گٹر کا ڈھکن
امریکا کے شہر Detroit میں صبح سیر کرنے کے دوران فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک گٹر کے اوپر پڑے اسٹیل کے ڈھکن کو دیکھ کر میں رک گیا۔ اس پر ابھری ہوئی تحریر تھی Municipal Corporation Michigan۔
ڈھکن صاف ستھرا تھا اور دیکھنے میں بالکل نیا معلوم ہوتا تھا۔ ایک سو گز کے فاصلے پر بالکل اسی قسم کا ایک اور ڈھکن تھا۔ میں وہاں رک گیا کیونکہ مجھے چند سال قبل لوڈشیڈنگ کے اندھیرے میں لاہور کے ایک فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک ڈھکن کے بغیر مین ہول میں اپنا اچانک جا گرنا یاد آ گیا تھا خدا کا شکر کہ مجھے معمولی چوٹ آئی تھی۔
پھر مجھے یاد آیا کہ لاہور میں بیس پچیس سال قبل لوہے کی چوری کی غرض سے رات کی تاریکی میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کی وارداتوں میں اضافے کے سبب میونسپل کارپوریشن کے ریت وسیمنٹ سے تیار کردہ ڈھکن تیار کر کے خالی مین ہول بند کرنے کے دن یاد آ گئے۔ میں ذرا سستانے کے لیے فٹ پاتھ کے آخری حصے میں لوہے کے بنچ پر بیٹھ گیا اور بنچ کو پیار سے تھپکی دے کر بولا کہ بچو! شکر کرو تم لاہور کے کسی فٹ پاتھ پر نہیں پڑے ہو ورنہ اس وقت کسی لوہے کی بھٹی میں سے اپنی شکل تبدیل کر کے نکل چکے ہوتے۔
میرے ذہن میں آیا کہ ان ترقی یافتہ ممالک کے معاشی اور معاشرتی حالات کبھی ہم سے بدتر تھے اور پھر ان کی بہتری اور ترقی کا گراف بلندی کی طرف اٹھا اور آج ان کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کتنے برے حالات کی گرفت میں ہیں۔ پھر یہ سوال بھی سر اٹھاتا ہے کہ کیا ہم انفرادی طور پر گراوٹ کے ذمے دار ہیں یا اس کا ملبہ اپنے بڑوں یا حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ جمعہ نماز کے لیے ایک مسجد میں جانا ہوا۔ لوگ خاموشی سے آ کر اپنی اپنی موٹرکار ترتیب اور قطاروں میں کھڑی کر کے اندر داخل ہو رہے تھے۔ اپنا دروازہ آرام سے بند کر کے جوتے اتار کر وہاں پڑے سلیپر پہن کر واش روم یا وضو کے لیے جا رہے تھے، نہ شور مچاتے ہوئے گلا صاف کرتے نہ ٹانگیں اٹھا کر بیسن میں پاؤں دھوتے۔ ان کے باتھ رومز صاف ستھرے تھے۔ کسی جگہ پانی یا کیچڑ نہ تھا۔
نہایت شائستگی سے خطبہ ہوا۔ ادائیگی نماز ہوئی۔ امام صاحب بالکل نہیں چنگھاڑے اور دائیں بائیں کسی کو باتیں کرتے یا ایک دوسرے کو گھورتے نہ پایا۔ ان نمازیوں کی اکثریت غیرمقامی نظر آتی تھی۔ چند لوگ انڈو پاک کے نظر آتے تھے۔ میں نے ان لوگوں اور عبادت گاہ کا مقابلہ اپنے ہاں سے کیا تو شرمندگی محسوس کی۔ صفائی کے حوالے سے اگر ان لوگوں کا موازنہ خود سے کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب صفائی ان کے ایمان کا حصہ بن چکی ہے۔
آزمانے کے لیے میں نے ایک اسٹور کے باہر کھڑے کچھ فاصلے پر ایک پانچ سات سال کے بچے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ایک ٹشوپیپر کا ٹکڑا جیب سے نکال کر زمین پر گرا دیا۔ وہ کمسن بچہ قریب پہنچا تو اس نے وہ ٹشوپیپر زمین سے اٹھا لیا اور کچھ دور پڑے ڈسٹ بن میں پھینک کر چلتا بنا۔ پھر میں نے ایک اور کاغذ کا ٹکڑا اسی جگہ منہ دوسری طرف کر کے پھینک دیا۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھی عورت جو اس طرف چلتی ہوئی آ رہی تھی، وہاں رکی، کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا تو میری آنکھیں شرمندگی سے دھندلا گئیں۔
ان لوگوں کی سڑکوں، اسٹورز، بازار، ریستورانز، پبلک پلیسز، پلے گراؤنڈز، ریلوے پلیٹ فارمز ودیگر جگہیں جہاں ہم وزیٹرز کی رسائی ہوتی ہے، ان کو صاف ستھرا، غلاظت سے پاک شفاف دیکھ کر اپنے یہاں کے کوڑے کرکٹ زدہ علاقوں اور لوگوں کو آتے جاتے بلکہ اپنی کاروں میں سے باہر استعمال شدہ اشیاء باہر پھینکتے دیکھ اور یاد کر کے دکھ ہوتا ہے جب کہ کسی کو پبلک پلیس پر گری چیز اٹھا کر کسی ڈسٹ بن میں پھینکتے دیکھنا تو زندگی کی حسرت ہی سمجھئے۔
اس ملک میں سڑک کی ٹریفک کا ڈسپلن بھی قابل تعریف ہے جس کی ایک وجہ تو موٹر ڈرائیوروں کی خود پر ٹریفک رولز کی پابندی، دوسرے بلاتخصیص خلاف ورزی پر گرفت ہے۔ یہاں بھی وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے لیکن کسی کے قافلے میں چالیس موٹریں ٹریفک درہم برہم نہیں کرتیں۔ اگر کوئی شخص غلط جگہ سے سڑک کو پیدل کراس کر رہا ہو تب بھی گاڑیاں رک کر اس کو گزرنے دیتی ہیں۔ آؤٹ آف ٹرن ایک گالی ہے۔ قطار بندی لازم ہے۔
اگر کسی نے آپ سے پہلے گزرنے کے لیے درازہ کھول لیا تو وہ اپنے پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ پکڑے اس کے گزرنے کا انتظار کرتا ہے۔ کسی برابر سے گزرنے والے سے اتفاقاً نظریں دوچار ہو جائیں تو وہ مسکرا کر Greet کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ قصہ مختصر صفائی پر لفظی نصف ایمان کے بجائے عملی ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ قائداعظم محمد علی جناح کے Unity Faith Discipline کو دیواروں پر سجانے کے بجائے دلوں میں اتار کر ان پر عملی اظہار کی ضرورت ہے۔