی پہ در پہ حمقاتوں سے اپنے لیے اتنی سختیاں بڑھانے کی ہرممکن کوشش کی ہے جس کی وجہ سے قبولیت کا امکان ہی معدوم ہوا ہے۔ جب تک دونوں طرف سے زمینی حقائق کا ادراک نہیں کیا جاتا اور سوچ سمجھ کر فیصلے نہیں کیے جائے تب تک مفاہمت کی باتیں تو ہو سکتی ہیں لیکن عملی طورپر مفاہمتی عمل کٹھنائیوں سے نکل نہیں سکتا۔

بظاہرپی ٹی آئی نے مزاکرات کے لیے پانچ رُکنی کمیٹی بنا دی ہے جو سنجیدہ طبقے کے خیال میں ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ بات چیت پر رضا مندی کے ساتھ سنجیدگی کا تاثر ملا ہے لیکن ساتھ ہی سول نافرمانی کا عندیہ دینا ناقابلِ فہم ہے۔ ایسے اطوار سے بات چیت کا عمل شروع ہونا تو درکنار سختیوں کاعمل بھی نرم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حکومتی حلقوں کی طرف جب نگاہ دوڑاتے ہیں تو بات چیت کے لیے سنجیدگی مفقود ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی مزاکرات کی بساط بچھانے سے انکاری اب اسلام آباد کی کال پر عمل کے ذمہ داران کو انجام تک پہنچانے کا عزم و ارادہ ظاہر کرتے نظر آتے ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے بات چیت کی پیشکش اخلاص و سنجیدگی پر مبنی نہیں ظاہر ہے ایسے کردار وعمل سے سیاسی استحکام کی منزل حاصل ہوناکسی طور ممکن نہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی استحکام سیاسی مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں اور مفاہمت تبھی ممکن ہے جب برداشت و رواداری کی فضا ہو، یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ دونوں نے بات چیت تو ایک طرف ملاقاتوں تک کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھ رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ حکومت مزاکرات کی ضرورت محسوس نہیں کرتی بلکہ اُسے عوامی دباؤ کا احساس ہے لیکن ریاستی اِداروں کو ٹارگٹ کرنے کے عمل میں ملوث کسی فرد کو معافی دینے سے بچنا چاہتی ہے۔

ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کیونکہ ریاستی اِداروں کے احترام پر سمجھوتہ کوئی محب الوطن برداشت نہیں کر سکتا مگر جب پی ٹی آئی کی صفوں کی جانب نگاہ دوڑاتے ہیں تو قیادت سے لیکر کارکن تک نہ صرف ملک کے اندر تاک تاک کر نشانے لگانے میں مصروف ہیں بلکہ بیرون ملک بھی اِداروں کو بدنام کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ریاستی کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور کارکنوں کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لیا جائے اگر اپنے لیے گنجائش کے متمنی ہیں تو رویے میں تبدیلی لائیں تاکہ ریاستی اِداروں کے تحفظات ختم ہوں تبھی مفاہمت کی باتیں حقیقت کا روپ دھا رسکتی ہیں۔

الزام تراشی بہت آسان ہے مگر شواہد کے بغیر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ رواں برس آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کا شور مچاکر موجودہ پارلیمنٹ کو فارم 47کی مرہونِ منت قرار دیا گیا لیکن اپنے الزام کو ثابت کرنے سے اپوزیشن ابھی تک گریزاں ہے۔ سپریم کورٹ میں مبینہ دھاندلی کے خلاف درخواست کی سماعت پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان بولے مجھے تو نوٹس ہی موصول نہیں ہوا جس کی وجہ سے تیاری نہیں کر سکا۔ اِس لیے سماعت موسمِ سرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دیں۔

ارے بھئی انتخاب ہوئے دس ماہ بیت چکے اتنے عرصے میں جب شواہد اکٹھے نہیں ہو سکے اور تیاری کے لیے وقت نہیں مل سکا تو موسمِ سرما کی تعطیلات کے بعد سب کچھ کیسے ممکن ہوجائے گا؟ لہذا کیا بہتر نہیں کہ مفروضوں پر باتیں اور تصوراتی قلعے تعمیر کرنے کی بجائے زمینی حقائق کا ادارک کر لیا جائے کیونکہ حکومت گرانے کی امریکی سازش اور اسلام آباد میں گولی چلانے جیساالزامات کو بھی شواہد سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے، نیز ریٹائرڈ جنرل ہی سہی پر فردِ جرم لگنا ثابت کرتا ہے کہ مفاہمت کے لیے فضا سازگار نہیں۔

Check Also

Gharnata Mein Christmas

By Javed Chaudhry