تین جماعتوں کی تاریخی کہانی (4)
ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ1977ء میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن اتحاد یو ڈی ایف کو توسیع دینے کے لئے مختلف الخیال سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے باہمی صلاح مشورے کے ساتھ 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے نام سے انتخابی سیاسی اتحاد قائم کرلیا
اس اتحاد میں نیشنل عوامی پارٹی کی جگہ لینے والی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان مسلم لیگ پگاڑا گروپ، خاکسار تحریک، جمعیت علمائے اسلام، مفتی محمود گروپ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، سردار عبدالقیوم خان کی مسلم کانفرنس، تحریک استقلال اور مزدور کسان پارٹی شامل تھے۔
اس سیاسی اتحاد نے انتخابی مہم کے دوران پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پی این اے نے بھٹو حکومت پر سنگین الزامات لگائے ان میں چند الزامات تو وہی تھے جو بھٹو کے اقتدار میں آنے اور 1977ءمیں عام انتخابات کروانے کے اعلان کے درمیانی عرصے میں رجعت پسندوں اور اپوزیشن کا رزق رہے۔ کچھ تازہ الزامات بھی بھے ان میں ایک الزام یہ تھا کہ بھٹو کی پارٹی ملک میں یہودوہنود کے ایجنڈے کے مطابق بے راہ روی پھیلارہی ہے۔
غالباً جمعہ کی چھٹی اور میخانوں کی بندش ہی یہودوہنود کے بے راہ روی پھیلانے کے ایجنڈے کو کہتے ہوں گے۔
یہ الزام بھی لگایا گیا کہ بھٹو دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ خود پیپلزپارٹی کے اندر بھٹو سے اختلافات کرنے والوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جے اے رحیم، ملک سلمان، معراج محمد خان اور چودھری غلام حسین کی مثال دی جاتی کہ بھٹو کے ایما پر پی پی پی کے ان رہنمائوں پر تشدد کیا گیا۔
یہ الزام بھی لگایا گیا کہ جب اپوزیشن نے بھٹو کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلارہی تھی تو تحریک کے دنوں میں گرفتار ہونے والے رہنمائوں اور کارکنوں کو نہ صرف وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بعض کے ساتھ "فحش سلوک" بھی کیا گیا۔ اسی طرح 1977ء کی انتخابی مہم کے دوران دونوں جانب سے عجیب و غریب نعرے بھی زبان زد عام ہوئے۔
تلخ حقیقت یہی ہے کہ خود کو اسلامی اخلاقیات اور پاکستانیت کا وارث کہنے والے قومی اتحاد کے کارکنوں نے اس حوالے سےپہل کی تھی۔
اسی انتخابی مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو کے بارے میں ایسی زبان اسلام پسندوں نے استعمال کی کہ اسے سن کر کسبیوں نے بھی دانتوں میں انگلیاں دبالیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی سخت جواب دیئے گئے لیکن پیپلزپارٹی نے کم از کم پی این اے کے رہنمائوں کی خواتین کو بحث کا موضوع نہیں بنایا۔
ان دوطرفہ بعض عامیانہ نعروں کے زور و شور کے دوران پیپلزپارٹی نے قومی اتحاد کے 9 ستاروں پر ایک جوابی نعرہ اپنے اجتماعات میں لگایا یہ نعرہ پی این اے مخالفین کی زبانوں پر چڑھا تو جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانیؒ نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ٹیلیفون پر شکوہ کیا۔ نورانی میاں کے شکوے پر بھٹو نے حفیظ پیرزادہ، شیخ رشید اور ناصر علی رضوی کو طلب کرکے انہیں ہدایت دی کہ کارکنوں کو اس طرح کے نعروں سے باز رکھیں۔
تاریخ کا جبر کہیں یا زمینی حقائق چند برس بعد جب تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی اتحاد بنانے کے لئے صلاح مشورے شروع کئے تو پی این اے کی وہ جماعتیں بھی اس میں شامل تھیں جن کے سربراہ پی این اے کی انتخابی مہم اور بعد میں بھٹو مخالف احتجاجی تحریک کے دوران بھٹو کے خلاف سب سے زیادہ سخت زبان استعمال کرتے تھے
اسی عرصے میں تحریک استقلال کے سربراہ اور پی این اے کے ایک رہنما ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ کے پل پر اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کا بھی اعلان کیا۔
1977ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے پی این اے نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات اور ان انتخابات کے ابتدائی مراحل کاغذات نامزدگی جمع کرانے وغیرہ کے مراحل میں بعض افسوسناک واقعات ہوئے۔
لاڑکانہ میں اسوقت کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل (یہ صاحب آگے چل کر پیپلزپارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر بھی بنے خالد کھرل حال ہی میں پی پی پی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں جانے والے مخدوم سید فیصل صالح حیات کے قریبی عزیز بھی ہیں) نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرایا جس کی بدولت بھٹو بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بلامقابلہ منتخب ہونے کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کے بعض دیگر رہنمائوں کو بھی بلامقابلہ منتخب ہونے کا "شوق" چرایا۔ ملتان میں پیپلزپارٹی کے امیدوار نواب صادق حسین قریشی نے اپنے مخالف امیدوار عطا اللہ ملک کو اغوا کرکے تشدد کروایا اس طرح کے مزید واقعات بہرطور انتخابی عمل کے مختلف مراحل میں ہوئے۔
قومی اسمبلی کے لئے ووٹنگ والے دن اور رات گئے نتائج کے اعلان کے بعد پاکستان قومی اتحاد نے بھٹو حکومت پر سنگین دھاندلیوں کے الزامات لگاتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بایئکاٹ کرنے کا اعلان کردیا اس کے ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ اتحاد کی قیادت بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا جلد ہی اعلان کرے گی۔
پیپلزپارٹی نے ابتداً دھاندلی کے الزامات کو مسترد کردیا لیکن احتجاجی تحریک کے دنوں میں جب اپوزیشن حکومت مذاکرات شروع ہوئے تو قومی اسمبلی کی 32 یا 40 نشستوں کے ساتھ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دوبارہ کروانے پر اتفاق رائے ہوگیا۔ یہ اتفاق رائے عملی شکل اختیار نہ کرپایا اور ملک میں 5 جولائی 1977ء کو تیسرا مارشل لاء لگادیا گیا (ہم آگے چل کر اس پر تفصیل سے بات کریں گے)
صوبائی اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور دھاندلی کے الزامات پر حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کچھ ابتدائی کوششیں ہوئیں ان کا خوشگوار نتیجہ اس لئے نہ نکل پایا کہ پی این اے کے تین قائدین پیر صاحب پگاڑا، ایئر مارشل اصغر خان اور محترمہ بیگم نسیم ولی خان صاحبہ بھٹو حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔
اصغر خان تو بھٹو کا نام آتے ہی ہتھے سے اکھڑ جایا کرتے تھے۔ پی این اے کی احتجاجی تحریک چند ہی دنوں میں پرامن تحریک سے پرتشدد تحریک میں تبدیل ہوگئی۔
فریقین اس تشدد کے در آنے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے اور الزامات اچھالتے رہے۔
اس احتجاجی تحریک کے دوران پاکستان میں امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کی پھرتیاں دیکھنے والی رہیں۔
امریکی سفیر نے 15 فروری 1977ء سے اپریل 1977ء کے دوران چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے متعدد دورے کئے اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔
امریکی سفیر اور ا صغر خان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ امریکی سفیر کی پھرتیوں، دوروں اور اپوزیشن رہنمائوں سے مسلسل رابطوں بالخصوص اصغر خان سے ملاقاتوں کی بدولت یہ رائے قائم ہوئی کہ پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک کے پیچھے امریکہ بہادر بہ نفس نفیس موجود ہے۔
اپریل 1977ء میں ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے وفاقی حکومت کو رپورٹ دی کہ پی این اے کو غیرملکی سرمایہ فراہم کیا جارہا ہے اس حوالے سے امریکی سفیرکے علاوہ ایک برادر اسلام ملک کے سفیر کی بعض ملاقاتوں اور دیگر امور کی نشاندہی بھی کی گئی اس رپورٹ کے بعد پی پی پی حکومت کا پی این اے کے لئے رویہ سخت ہوگیا۔
پی این اے نے گو غیرملکی مالی تعاون کے الزام کو مسترد کردیا لیکن آگے چل کر پی این اے کے سیکرٹری جنرل محمد رفیق باجوہ ایڈووکیٹ کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لئے جماعت اسلامی نے جو کردار ادا کیا اس وقت بعض حلقوں نے یہ دعویٰ کیا کہ رفیق باجوہ کے پاس غیرملکی مالی امداد کے ٹھوس شواہد موجود تھے اس لئے جماعت اسلامی انہیں پی این اے کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے ہٹوانے کے لئے سرگرم ہوئی اور بالآخر رفیق باجوہ پر بھٹو سے خفیہ ملاقات کرنے کا الزام لگاکر انہیں عہدہ سے ہٹادیا گیا۔
ان کی جگہ پروفیسر غفور احمد پی این اے کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ جماعت اسلامی پی این اے کے قیام کے وقت بھی سیکرٹری جنرل کے عہدے کی خواہش مند تھی لیکن مسلم لیگ، جے یو پی اور تحریک استقلال کے ساتھ این ڈی پی کے ذمہ داران اس کے حق میں نہیں تھے۔
تحریک استقلال اور جے یو پی نے سیکرٹری جنرل کا عہدہ جماعت اسلامی کو دینے کی صورت میں اتحاد سے الگ ہونے کا عندیہ دیا تھا جس پر جماعت اسلامی پیچھے ہٹ گئی لیکن اس نے اپنے زخم کو بھرنے نہیں دیا۔
اسی طرح پی این اے کی تحریک کو مالی وسائل فراہم کرنے کے الزام کی زد میں آنے والے برادر اسلامی ملک کے سفیر ریاض الخطیب نے آگے چل کر حکومت اور پی این اے میں مصالحت کروانے کے لئے کردار بھی ادا کیا۔ (جاری ہے)