بات سے بات نکلنا
امریکا برطانیہ وغیرہ میں اچھی ملازمت اور کاروبار والے لوگوں کی زندگی بڑی مصروفیت میں گزرتی ہے جس کی وجہ سے ان کے پاس وقت کی کمی اور طویل فاصلوں کے سبب بعض ضرورت کی اشیاء کی خریداری کے لیے اسٹورز پر جانے کے لیے وقت نہیں ہوتا اور وہ Online خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں وہ سامان ان کے گھر یا دفتر کے دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ خریدار موجود ہو تو وصولی کر لیتا ہے اور نہ ہو تو سامان لانے والا پارسل باکس یا لپٹا ہوا پیکٹ دروازے پر چھوڑ جاتا ہے۔
میں نے وہاں قیام کے دوران کئی اپارٹمنٹس کے Door Steps پر سامان پڑا دیکھا ہے۔ کوئی ضرورت کی چیز نہ مل رہی ہو تو Amazon نامی کمپنی دنیا کی کسی بھی جگہ سے مطلوبہ شے حاصل کر کے مہیا کر دیتی ہے۔ ہمارے یہاں تو دو ٹکے کی چیز دوسرے کے دروازے پر پڑی نظر آئے تو غیر متعلقہ آدمی بھی اسے نہیں چھوڑتا جب کہ دوسری جانب مغرب کے بعض ممالک میں کوئی شخص دوسرے کی چیز نہیں اٹھاتا، چاہے وہ کتنے ہی دن وہاں پڑی رہے۔
کچھ عرصہ قبل شوگر مل کی طرف جاتی ایک ٹریکٹر ٹرالی دیکھی جس کا ٹائر پنکچر ہو گیا تھا کیونکہ اس پر Suger canes کا وزن بہت زیادہ تھا۔ ٹرالی لے جانے والا ڈرائیور کسی پٹرول پمپ سے ٹائر مرمت کرانے گیا۔ اس کی غیر موجودگی میں چند لوگوں نے ٹرالی میں سے گنے کھینچنے شروع کر دیے۔ دیکھا دیکھی کئی آتے جاتے لوگوں نے بھی گنے چوری کرنے شروع کر دیے۔ ٹرالی کا ڈرائیور واپس پہنچا تو آدھی ٹرالی خالی ہو چکی تھی۔
اس سے بھی زیادہ برا حال ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ ایک پٹرول ٹینکر حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں اس کا ٹینک پھٹ گیا اور اس کا پٹرول سٹرک پر قریبی کھیت میں بہنے لگا۔ لوگ مفت کا پٹرول ضایع ہوتا دیکھ کر برداشت نہ کر سکے، کوئی بوتل لایا، کوئی بالٹی اور کوئی لوٹا لے آیا۔ پھر تو لوٹ مچ گئی۔ ایک شرارتی کو برتن نہ ملا تو اس نے وہاں ماچس کی تیلی پھینک دی۔ پٹرول نے آگ پکڑی، پھر آگ نے پٹرول چوروں کا پیچھا کر کے انھیں جلانا شروع کر دیا۔ خدا کی پناہ۔
جب میں نے اپنے کزن سعید سہگل کے اپارٹمنٹ سے نکلتے ہوئے سامنے والے اپارٹمنٹ کے ڈور اسٹیپ پر پانچویں روز بھی گتے کا باکس اسی طرح پڑا دیکھا تو ان کی ڈوربیل بجائی، گھر میں سے کوئی نہ نکلا جس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ شہر سے باہر گئے ہونگے۔ تجسس کے تحت میں نے باکس پر لکھی تحریر پڑھی تو معلوم ہوا اس کے اندر بیئر کے کارٹن تھے جو اس اپارٹمنٹ کے مالک نے Online آرڈر کر کے منگوائے ہوں گے۔ یہ مشروب امریکا میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور اس بلڈنگ میں 24 اپارٹمنٹ ہیں، ہر کسی نے پانچ روز تک ادھر سے گزرتے ہوئے وہ سامان دیکھا ہو گا بلکہ غیر رہائشی لوگ بھی ادھر سے گزرتے ہوں گے لیکن وہ باکس جس میں وہاں کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھا، اسے کسی نے نہ چھیڑا تھا۔
میرے ذہن کی یادداشت نے پلٹا کھایا ہے جو مجھے یکدم 1977ء میں لے گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ خود شوق کرتے تھے لیکن انھوں نے سیاسی چال کے تحت پاکستان میں اس مشروب کی عام فروخت پر پابندی لگا کر اس کی دکانوں کے تالوں کو سیل کروا دیا۔ اس کی فروخت پر پابندی کو کئی گروہوں نے اچھا اقدام قرار دے کر جلوس نکالے اور شہروں کی فروخت والی دکانوں کے تالے توڑ کر بوتلوں کو توڑنا اور مشروب ضایع کرنا شروع کر دیا لیکن بے شمار لوگوں نے بوتلیں قبضہ میں لے کر موقع سے فرار ہونا شروع کر دیا۔ بہت سی بوتلیں توڑ کر مشروب نالیوں میں بہایا بھی گیا۔ ہنگاموں پر قابو پانے کی ڈیوٹی دیتے ہوئے میں نے یہ مناظر خود دیکھے۔
بہت سے افراد کو ان سے غیرمسلم ہونے کا بیان حلفی لے کر ان کو مخصوص کوٹہ کا پرمٹ جاری ہوتا تھا اور چند بڑے ہوٹلوں سے پرمٹ ہولڈر مشروب خرید سکتے تھے۔ جو دن مشروب فروخت کرنے کا مخصوص ہوتا، لوگوں نے اس روز ان ہوٹلوں سے باہر سڑکوں پر موٹرکاروں کی قطاریں لگی دیکھنی بیان کی ہیں۔ پرمٹ ہولڈر ہوٹلوں سے خریداری کر کے سڑک پر کھڑی موٹرکاروں میں منتظر بیٹھے اپنے مستقل گاہکوں کو سودا فروخت کر دیتے تھے۔ غیر ملکی سفارت کار اپنی مرضی کے مشروب اپنے ملکوں سے امپورٹ کر سکتے ہیں۔ اس کی فروخت پر پابندی کے بعد بعض سفارت خانوں کے ملازمین کے ذریعے اس بزنس میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ ظاہر ہے ان کی کھپت مقامی خریداروں کے ذریعے ہوتی تھی۔ نچلے درجے کے اسٹاف نے 1977ء کے بعد اس کاروبار میں خود ہاتھ رنگے تھے۔
1986ء میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے سوال پر محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن سے شراب کے پرمٹ ہولڈروں کی تفصیل طلب کی گئی۔ تمام اضلاع سے مکمل Data حاصل کرنے میں کئی دن لگے۔ یہ تفصیل حاصل کرنا اور ہر ممبر اسمبلی کے لیے مکمل کاپی تیار کر کے سیکریٹری اسمبلی کو بھجوانا میری سرکاری ذمے داری تھی۔ ان دنوں دفتروں میں ویگن نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہتھ رہڑے پر لاد کر اسمبلی ممبران کی تعداد کے برابر پرمنٹ ہولڈروں کی فوٹو اسٹیٹ تفصیل کے بنڈل صوبائی اسمبلی بھجوائے گئے لیکن ساری محنت کا نتیجہ کچھ نہ نکلا کیونکہ سوال کرنیوالا ہی اسمبلی سیشن سے غیر حاضر ہو گیا تھا۔
ہر ملک اور معاشرے میں لوگ مختلف قسم کا نشہ کرنے کے عادی پائے جاتے ہیں۔ اس عادت میں مبتلا لوگ بالآخر کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جب ملک میں شراب کی کھلے عام خرید و فروخت پر پابندی لگی تو افیون کے ٹھیکے بھی منسوخ کر دیے گئے جس سے افیون کے عادی یعنی افیمچی بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ تب حکومت کے نوٹس میں لایا گیا کہ اس فیصلے سے افیمچیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ تب محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن نے ایسے نشیئوں کے لیے بہت تھوڑی مقدار میں افیم ملی گولیاں تیار کر کے ان کے لیے ماہانہ گولیوں کی سپلائی کا بندوبست کر دیا۔ جس کمرے میں وائٹامن ملی گولیاں تیار ہوتی تھیں اس کا نام um Factory Opi رکھا گیا۔
محکمہ ایکسائز سے متعلق صوبائی اسمبلی میں کمیٹی چیئرمین کی زیر صدارت ایک میٹنگ کے دوران چیئرمین نے اعتراض اٹھایا کہ اب محکمہ E&T نے Opium Factory کھول لی ہے تو میں نے سیکریٹری محکمہ کی طرف سے وضاحت کی کہ "اس کا نام غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث ہوا ہے، یہ دراصل ٹکیاں بنانے والی ایک کمرے میں نصب چھوٹی سی مشین ہے، ٹیکوں میں معمولی مقدار افیون کی ہوتی ہے جس کا مقصد افیون کے عادی لوگوں کو باہوش رکھ کر بالآخر اس عادت سے چھٹکارا دلانا ہے جب کہ افیون خطرناک نشہ نہیں بلکہ شنید ہے کہ اس کے عادی طویل عمر پاتے ہیں۔ "
میری اس وضاحت پر چیئرمین نے مجھے میٹنگ کے بعد اپنے کمرے میں بلا لیا اور میرے طویل عمری کے ذکر کی حقیقت جاننے کی خواہش کی جس پر میرا جواب تھا کہ یہ بات دراصل ایک افیون کے نشئی ہی نے بتائی تھی۔ چیئرمین نے پوچھا اس کی عمر کیا تھی جس پر میں نے جواب دیا کہ ستر سال سے زیادہ ہی رہی ہو گی۔ تحریر کی آخری سطور پر پہنچ کر معلوم ہوا کس طرح بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔