دائم آباد رہے گی دُنیا
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
میں نے اپنے مرحوم دوست شیخ لطف الرحمن لطفی کے بیٹے فیض کو کراچی فون کیا اور اس سے ایک سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے کی بابت دریافت کیا کہ تمہاری اس سے ملاقات کتنا عرصہ قبل ہوئی تھی۔ اس کا جواب تھا کہ شاید چھ ماہ قبل، جب لطفی اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔
لطفی کو میں نے ہی 1973ء میں اس سے کوہ مری میں ملوایا تھا۔ وہ ملاقات بھی اتفاقیہ اور سرسری تھی لیکن ان کی بے مثال قربت میں بدل گئی۔ میں ان دنوں Resident Magistrate کوہ مری تھا اور لطفی کراچی سے آ کر ریسٹ ہاؤس میرے پاس ٹھہرا ہوا تھا۔ سابق چیف منسٹر سندھ اُن دنوں فیملی کے ساتھ کوہ مری سی ایم ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ ان کی رہائش گاہ میں بجلی یا پانی کا پرابلم ہوا جسے ٹھیک کرانے کے لیے متعلقہ اسٹاف کو ہدایات دیکر میں بھی CM ہاؤس کے لیے روانہ ہو ا اور اپنے دوست لطفی کو بھی ہمراہ لے لیا۔ وہاں ان کے بیٹے سے ملاقات ہو گئی۔
سابق وزیراعلیٰ کا بیٹا اور لطفی دونوں کراچی سے آئے ہوئے تھے۔ وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ لطفی باتیں کرنے اور دوستی کرنے میں بے مثال شخصیت تھا۔ میرے والدین کی رہائش راولپنڈی میں تھی۔ آیندہ اتوار کا لطفی نے بندوبست کیا کہ وہ اس امیرزادے کو ہمراہ لے کر ہمارے راولپنڈی والے مکان پر لنچ کریگا۔
ہم تینوں نے لنچ کر لیا تو امیر زادے نے مجھ سے پوچھا کہ آپکے پاس کوئی فالتو Unlicenced پسٹل یا ریوالور ہو گا۔ میں نے معذرت کی لیکن میرے چھوٹے بھائی نے یہ گفتگو سن لی اور دوسرے کمرے سے ایک ریوالور لا کر اسے پیش کر دیا۔ امیرزادے کی عمر اس وقت بیس بائیس سال ہو گی۔ دو تین دنوں میں اس کی دوستی لطفی سے اس لیے بہت پکی ہو گئی کیونکہ دونوں کا تعلق کراچی سے تھا اور لطفی دوستی کا تعلق بنانے میں بے مثال تھا۔ میں صبح ڈیوٹی پر کچہری چلا جاتا تو دونوں اکٹھے گھومتے پھرتے۔
میری تو ملازمت تھی، لطفی کچھ روز کے بعد کراچی چلے گئے۔ اُنکے واپس جانے کے تین روز بعد لطفی کا کراچی سے ٹیلیفون آیاکہ اس امیرزادے کے ایک فیملی ملازم کو جہلم کی ریلوے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے کیونکہ اس سے بغیرلانسس پسٹلز برآمد ہوئے جس پر اس کے خلاف FIR کاٹ کر کیس بنایا گیا اور ملازم کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ لطفی نے کہا کہ اس واقعے کی خبر امیر زادے کے والد تک پہنچی تو اس کی شامت آ جائے گی۔ لطفی نے بتایا کہ وہ اگلی صبح کی فلائٹ پرآکر راولپنڈی ایئر پورٹ سے ٹیکسی لے کر میرے راولپنڈی والے مکان پر آئیگا لہٰذا میں بھی کوہ مری سے راولپنڈی پہنچ جاؤں تاکہ ملازم کی ضمانت اسی روز ہو جائے۔ ہم جہلم کچہری پہنچے۔ وہاں اسلم صاحب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے کمرے میں چائے پی۔ میں نے ضمانت دی، ملزم کو جیل سے بلوایا۔ لطفی نے اسے سفر خرچ دیا۔ ڈرائیور ملازم کو ریلوے اسٹیشن چھوڑنے چلا گیا اور ہم اسلم صاحب کا شکریہ ادا کر کے راولپنڈی پہنچے۔
لطفی ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوا اور میں کوہ مری کے لیے۔ لیکن اس ضمانت پر رہائی کا پارٹ Two ذرا مختلف ہے۔ ملزم کا کیس چلا۔ کئی تاریخوں پر جب وہ عدالت میں پیش نہ ہوا تو ضمانت منسوخ ہوئی اور مجھے ٹیلیفون کیا گیاکہ غیرحاضر ملزم کے ضامن تو آپ ہیں، میں نے لطفی کو فون کیے۔ انھوں نے کچھ وقت مانگا پھر ایک Accident Road کی FIR جس میں مطلوبہ ملزم کا Death Certificate بھی تھا، عدالت کو بھجوا دیا گیا اور یوں ہماری پولیس کی کارکردگی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی اور وہ مرحوم ملزم جیتا جاگتا دوڑتا بھاگتا اپنا کام کرتا رہا۔ یہ کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے۔ ہماری تاریخ اس سے بھی انوکھے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
شیخ لطف الرحمٰن لطفی کراچی کا معروف انکم ٹیکس کا وکیل تھا۔ اس کے والد شیخ فیض قادر بھی Tax Consultant تھے اور اِس وقت لطفی کا بیٹا شیخ فیض اسی پیشے سے منسلک ہے۔ لطفی نہ صرف اپنے پیشے کا ماہر اور بیشمار انسانی خوبیوں کا مالک تھا۔ اتفاق سے میں اس کی اور وہ میری شادی میں شریک ہوا جو ہماری دوستی کا ایک ثبوت ہے۔ اس کا انتقال 27 اکتوبر2020ء میں ہو گیا۔ ریحان مرزا نے مجھے کراچی سے اس کے مرقد کے کتبے کی تصویر بھیجی ہے جسے میں بار بار دیکھ رہا ہوں۔ اب اس گھرانے کی تیسری نسل Tax Practice سے منسلک ہے اور اس حوالے سے کراچی کے معروف بزنس گروپس ان کے Client تھے۔ میں اس کے گھر کھانا کھا رہا تھا جب TV پر ضیاء الحق کا ہوائی جہاز گرنے کی خبر چل رہی تھی۔
شیخ لطف الرحمٰن لطفی اپنے ٹیکس بزنس کا ماہر تھا۔ دوستوں کا مثالی دوست تھا اور لوگوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار پایا جاتا تھا۔ لطفی انتہائی پر خلوص شخص ہونے کے علاوہ ایک ہمدرد اور قابل وکیل تھا۔ حق مغفرت کرے۔ لطفی عجب آزاد مرد تھا۔ کوئی ایک شخص نہیں ملے گا جو اس کی تعریف کرتا نہ پایا جائے۔ آج ہی ریحان مرزا سے اس کے بارے میں طویل گفتگو ہوئی۔ بہت سے لوگوں کی طرح لطفی کا ذکر کرتے ہم دونوں آبدیدہ ہو گئے۔ مجھے بار بار یاد آ رہا ہے اور کوہ مری میں تعینا تی کے دن سے لے کر لطفی کی پانچ ماہ قبل رحلت کل کی بات محسوس ہو رہی ہے۔