ہتھ نہ لائیں میرے ووٹ نوں (2)
اس کالم کی شان ِ نزول ایک نہایت عمر رسیدہ خاتون کا غصّے سے بولا ہوا وہ فقرہ ہے جو اس نے میرا ہاتھ جھٹکتے ہوئے راولپنڈی وومین کالج کے ایک کمرے میں 1970کے جنرل الیکشن کے دوران ادا کیا تھا اور وہ پنجابی زبان کا فقرہ مجھے ہُو بہو یاد آ گیا ہے کیونکہ گزشتہ دنوں سینیٹ کے الیکشن سے کئی دن پہلے سے ٹیلیوژن پر لوگوں کے کان میں اس الیکشن میں دھاندلی اور ووٹوں کی ممکنہ خرید و فروخت کی داستانیں سن سن کر پک گئے تھے۔
میری ڈیوٹی 1970 کے الیکشن میں دس پولنگ اسٹیشنز کا رائونڈ کرنا اور لاء اینڈ آرڈر کی نگرانی کرنا تھا۔ میں نے اس بزرگ خاتون کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں اتنا رعشہ تھا کہ ووٹ کی پرچی باکس کی Slit میں نہیں جا رہی تھی۔ ایک آدھ منٹ اس خاتون کی مشکل دیکھ کر میں نے مودبانہ اپنی سروس آفر کی جس پر اس نے غصے سے کہا تھا "ہتھ نہ لائیں میرے ووٹ نوں " اور بالآخر وہ کامیاب ہو گئی تھی۔
اسی لیڈیز پولنگ اسٹیشن کا دورہ کر کے میں سامنے والے مین گیٹ کے بجائے ایک پیچھے والے دروازے سے باہر نکلنے کے لیے چلا تو دو تین مردوں کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر انھیں روک کر کہا، یہ خواتین کا پولنگ اسٹیشن ہے، آپ لوگ کدھر جا رہے ہیں؟ آگے والے نے جواب دیا، آپ بھی تو مرد ہیں جس پر میں نے کہا کہ " میں تو ڈیوٹی پر ہوں " ان کے پیچھے سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص نے انگریزی میں کہا "We are also on duty " تب میں نے انھیں پہچان لیا کہ وہ تو پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ہیں اور پھر انھیں پولنگ اسٹیشن کا رائونڈ لگوایا۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ٹیلیوژن سیاسی، سماجی خبروں سے زیادہ دلچسپ اور معلوماتی خبریں اور تفریحی معلومات کے علاوہ معروف ادیبوں اور شعراء کے پروگرام نشر کرتا تھا اور کچھ وقفے کے بعد مختصر اشتہار بھی چلا دیتا تھا جب کہ اب سیاسی گالم گلوچ سے ملتی جلتی، گھسی پٹی اور ہزار بار کی رٹی رٹائی الزام تراشی سے دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ دن میں کئی بار اور مہینے کے تیس دن بار بار وہی باتیں سننے والے ٹی وی ناظرین شکل دیکھ ہی بتا دیتے ہیں کہ اس نے کیا کہنا ہے۔ سیاسی رہنماؤ ں کے ایک دوسرے کے خلاف جو الزامات آٹھ دس سال قبل جلوسوں یا انٹرویوز میں لگائے جاتے رہے، وہ ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہیں اور اب بھی سننے اور دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
مجھے اپنی ملازمت کے دوران تین بار ساہیوال اور گوجرانوالہ میں بحیثیت ریٹرننگ آفیسر الیکشن کرانے کا موقع ملا ہے۔ امیدوار کو چند ہزار روپے فیس جمع کرانی ہوتی تھی۔ الیکشن سے پہلے جلسے جلوس تو ایک معمول کی بات ہوتی تھی۔ ووٹروں کو محدود حد تک کھانے بھی کھلائے جاتے تھے۔ کسی جگہ دنگا فساد بھی ہو جاتا تھا لیکن تب ووٹروں کو شامل کرنے اور خریدنے کے لیے مال لگانے کا کبھی ذکر سنا، نہ الزام ہی لگتے دیکھا۔
گزشتہ کئی سال سے البتہ ذات برادریوں کوWin Over کرنے کے لیے کھانے پلانے کی دعوتوں اور میٹنگوں کا ذکر بھی ہونے لگا ہے اور الزام لگتے بھی سنے لیکن اگر گزشتہ چند سالوں پر نظر دوڑائیں تو حکمران جماعت کی طرف سے اپنے امیدواروں کو ترقیاتی کاموں کے لیے سرکاری خزانے سے فنڈز دے کر " کچھ لگائو کچھ کھائو " کا کلچر عام ہوتے دیکھا جا سکتا ہے لیکن آج کل کی الیکشن Campaign کا ذکر ٹیلیوژن اسکرینوں پر اخبارات اور عوامی جلسوں میں دیکھیں، پڑھیں اور سُنیں تو محسوس ہوتا ہے کرپشن، الزام تراشی، گالی گلوچ، بدزبانی ہمارے عوام میں ہی نہیں خواص کے رگ و پے میں بھی سرائیت کر چکی ہے اور سیاست کرنے کے لیے کرپشن کا مال اور بد تمیزی کے مظاہر ہماری آیندہ نسلوں کو برباد کر کے رکھ دیں گے۔
ہمارے اکثر دوستوں اور ملاقاتیوں کے مطابق 2021کے سینیٹ چیئرمین کے الیکشن جیسا گھمسان کا رن اس سے پہلے کبھی نہیں پڑا تھا بلکہ کسی اخبار یا ٹی وی نیوز نے بھی اس الیکشن میں دلچسپی لینے کی خواہش نہ جگائی تھی۔ ویسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) باریاں لے کر حکومت کے مزے اُڑا چکی ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ " تو چل تے میں آیا " کی طرز پر یہی دو سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی رہیں۔ دونوں جماعتوں نے اقتدار میں آکر ایک دوسرے پر ثابت نہ ہو سکنے والے کرپشن مقدمات بنا کر وقت پورا کیا۔ دونوں کے پاس البتہ ایک دوسرے کی اندرونی کہانیاں موجود اور علم میں ہیں۔
اس وقت ایک سزا یافتہ سابق حکمران بغرض علاج لندن میں ہے اور پاکستان میں اپنی صاحبزادی کے ذریعے سیاست چلا رہا ہے۔ اس کا پاسپورٹ اور ویزہ Expire ہو چکے ہیں، البتہ یہ بھی سچ ہے کہ اس سابق سزا یافتہ حکمران کو عدالتی فیصلے کی بنا پر وزیراعظم عمران خان نے ہی لندن جانے کی اجازت دی تھی۔ دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاست ہے۔
سمجھ نہیں آتی ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کو کرکٹ میں ممتاز کرنے والا اتنا اناڑی ہے یا مجبور ہے جس کی تفصیلات سے ہم لا علم ہیں کہ اس کے پونے تین سال کی وزارت ِ عظمیٰ کے دور میں وہ جنھیں مہا کرپٹ کہتے ہیں، وہ کبھی جیل گئے اور کبھی ضمانت پر VIP زندگی گزارتے دیکھے جا سکتے ہیں اور کھلاڑی وزیر ِ اعظم اپنی ہر تقریر میں یہ فقرہ دہرائے جا تا ہے کہ " میں کسی کرپٹ کو NRO نہیں دوں گا "۔ کوئی کیس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتا۔
بے شمار مقدمات دیکھے گئے ہیں جنھیں لوئر کورٹ سے اعلیٰ ترین عدالتوں تک بغرض سماعت جاتے دیکھا ہے، اور مدعیوں اور ملزمان کے پوتے اب بھی مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل چیئرمین Senate کا الیکشن ہو ا ہے جس میں سابق وزیر ِ اعظم گیلانی کو صادق سنجرانی نے شکست دی ہے لیکن ہارنے والا بلاول زرداری، مریم صفدر اور آصف زرداری کا نمایندہ تھا جب کہ سنجرانی کوPTI یعنی عمران خاں کی سپورٹ تھی لیکن PDM اپنی ہار ماننے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کر رہی ہے اور یہ فساد طویل عرصہ چلے گا۔ یہاں مجھے ایک بارپھر وہ نحیف و بزرگ ووٹر یاد آ گئی ہے جس نے اپنے ووٹ کی حُرمت قائم رکھنے کے لیے مجھے کہا تھا، " ہتھ نہ لائیں میرے ووٹ نوں " جب کہ آجکل تو ووٹ بکائو مال ہے جس کی بولی لگتی ہے۔