Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Haider Javed Syed
  3. Ye Jo Multan Se Muhabbat Hai (7)

Ye Jo Multan Se Muhabbat Hai (7)

یہ جو ملتان سے محبت ہے (7)

ملتانیوں کی باہمی محبت اور ہماری امڑی سینڑ سے عقیدت دونوں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہیں الفاظ میں بیان کرنا گو از بس مشکل ہے پھر بھی کچھ واقعات ضبطِ تحریر لانا ضروری ہیں۔ ہمارے بچپن میں یعنی لگ بھگ اٹھاون برس پہلے کے ملتان میں عمومی رواج یہ تھا کہ کسی ایک گھر میں پکنے والا سالن یا کوئی خصوصی ڈش محلے کے ان دوچار گھروں میں ضرور بھجوائے جاتے۔ اولاً جن کے بارے میں معلوم ہوتا کہ ان کے ہاں اس چیز کا پکایا جانا مشکل ہے ثانیاً جن سے قریبی مراسم ہوتے۔

ان ماہ و سال میں بچہ پارٹی کو اپنے گھر پکایا گیا سالن پسند نہ ہوتا تو کسی تکلف کے بنا گلی محلے میں کسی کا دروازہ کھڑکا کر پوچھ لیتے ماسی، بُوا، چاچی، تساں اج کیا پکائے؟ جواب کے ساتھ پکا ہوا سالن لیتے اور گھر چلے آتے۔

عقیدت کا ایک قصہ سن لیجے، میں ایک بار سالانہ تعطیلات میں کراچی سے ملتان آیا تو میرے بڑے بھائی (بھیا ابو مرحوم) اور ان کے ایک جان جگر دوست مجھے ڈریم لینڈ سینما پر فلم دیکھانے کیلئے لے گئے یاد پڑتا ہے کہ فلم کا نام "بہارو پھول برساو" تھا محمد علی زیبا وحید مراد اور دیگر اداکار تھے، ہم ڈریم لینڈ کی گیلری میں اپنی نشستوں پر بیٹھے ہی تھے کہ عقبی جانب سے "آواز سنائی دی۔۔

"ہائے ڑی اے تاں بی بی عاشو دے پوتر ہن، کونڑ دوسری آواز آئی ایہو جیڑے اگلی سیٹاں تے نی آ بیٹھے جواب آیا، تیکوں کیوں پتہ ہے کہ اے وعظ آلی بی بی جی دے پوتر ہن پھر سوال ہوا، جواب سنائی دیا، میں کل بی بی جی کنوں بھینڑ کوں دم کراونڑ گئی ہم اے کالے کپڑیاں آلا نی اے ہوں ویلے آیا ہائی بی بی سینڑ ہوراں پردے دی آواز ڈتی تے وت آکھیو نے اے میڈا جاوید ہے کراچی پڑھدے اتھائیں راہندے"۔ میں نے بھیا ابو جی کو کہنی مارتے ہوئے کہا لئو جی پھڑیج گئے بی بی دے بال، وہ اپنے دوست (خواجہ شہباز) سے باتیں کررہے تھے شاید سن نہیں پائے مجھ سے پوچھا تو میں نے تفصیل بتادی کہنے لگے باواجی تساں جانڑو۔ بی بی دیاں مریدنیاں تے بی بی جی ساڈے ہتھ کھڑے وے۔

اس کے دوتین دن بعد میں میں دوپہر میں (ملتان میں قیام بارے عرض کرچکا ہے گھر چھوڑنے کے بعد جب بھی ملتان آتا رہتا عمر علی خان بلوچ کے چوبارے پر تھا البتہ جتنے دن ملتان رہتا دوپہر کا کھانا اپنی والدہ حضور کے پاس کھاتا یہی ان کا حکم تھا) دوپہر کے کھانے کیلئے خونی برج کے محلہ اسحٰق پورہ میں واقع اپنے آبائی گھر میں داخل ہوا تو پہلی آواز کانوں میں پڑی "پردہ" اندر دالان میں بہنوں کے پاس چلے جاو یعنی باورچی خانے میں امڑی کے پاس مریدنیاں تھیں، کچھ دیر بعد مجھے امی جان کی آواز سنائی دی پوچھ رہی تھیں جاوید تم پرسوں دوپہر کو کہاں تھے؟

عرض کیا دوستوں کے ساتھ تھا، انہوں نے کہا لیکن یہ تمہاری خالہ (امی کی ہر مریدنی ہماری خالہ باجی چچی ہوتی تھی) کہہ رہی ہیں کہ تم ڈریم لینڈ سینما میں فلم دیکھ رہے تھے؟

بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، خالہ بھی فلم ہی دیکھ رہی تھیں وہ کونسا مولانا وحید مراد کا خطبہ سننے گئی تھیں، میرے اس جواب پر باورچی خانے میں بیٹھی خالہ مریدنی پر تو نجانے کیا گزری لیکن بہنوں کے قہقہوں نے آسمان کو چھوا تو امی جان کی ڈانٹ ڈپٹ شروع ہوگئی۔

بہنوں سے کہہ رہی تھیں تم سب نے اس نالائق کو سر چڑھا رکھا ہے جو منہ میں آتا ہے بول دیتا ہے، ایک بہن نے کہا امی جان یہ جاوید ہمارے پاس کہاں رہتا ہے کہ اس کے لاڈ اٹھائیں اسے سر چڑھائیں، اس جواب پر خاموشی چھا گئی۔

امی جان (سیدہ عاشو بی بی وعظ والی) سے ملتانی خاندانوں کی خواتین کی محبت و عقیدت کا عالم یہ رہا کہ ان (امی جان) کے سانحہ ارتحال کے بعد جس دن میں واپس لاہور جانے کیلئے بس میں اپنی نشست پر بیٹھا تو کچھ دیر بعد اگلی نشستوں سے ایک پندرہ سولہ برس کے نوجوان نے مجھے کہا "میڈی اماں ہوراں آہدن تساں ساڈیاں سیٹیاں گھن گھنو اساں تہاڈی سیٹاں تے بہہ ویندے ہیں"۔ مجھے نوجوان کی بات سمجھ نہ آئی (ان برسوں میں دوست جانتے ہیں میں دوران سفر دو نشستیں لے کر سفر کرتا تھا) میں نے اس سے معذرت کرلی ویسے بھی یہ میری پسندیدہ نشستیں تھیں، چند لمحوں بعد مجھے اپنے سر پر ایک شفقت بھرا ممتا کا ہاتھ محسوس ہوا اور کانوں میں ایک بھرائی ہوئی آواز پڑی، ایک محترم خاتون کہہ رہی تھیں "آپ عاشو بی بی جی دے جاوید ہو؟" جی میں نے عرض کیا، وہ کہنے لگیں "بی بی جی پچھلے ہفتے فوت تھئن ہنڑ اساں انہاں دی اولاد کو کنڈ کرتے بہوں انہاں دی روح کیا آکھسی" ایک دو جملوں کے تبادلے کے بعد میں نے ان کی اپنی والدہ سے محبت کے احترام میں نشست بدل لی۔

آج امڑی سینڑ کے سانحہ ارتحال کو چوبیس برس گزر چکے لیکن ملتانی خاندانوں کے دلوں سے ان کی اولاد کیلئے محبت ختم نہیں ہوئی جب بھی ملتان جاتا ہوں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوجاتی ہے جس سے امڑی کیلئے ملتانیوں کی محبت کا چراغ روشن ہوجاتا ہے۔

امی جان کی گلی میں میدان سے داخل ہوتے وقت الٹے ہاتھ پر پہلے ایک پتلی سی گلی ہے اس گلی کی نکر والے گھر میں اب ہماری سب سے بڑی بہن مقیم ہیں۔ یہ گھر ان کی ملکیت ہے پچاس پچپن برس قبل یہ گھر باجی جان کے خرید لینے سے پہلے ہمارے پاس کرایہ پر ہوتا تھا۔ دن میں مہمانوں کو بیٹھاتے اور رات میں گھر والوں کے استعمال میں رہتا بھیا ابوجی شادی کے بعد اسی گھر میں مقیم ہوئے ان کے اپنی اہلیہ کے ساتھ مظفر آباد چلے جانے کے بعد وہی معمول ہوگیا البتہ جب والد بزرگوار چھٹیوں پر سعودی عرب سے آتے تو اس گھر کا ایک کمرہ ان کیلئے مختص ہوجاتا تھا۔

اس نکر والے گھر سے بڑی گلی میں اگلا گھر بی بی جی (والدہ صاحبہ) کا گھر تھا اس گھر کا دروازہ صبح کی آذان کے ساتھ کھل جاتا اور رات گئے بند ہوتا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی الٹے ہاتھ پر نکلا تھا اس کے ساتھ چھ دروازوں والا دالان نما کمرہ ڈیوڑی کے سامنے باورچی خانہ دالان اور باورچی خانے کے درمیاں صحن دالان کے اندر ایک چھوٹا کمرہ جس میں سامان کے ساتھ دو پلنگ بچھے رہتے تھے نلکے کُھرے کے ساتھ دالان کے پہلے دروازے سے متصل لکڑی کا ایک بڑا تخت پوش کئی عشروں تک بچھا رہا۔

امڑی حضور تجہد کے وقت سے بستر سے اٹھ کر اس تخت پوش پر آ بیٹھتیں یہ تخت پوش میرے بچپن میں (جب میں گھر رہتا تھا) دو صورتوں میں خالی ہوتا ایک امی جان باورچی خانے میں ہوں، دوسرا وہ وعظ کرنے گئی ہوئی ہوں بعد میں جب باورچی خانے کا انتظام بہنوں نے سنبھال لیا تو تخت پوش صرف اس صورت میں خالی ہوتا اور جائے نماز کا ایک کونا مُڑا ہوا کہ امی جان وعظ کیلئے گئی ہوئی ہوتیں۔

صبح کی کرنیں زمین پر اترنے کے ساتھ ہی بی بی جی کی عقیدت مند خواتین آنا شروع کر دیتیں۔ گلی محلے کی خواتین کے علاوہ کوئی خاتون آتی تو امی جان کی آواز بلند ہوتی پردہ اب لڑکوں کیلئے لازم تھا کہ وہ خود کو باورچی خانے اور چھوٹے گھر تک محدود کرلیں۔ بہت بعد کے برسوں کے ایک دن کی بات ہے میں دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے امڑی سینڑ کے پاس گیا تو دروازے سے داخل ہوتے ہی کانوں میں پردے کی آواز پڑی باورچی خانے تک جاتے جاتے میں نے کہا کون ہے؟ امڑی کی آواز سنائی دی تمہاری خالہ، اس دن میں نے با آواز بلند کہا "امی جان ہمیں ان خالاوں کی نمبر وار لسٹ بنادیں" تب میں نے پہلی بار اپنی امڑی کا قہقہہ سنا۔

پھر وہ پاس بیٹھی کسی خاتون سے کہہ رہی تھیں "جیوے ہووے میڈا جاوید اے بس ما دے کول ہک ٹیم روٹی کھاونڑ دے بہانے آندے تساں ایندی گال تے ناراض نہ تھیوائے"۔

گھر کے داخلی دروازے کے پاس دالان میں تخت پوش پر تشریف رکھتی امڑی سینڑ بڑی دریا دل تھیں کبھی کوئی غرض مند ان کے پاس سے خالی نہیں گیا یہاں تک کہ گھر میں جو پکتا اس میں سے پہلے مستحقین کا حصہ نکالتیں پھر اپنی ایک دو پیاری محلہ دارنیوں کا بعد میں اولاد کا نمبر آتا۔

انہیں جب خبر ہوتی کہ میں ملتان پہنچ گیا ہوں تو جتنے دن ملتان میں رہتا دوپہر کا سالن میری پسند کا بنتا کبھی آلو گوشت کبھی چنے کی دال گوشت کسی دن مکس دالیں کبھی کوفتے امڑی میرے لئے زردہ اور جئوے (ملتانی سیویاں کہہ لیجے) ضرور بنواتیں۔

چھوٹے گھر والی پتلی گلی میں ملتان کے قدیم شاگرد کے تعزیئے کے لائسنسدار خاندان والے مقیم تھے اب بھی یہ گھر اسی خاندان کی نئی نسل کے پاس ہے یکم محرم الحرام سے بارہ محرم تک اس خاندان کو ناشتہ دوپہر اور شام کا کھانا امڑی بھجواتی تھیں کبھی کسی نے کہا کہ بی بی جی او تاں تعزیئے آلے ہن؟ جواب دیتیں اولاد رسول پاکﷺ کے عاشق ہیں میں بھی اپنا حصہ ڈال لیتی ہوں کملی والا آقاﷺ قبول کرے گا۔

امڑی سینڑ ہی نہیں ہماری بڑی خالہ جان ان کے قبل نانی اماں سیدہ زلیخا بی بیؒ زوجہ پیر سید عبدالرحمٰن بخاری مرحوم بھی وعظ والی بی بی جی کے نام سے ہی مشہور ہوئیں ملتان اور گردونواح میں۔

نانا ابا پیر سید عبدالرحمٰن شاہ بخاریؒ نے تین شادیاں کی تھیں ہماری امڑی ان کی دو بہنیں اور تین بھائی ان کی تیسری اہلیہ کی اولاد تھے ایک سوتیلی خالہ عبدالحکیم تحصیل کبیر والہ والے پیر سید خورشید احمد ہمدانیؒ کی اہلیہ تھیں ایک پیر اسحاق شاہ مخدوم رشید والے کی والدہ تھیں۔

ایک سوتیلے ماموں اور ان کے صاحبزادے سید منور حسین شاہ مرحوم احمد پور شرقیہ کے محلہ ہاتھی بازار میں مقیم رہے۔ منور حسین بھائی چند برس قبل وفات پا گئے ان کی دختران احمد پور شرقیہ میں ہی مقیم ہیں ہماری ایک خالہ جان (امی کی چھوٹی بہن) ملتان کے معروف صوفی سنی عالم دین اور مدرسہ انوارالعلوم و مدرسہ مظہرالعلوم کے بانی مولانا سید عبداللہ شاہ رضویؒ کی اہلیہ تھی مرحومین کی حق تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے آمین۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood