الحمراء کے ستر سال
دوپہر دو بجے سرور سکھیرا نے مجھے ہمراہ لیا اور کہا کہ الحمراء آرٹس کونسل چلتے ہیں کیونکہ وہاں گئے کافی دن ہو گئے ہیں۔ میرا ناغہ بھی کافی طویل ہو گیا تھا اس لیے خوشی ہوئی۔ الحمراء کے لان میں قائد ِ اعظم کے مجسمے کے پچھلی جانب محفل ِ موسیقی تھی اور غزل گائی جا رہی تھی۔ کورونا وائرس کے باعث فاصلہ رکھ کر کرسیاں لگی تھیں۔
ہمارے ساتھ ڈاکٹر کنول فیروز شامل ہو گئے۔ انھیں لٹریچر کا تمغہ امتیاز ملا ہوا ہے اور ایک ماہانہ رسالہ بھی نکالتے ہیں۔ کچھ دیر موسیقی سے لطف اندوز ہوئے تھے کہ الحمراء کے ڈائریکٹر آرٹ و کلچر اور آرٹسٹ زلفی سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اس کا الحمراء سے22 سال پرانا تعلق ہے۔ آرٹ کونسل کی بطور ریزیڈنٹ ڈائریکٹر تعیناتی کی آفر PM کے خاص مصاحبین کی طرف سے کئی سال قبل مجھے بھی ہوئی تھی لیکن ایک شرط رکھی گئی کہ اس کے ہال نمبر1کی بکنگ انھیں سونپ دی جائے۔ مجھے ان کی شرط کی سمجھ آ گئی لہٰذا میں نے انکار کر دیا تھا۔
محفل شعر و غزل سے کچھ دیر لطف اندوز ہونے کے بعد سروَر سکھیرا کے میزبان کنول فیروز نے بتایا کہ شاید آپ لوگوں نے کبھی مزاحیہ پروگرام " عینک والا جن " نہ دیکھا ہو جو بچوں کی تفریح کے لیے اس وقت ہال نمبر 1میں چل رہا ہے۔ واقعی ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لہٰذا ہم دونوں کنول فیروز کے ہمراہ ہال نمبر 1میں داخل ہو گئے۔ ہال بھرا ہوا تھا جس میں زیادہ تعداد پانچ سات سے دس سال کے بچوں کی تھی۔ عینک والا جن کھیل تو کافی پرانا ہے۔ ہم تینوں کے لیے بھی یہ ڈرامہ انوکھا تھا جو ہم بزرگوں کو اپنے بچپن میں لے جا رہا تھا۔ ہم اس Play سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
سرور سکھیرا اخبار نویس، ادیب، بزنس مین، فلمی حلقوں میں مقبول معروف شخصیت ہیں۔ جب بھٹو دور میں روزنامہ اخبار "مساوات" شایع ہونا شروع ہوا تو وہ ایک سال تک اس کے ایڈیٹر رہے۔ پھر انھوں نے ایک اپنا ماہ نامہ "دھنک " نکالنا شروع کیا۔ وہ اس کے مالک و مدُیرّ تھے۔ ماہنامہ دھنک نے اپنے وقت میں ایسی دھوم مچائی تھی کہ ابھی اشاعت کو سات سال ہی گزرے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق کچھ تحریریں جنرل ضیاء کے نوٹس میں آئیں اور پھر دھنک اور اس کے مالک و ایڈیٹر پر سختیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان ہر دو کی ایسی شامت آئی کہ دونوں بند ہوئے۔
الحمراء آرٹ کونسل جو ہماری تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے، اسے وجود میں آئے ستر سال ہو چکے ہیں جب کہ قریباً پچاس سال قبل اسے حکومت پنجاب کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ اس عرصہ میں ملک گیر شہرت کا حامل قریباً ہر موسیقار، گلوکار، مصور، فنکار اور تخلیق کار الحمراء سے وابستہ رہا۔ ابتداء میں امتیاز علی تاج، اس کے بعد فیض احمد فیضؔ اس کا انتظام سنبھالتے رہے۔
الحمراء میں ڈرامائی سرگرمیوں کی شمولیت سے اس کو ثقافتی مرکز کی حیثیت بھی ملی جس کا کریڈٹ فیض صاحب کے حصے میں آیا۔ اسی عرصہ میں امتیاز علی تاج کی صاحبزادی کی شادی نعیم طاہر سے اور فیض صاحب کی صاحبزادی سلیمہ کی شادی شعیب ہاشمی سے ہو گئی۔ فیضؔ صاحب کے بعد شعیب ہاشمی نے اور ان کے بعد نعیم طاہر نے الحمراء کی باگ ڈور سنبھالی۔
ہمارے ملک میں کھیل اور تفریح کے لوازمات کی کمی کی وجہ سے بچوں اور بڑوں میں منفی سوچ اور عادات نے جنم لیا ہے جس کا نتیجہ جرائم اور بدعات کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ لوگوں میں خوشی اور مسکراہٹ کی جگہ لڑائی اور گالم گلوچ کے جراثیم کے اضافے کی وجہ سے بُری سوچ اور عمل ان کے روزمرّہ پر اثر انداز ہو رہے ہیں جس کا تدارک کرنے میں الحمراء کا بڑا ہاتھ ہے لیکن ایک ثقافتی، علمی، ادبی ادارہ کہاں تک لوگوں کی زندگی میں مثبت اور خوشگوار تبدیلی لا سکتا ہے، لیکن الحمد ُ للہ! کہ الحمراء نے وقت کے گزرنے کے دوران ایک ٹوٹی پھوٹی کھنڈر عمارت سے ترقی کر کے تین بہترین Halls اور دفاتر کے علاوہ آرٹ کی نمائش لیے دو منزلہ کمروں اور Open Airجگہ پر دیدہ و دل کی ضیافت کا اہتمام کر لیا ہے۔
یہ بہتری کسی ایک شخص اور قلیل مدت کی مرہون ِ منت نہیں ہے، اس میں حصہ ڈالنے والوں کے نام ان گنت ہیں۔ جن اداکاروں، ڈرامہ رائیٹروں، موسیقاروں، آرٹسٹوں، معماروں، فنکاروں، ایڈیٹروں نے الحمراء آرٹس کونسل کو موجودہ منزل تک پہنچایا ان کے نام ان گنت ہیں۔ ان سب کا نام تو لکھتے ہوئے یاد داشت جواب دے جائے گی۔
کچھ نام جو یاد آ رہے ہیں، تحریر کرتا ہوں، پڑھتے اور سر دُھنتے جائینگے، امتیاز علی تاج، فیض احمد فیضؔ، عبدالرحمٰن چغتائی، سلیمہ ہاشمی، شعیب ہاشمی، صفدر میر، کمال احمد رضوی، نعیم طاہر، ڈاکٹر انور سجاد، محسن شیرازی، قوی خاں، نذیر ضیغم، مسعود اختر، سکندر شاہین، منور سعید، خالد عباس ڈار، امان ُاللہ، فردوس جمال، عُمر شریف، یاسمین طاہر، عطیہ شرف، زُلفی، نذیر احمد چوہدری، ریحانہ صدیقی، اطہر علی شاہ، ایم شریف، سی ایم منیر، شیبا حسن، راشد عمر تھانوی، محمد حنیف رامے، البیلا، اللہ بخش، اُستاد سلامت علی خان، عطا اُللہ عیسیٰ خیلوی۔