آر یا پار
حصولِ اقتدار کی جنگ بہت سے ملکوں، گھرانوں، برادریوں اور شہری اور دیہاتی علاقوں میں دیکھی جا تی ہے۔ اس کی شدت میں کمی بیشی بھی پائی جاتی ہے۔ اس خاموش یا پرشور جنگ کا نتیجہ کبھی قطع تعلقات اور کبھی مار دھاڑ کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے لیکن یہ فطرتِ انسانی کا ایک اظہار ہے۔
اقتدار میں آنے اور مخالف کو زیر کرنے کی جنگ یا دشمن پر فتح حاصل کرنے کی خواہش کے واقعات تو تاریخ کی کتب میں درج ہیں اور پھر جب انسان نے ترقی کر لی تو کیمرے نے اس کشمکش اور جدو جہد کو بار بار دکھانے کے لیے محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ پھر Replay کا کھیل جھوٹ کے ڈھول کا پول ہی نہیں کھولتا، لوگوں پر سچ کے دروازے بھی کھولتا اور حقائق سے ناواقفوں پر معلومات کے دروازے بھی وا کرتا ہے۔ اسی سائنس نے مثبت اور کچھ منفی کردار بھی ادا کیا ہے۔
سچ کو جھوٹ بناکر دکھانے کی مہارت بھی اسی سائنسی ترقی کی مرہون ِ منت ہے۔ ان دنوں حزبِ اقتدار اور اختلاف کی چپقلش زوروں پر ہے۔ اقتدار میں عمران خان کی پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتیں ہیں جب کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت 11 سیاسی جماعتوں کا اکٹھ جس کا نام پی ڈی ایم ہے جو ہر بڑے شہر میں جلسے کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک تحریک انصاف بھی یہی کچھ کرتی تھی۔ اب کورنا وائرس کی دوسری لہر کی شدت کے پیش ِ نظر عوامی جلسے بند کر دیے اوراپوزیشن کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ عوامی جلسے کچھ عرصہ کے لیے بند کر دے۔
جب ملک میں کورونا کی پہلی لہر آئی تھی، اس وباء سے مرنے والوں کی روزانہ تعداد آٹھ دس تھی جب کہ اس دوسری لہر نے ہر روز مرنے والوں کی تعداد ستر، اسی تک پہنچا دی ہے۔ اس کا سبب ہماری بے احتیاطی ہے۔
پی ڈی ایم جو دس بارہ حزب ِ اختلاف کی پارٹیوں کا اتحاد ہے، اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خاں حکومت کو فارغ کرنے کے لیے تمام اپوزیشن ارکان اسمبلی کو اپنے استعفے ان کے پاس اکتیس دسمبر 2020 تک جمع کرانے کا نوٹس دیدیا ہے تاکہ ان استعفوں کو متعلقہ اسپیکرز کے پاس یکمُشت اور یقینی جمع کرا کے حکومت گرا دیں اور دوبارہ انتخاباب کی راہ ہموار ہوجائے۔ پی ڈی ایم کا خیال ہے وہ الیکشن پی ٹی آئی کو شکست دے کر الیکشن جیت سکتے ہیں۔
آج 13 دسمبر ہے اور 31 دسمبر تک پاکستان کے عوام استعفوں کے انتظار میں ایک دوسرے کے ساتھ شرطیں لگا کر خود کو مصروف رکھ سکتے ہیں لیکن تجربہ کار وکیل اور سیاستدان اعتزاز احسن کا تجزیہ ہے کہ اپوزیشن استعفے نہیں دے گی، اگر ایسا کیا تو یہ ان کی بہت بڑی حماقت ہو گی اور اگر استعفوں کے بعد اسمبلی تحلیل ہونے میں بھی قانونی رکاوٹ ہوئی تو بھی وزیر ِ اعظم عمران خاں رہے گا اور پی ڈی ایم کی تمام محنت ضایع ہو جائے گی۔
اس تمام جنگ و جدل میں تحریک انصاف کے لیے ایک واضع پیغام البتہ موجود ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرے اور غربت کے مارے 95 فیصد پاکستانیوں کو کورونا کی وباء کے علاوہ بھوک ننگ سے جاں بحق ہونے سے بچانے کا نہ صرف حل تلاش کرے بلکہ کامیاب بھی ہو ورنہ محض ایماندار ہونا عوام کی مشکلات کا حل نہیں ہے۔ آج کل ہر دوسرا تیسرا شہری بیروزگاری اور مہنگائی کے عذاب سے مر رہا ہے یا پھر گلیوں، محلوں، بازاروں میں بھکاری بن کر روٹی کے لیے پیسے مانگتا دیکھا جاتا ہے۔
خوف آتا ہے اس خیال سے کہ فاقہ زدہ عوام کی اکثریت، متمول لوگوں سے سرے عام چھینا جھپٹی پر نہ اُتر آئے یا چوری ڈکیتی میں اضافہ نہ ہو جائے۔ اور اگر لوگ ہجوم کی صورت لوٹ مار پر اُتر آئے تو کورونا اور فاقے مل کر تباہی مچا دیں گے اور لاقانونیت سے نمٹنے والی فورس منہ دیکھتی رہ جائے گی۔
گیارہ پارٹیوں کی ڈیموکریٹک موومنٹ کے پاس دو آئینی طریقے موجود ہیں جو ہر وقت آزمائے جا سکتے ہیں اور یہی حالات کو بدامنی سے بچا نے کے لیے استعمال کیے جانے چاہئیں۔ ایک ہے حکومت کے ساتھ شفاف ڈائیلاگ کرنا یا پھر اس کے خلاف اسمبلی میں تحریک ِ عدم اعتماد لا کر حکومت کی صفیں لپیٹنا لیکن پی ڈی ایم کے دھواں دار بیانات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئینی طریق کار کے بجائے ہنگامہ آرائی سے کامیابی حاصل کرنے کے لیے پر اُمید ہیں اس پر صرف یہی مصرع موزوں نظر آتا ہے کہ:
یا ہنس پڑو یا ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرو
لیکن یہ بھی درست ہے کہ کتنے ہی برے اور مشکل حالات کیوں نہ ہوں امید کا دامن پکڑے رکھنا چاہیے یعنی وابستہ رہ شجر سے امید ِ بہار رکھ۔ اسی اُمید کا دامن پکڑے ہوئے مریم نواز حکومت کو للکارتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ، بس چند دن باقی ہیں، مینار پاکستان کے گرائونڈ کے جلسے کے بعد آر ہو گا یا پار" جب کہ عمران خاں کی حکومت کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ آرپار کی دھمکیاں دینے والوں کا مقدر جیل ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ صرف آنے والا وقت بتائے گا کہ مقدر کا سکندر کون ہو گا۔
تیرہ دسمبر 2020کو اتوار ہے اور یہ تاریخی دن ہو گا کہ سابق صدر اور سابق وزیر ِ اعظم کے بچے مینار ِ پاکستان لاہور کے میدان سے اپنے حامیوں سے حقیقی جمہوریت لانے کے لیے خطاب کریں گے، اگرچہ حکومت نے جلسے کے دن سے ایک ہفتہ قبل گرائونڈ میں پانی چھوڑ کر جلسہ خراب یعنی سیراب کرنے کی اوچھی حرکت کی ہے لیکن گیارہ سیاسی پارٹیوں کے والینٹرز اسے سکھانے میں سرگرم رہے۔
دُعا ہے کہ اس روز بارش نہ ہو ورنہ اس روز پی ڈی ایم کو ہزاروں کرسیوں کے علاوہ اتنی ہی تعداد میں چھتریوں کا انتظام مشکل میں ڈال دے گا۔ بہر حال جلسہ تو ہو گا اور تمام بیرونی شہروں سے جیالے اور متوالے مولانا کی صدارت میں منعقد ہونے والے جلسے میں شرکت کرنے اور بطور خاص سابق حکمرانوں کی اولا د کو دیکھنے، سننے اور سر دھننے آئیں گے۔ اس روز ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفوں کی بھرمار بھی ہو گی البتہ ان میں مولانا کا Resignation نہیں ہو گا۔