حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاست
ان دنوں ہمارے ملک میں موجودہ اور سابق حکمران ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہوئے، آپس میں اس طرح جوتم پیزار ہیں کہ ملک کے بچے، جوان اور بزرگ جو نیک، با اصول، ایماندار اور تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ پاکستان کو پاک اور صاف دیکھنا چاہتے ہیں، اب نقل مکانی کر کے ملک سے فرار کے رستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ سخت پریشان، متفکر اور بد دل ہو رہے ہیں۔
جب کہ مذہبی لیڈر اپنی اپنی زبان اور کردار سے تفرقہ پھیلا کر اپنی دکانیں چمکانے میں رات دن مصروف رہتے ہیں۔ کاروباری لوگ البتہ آج بھی تجوریاں بھرتے ہی پائے جاتے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے سیاستدان، ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنے میں مصروف ہیں۔ جی بی الیکشن جیتنے والے فتح کا جشن منا رہے ہیں اور شکست خوردہ نتائج مسترد کررہے ہیں۔ یہ تماشہ ہر الیکشن ریزلٹ کے بعد لگتا ہے۔
ہوناتویہ چاہیے کہ الیکشن جیت کر حکومت بنانے والی پارٹی انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کو پوری نیک نیتی پورا کرے جب کہ اپوزیشن کا کام ہے کہ جہاں حکومت اختیارات سے تجاوز کرے یا اپنے منشور سے روگردانی کرتی پائی جائے اس پر اصلاحی تنقید کر کے اس کو صحیح رستہ دکھایا جائے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن شروع دینے سے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے لیے تیار نہں ہوتیں۔ ابھی کچھ روز قبل گلگت بلتستان میں الیکشن ہوئے۔
پاکستان کا یہ پہاڑی علاقہ اس قدر خوبصورت ہے کہ دشوار گزار ہونے کے باوجود دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی وادیوں کی طرف بلاتا، بلکہ کھینچتاہے۔ اس کی ندیاں اور وادیاں ملک کے شمالی علاقوں میں ہیں، ان میں اسکردو، ہنزہ، خنجرابPass مشہور ہیں۔ ہمارے دو سول آفیسر جی ایم سکندر جو اب لاہور میں اور افضل شگری جنھوں نے اسلام آباد میں سکونت اختیارکی ہوئی ہے، ان کے نام سے شاید ہی کوئی سرکاری ملازم ناواقف ہو، وہ انھی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیکریٹری اور دوسرے انسپکٹر جنرل پولیس رہے۔
جیسا کہ ذکر کیا، ہمارے ہاں الیکشن ہارنے والی سیاسی پارٹی کبھی ہار نہیں مانتی۔ ریزلٹ کو فراڈ، دھوکے، rigged، دھاندلی، چوری کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ راتوں رات نتائج تبدیل کیے جانے اور بیلٹ باکس چوری کیے جانے کا الزام دیتی ہے۔ یہی کچھ عمران خان اور تحریک انصاف نواز شریف حکومت کے خلاف کرتی رہی۔ اب ڈھائی سال سے اپوزیشن کاموقف ہے اور عمران خان کو Electedوزیر ِ اعظم کے بجائے Selectedکہتی ہے۔
گلگت بلتستان کے الیکشن میں بلاول زرداری اور مریم صفدر نے مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ تین تین ہفتے دشوار گزار علاقے کے الیکشن سے قبل ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو Electioneering میں خطاب کیا۔ اُن دونوں کے جلسوں میں عوام کا ہجوم اور جھنڈوں کی بہار سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ بلاول اب اُردو زبان سیکھ کر دلچسپ تقریر کرتا ہے۔ اِس کے ہمراہ مریم صفدر ایک سال کی خاموشی توڑ کر ان دنوں اپنے پرجوش تقریریں کر کے پارٹی کو منظم رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، لیکن گلگت بلتستان کے الیکشن کے کے نتائج کو حزب ِاختلاف نےRigged کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
نون لیگ کے بانی اب پارٹی کی صدارت سے دستبردار ہو کر لندن جا کر علاج کر ارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ جلسوں سے خطاب بھی کررہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل انھیں گردے میں پتھری ہونے کی وجہ سے علاج کی غرض سے اسپتال لے جایا گیا تو مجھے جوشؔؔ ملیح آبادی یاد آئے کہ جب انھیں بتایا گیا کہ ایک عالم دین کے گردے میں پتھری ہے تو جوشؔؔ، صاحب نے کہاـ "اچھا تو انھیں اندرسے سنگسار کیا جارہا ہے "۔ جوشؔؔ صاحب سے مجھے اپنی دو ملاقاتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک با ر جب وہ اپنے نواسے کے گرفتار ہونے پر میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ دوسری ملاقات ایک ریستوران میں جہاں ہم نے فرائیڈ فش کھائی۔ یہ الگ بات کہ میں نے صرف فش ہی کھائی تھی۔
میاں صاحب کو علاج کے لیے لندن جانے، لیکن مقررہ مدت میں بحیثیت ملزم واپس آ نا طے ہوا تو حکومت کی طرف سے ہیوی رقم کاBail bond دینے کی شرط رکھی گئی تھی جسے عدالت نے Drop کر دیا۔ اسی وجہ سے وہ لندن بغرض علاج گئے ہیں۔ یہیں مجھے خیال آیا کہ ہمارے ملک میں لوگ سزا یافتہ ہو جانے والے اپنے سیاسی لیڈر سے کچھ ہی عرصہ بعد کنارہ کشی کر لیتے ہیں لیکن نواز شریف کے سیاست سے الگ ہونے بلکہ سزا یافتہ اور مفرور ہونے کے باوجودکیوں ان کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے۔ ایسا تو ہمارے لوگوں کی عادت بلکہ فطرت کے خلاف ہے۔
کچھ دانشوروں سے پوچھا تو دو باتیں مجھے بتائی گئیں۔ پہلی یہ کہ میاں صاحب نے اپنے دور اقتدارمیں اپنے حامی پیدا کیے اور مقتدر حلقوں سے لڑائی لڑی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ میاں صاحب جنرل پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے طویل عرصہ ملک بدر رہ کر واپس آئے تو مرکزی اور پنجاب کی حکومت پھر ان کے قدموں میں تھیں۔ انھیں یقین ہے کہ اقتدار پھر ان کے قدم چومے گا۔ خدا جانتا ہے کہ اقتدار ایک بار پھر انھی کو ملے گا یا عمران خان کامیاب ہو گا۔ اس وقت نواز شریف کی واپسی اور ان کی پارٹی کا اقتدار میں آنے کا امکان نہیں لگ رہا۔