بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق
یہ 5 جولائی 1977 کی بات ہے جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت پر قبضہ کر کے خود کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ڈکلیئر کر دیا جس کا جواز یہ بتایا کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس کو کنٹرول کرنا سویلین حکومت کے بس کی بات نہیں رہی۔
اس کے ساتھ ضیاء الحق نے عوم سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ نّوے دن کے اندر نئے الیکشن کروائیں گے اور وہ اقتدار منتخب سویلین حکومت کو سونپ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو کر خود بھی اپنے آئینی عہدے پر واپس چلے جائیں گے۔ اس وقت چوہدری اختر سعید گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس سے گزشتہ روز 6 جولائی کو ڈی سی اور ایس پی کو ایک اعلی عہدیدار نے اپنے دفتر میٹنگ کے لیے بلایا۔ ڈی سی اس روز رخصت پر تھے لہٰذا میں اور SP میٹنگ پر گئے۔
ہم سے پوچھا گیا کہ ضیاء الحق کے اقدام پر لوگوں کا کیا رد ِ عمل ہے۔ SP نے کھلے الفاظ میں ضیاء الحق کے فیصلے کی تعریف کی اور زور دار طریقے سے کہا کہ عوام نے ضیاء کے اقدام کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس کی تعریف کی ہے۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ لاء اینڈ آرڈر کی پوزیشن واقعی بہت اچھی نہیں ہے لیکن عوام نے ضیاء الحق کے اس وعدے کو جس میں انھوں نے نّوے دن کے اندر Fair and Free الیکشن کروانے کا وعدہ کیا ہے پسند کیا ہے۔
میٹنگ سے واپسی پر میں اور SP ایک ہی گاڑی میں تھے لیکن SP اس بات پر مجھ سے الجھنے لگا کہ میں نے نّوے دن والے ضیاء الحق کے عہد والی بات پر کیوں زور دیا ہے۔ SP نے مجھ سے کہا کہ DC کے نمایندے کی حیثیت سے مجھے کہنا چاہیے تھا کہ بھٹو کی گرفتاری اورنئی حکومت آنے کے بعد سے لوگ جنرل ضیاء الحق پر خوشی سے قلابازیاں کھا کر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ بہر حال یہاں ایک وزیر ِ اعظم اور ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا ذکر ہوا ہے اور ہر دو کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اتفاق سے مجھے بھٹو کو چار بار قریب سے دیکھنے اور جنرل ضیاء الحق سے تین بار ملاقات کا موقع ملا ہے۔
بھٹو صاحب سے میری مصافحے کی حد تک ملاقات 12 اکتوبر 1971 کی رات راولپنڈی کے ایک ہوٹل کے ہال میں ہوئی۔ اس ہال میں اس وقت 2500 year celebration of the Persian Empire ہو رہی تھی۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ کسی نے بتایا کہ بھٹو صاحب پشاور کی طرف سے آ کر فلاں نمبر کمرے میں ٹھہرے ہیں۔ چند جیالے فوراً گئے اور بھٹو کو ہال میں لے آئے۔ انھوں نے لوگوں سے ہاتھ ملائے لیکن جلد ہی ناسازیٔ طبیعت کا بتا کراجازت لے کر کمرے میں واپس چلے گئے۔
مصافحہ ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا ہاتھ کافی گرم تھا۔ یہ بھٹو صاحب سے میرا پہلا یکطرفہ رابطہ تھا۔ دنیا کے ہر ملک کے دارالحکومت کے بڑے ہوٹل میں محمد رضا شاہ پہلوی نے ایسی celebration کا اہتمام کر رکھا تھا جب کہ تہران میں ساٹھ کے قریب سربراہان مملکت مدعو کیے گئے تھے۔ اس میں جنرل یحییٰ خان بھی شریک تھے۔ رضا شاہ پہلوی 11 فروری1979 کو تخت چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے اور پھر 38 سال کی شہنشاہت ختم ہونے پر در بدر ہوئے اور انتقال کے بعد 1980 میں قاہرہ میں سپرد خاک کیے گئے۔
یہ صرف ایک شہنشاہ کا ذکر تھا۔ دنیا کے بیشتر ڈکٹیٹر اور بادشاہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے۔ راولپنڈی ہی کے ایک بڑے ہوٹل میں بھٹو کے ADC عابد کی شادی تھی جس میں بھٹو کے آنے پر میری بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اسی فنکشن کی ایک تصویر میں بھٹو صاحب صوفے پر بیٹھے ہیں اور میں ان کے پیچھے کھڑا ہوں۔
ان سے تیسری اور چوتھی ملاقات میری ڈیوٹی کا حصہ تھی۔ ٹرائل کے دن پولیس انھیں جیل سے ایک نہایت گھٹیا کار میں بٹھا کر مولوی مشتاق کی عدالت میں پیش کرنے کے لیے لاتی، میں ان کو ہمراہ لے کر ڈپٹی رجسٹرار عقیل صاحب کے کمرے تک لے جاتا جہاں بیٹھ کر وہ ایک کپ کافی پیتے اور پھر ان کی پیشی ہوتی۔ سماعت ختم ہونے پر میں انھیں واپسی کے لیے اسی نہایت گھٹیا کار تک لے جاتا اور پولیس انھیں واپس جیل لے جاتی۔
نّوے دن میں الیکشن کرانے کے ضیاء الحق کے وعدے کو نّوے ہفتوں سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا تھا جب میں گوجرانوالہ سے ٹرانسفر ہو کر ساہیوال پہنچ چکا تھا۔ انھی دنوں ضیاء الحق کی اسپیشل ٹرین راولپنڈی سے دولھا میاں اعجاز الحق کو لے کر ملتان کی طرف روانہ ہوئی اور اس ٹرین کو چند منٹ ساہیوال ریلوے پلیٹ فارم پر رکنا تھا۔ حکم تھا کہ پلیٹ فارم محفوظ اور خالی ہونا چاہیے لہٰذا ڈی سی، ایس پی کے علاوہ کوئی وہاں موجود نہ ہو۔ ہم نے شادی ٹرین کے پیش ِ نظر پانچ چھ برس کی عمر کے ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو گلدستے پکڑا کر کافی فاصلے پر سامنے کھڑا کر دیا۔ لڑکا میرا بیٹا طارق تھا۔
ٹرین آ کر رکی اس میں سے ضیاء کا ADC اتر کر بچوں کے پاس گیا۔ ان بچوں سے گلدستے لے کر گاڑی میں واپس چلا گیا۔ ٹرین کا دروازہ پھر کھلا۔ ADC گلدستے پکڑے پھر بچوں کے پاس گیا اور گلدستے ان کو پکڑا دیے۔ ضیاء الحق نے اب آ کر بچوں سے گلدستے لیے اور ان کو ہاتھ سے پیار کر کے واپس چلا گیا۔ میں اور ADC چوہدری اشرف وہاں چند سیکنڈ کے لیے ضیاء الحق سے ملے۔ ٹرین روانہ ہو گئی اور ہم نے پلیٹ فارم آزاد کر دیا۔
اب ضیاء الحق کا Fair and Free الیکشن کرانے کا وعدہ نّوے دن سے بڑھ کر ڈیڑھ سو ہفتوں سے اوپر جا چکا تھا۔ میں ساہیوال سے کھاریاں پہنچ گیا تھا۔ ضیاء الحق ملٹری اسکول سرائے عالمگیر بطور مہمان خصوصی وہاں کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ فنکشن ختم ہوا تو وہ واپسی کے لیے ہیلی کاپٹر کی طرف گئے تو ہم لوگ بھی پیچھے چل پڑے۔ ہیلی کاپٹر اسٹارٹ ہوا تو لوگوں کے کپڑوں اور دھول نے اُڑنا شروع کر دیا۔
جنرل ضیاء الحق سے میری تیسری ملاقات آرمی چیف کے گھر پر ہوئی۔ اس ملاقات کا محرک ان کا ایک ADC تھا جس کا تعلق کھاریاں سے تھا اور وہ جب بھی اپنے گھر جاتا تو کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں میرے دفتر آتا۔ اس نے مجھے ضیاء الحق سے ملوانے کی خواہش کی تو میں نے نہ صرف ملاقات کی، گپ شپ کرنے کے علاوہ چائے بھی پی۔ بھٹو پر جو مقدمہ قتل بنا اس کی FIR دبا دینے کے بجائے اس کے عہد ِ اقتدار میں تفتیش ہو جاتی تو بھٹو کی بریت یقینی تھی۔
میں کراچی جا کر شیخ لطف الرحمٰن لطفی کے مکان پر 17-8-1988 میں TV دیکھ رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے جہاز میں بم پھٹنے اور ایئر کریش کی خبر سنی۔ جنرل ضیاء الحق نے کوہ ِ مری میں قیدی ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہی میں بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بظاہر ضیاء کا اس روز کا فیصلہ خود اس کے انجام کا باعث بنا۔